معیشت کی بحالی کیلئے کتابی تھیوریز نہیں، زمینی حقائق دیکھنا ہوں گے

May 31, 2020

(عکّاسی:اسرائیل انصاری)

ظفر ایم شیخ بینکنگ سیکٹر کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔24 برس دبئی، نیویارک اور لندن میں مختلف بینکوں میں اعلیٰ عُہدوں پر کام کرتے رہے۔2000ء میں گورنر اسٹیٹ بینک کے مشیر کی حیثیت سے ذمّے داریاں سنبھالیں۔’’ قومی بچت‘‘ جیسے بڑے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔ ان دنوں ایک نجی بینک کے سربراہ ہیں۔ گزشتہ دنوں ہماری ظفر شیخ سے مُلکی معاشی و اقتصادی صُورتِ حال سے متعلق ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنی تعلیم اور کیرئیر کے بارے میں کچھ بتائیے؟

ج: میرا حیدرآباد(سندھ) سے تعلق ہے۔ 1976ء میں سندھ یونی ورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا، پھر دبئی میں قائم ہونے والے ایک نئے بینک میں ملازمت مل گئی، یوں وہاں منتقل ہوگیا۔ بعدازاں، اُسی بینک کی نیویارک اور لندن میں کام یاب برانچز کھولیں۔ دوبارہ دبئی آکر مختلف بینکس میں کام کرتا رہا۔ فارن ایکسچینج اور ڈیٹ مینجمنٹ میں لندن سے تربیت حاصل کی اور اس شعبے میں میری مہارت کو ہر جگہ تسلیم کیا گیا۔2000ء میں پرویز مشرف حکومت نے مجھ سے رابطہ کیا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو میری ضرروت ہے، مَیں نے اس پر لبیک کہا اور محض مُلک کی خدمت کے جذبے کے تحت دبئی کے مقابلے میں خاصی کم تن خواہ پر کام شروع کردیا۔ مجھے گورنر اسٹیٹ بینک کا مشیر مقرّر کیا گیا۔ بعدازاں، وفاقی وزارتِ خزانہ میں ڈائریکٹر جنرل ڈیٹ(DEBT) اور ڈائریکٹر جنرل نیشنل سیونگز بھی رہا۔ ان دنوں ایک نجی بینک سے بطور سی ای او وابستہ ہوں۔

سابق صدر پرویز مشرف کو بریفنگ دے رہے ہیں

س: مشرف دَور میں روپیا خاصا مستحکم رہا، اس کی کوئی خاص وجہ تھی؟

ج: پرویز مشرف نے مجھے ایکسچینج ریٹ، فارن ریزروز اور قرضوں سے متعلق معاملات درست کرنے کا ٹاسک دیا تھا۔ اُس وقت روپیا شدید گراوٹ کا شکار تھا اور مُلکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی بُری حالت تھی، یوں سمجھیے کہ صرف چند روز کے ذخائر باقی رہ گئے تھے۔ صُورتِ حال یہ تھی کہ ڈالر کی انٹر بینک مارکیٹ میں شرحِ تبادلہ 64 اور حوالہ مارکیٹ میں 68 تھی۔ ہم نے ایک خصوصی سروے کروایا، تو پتا چلا کہ صرف کراچی ائیرپورٹ سے یومیہ 10 ملین ڈالرز باہر جا رہے ہیں۔ اس سنگین صُورتِ حال میں ہم نے معاملات کو اس طرح سنبھالا کہ انٹر بینک اور حوالہ مارکیٹ کے درمیان چار روپے کا فرق صفر ہوگیا۔ اس سے ایک فوری فائدہ یہ ہوا کہ پاکستانی تارکینِ وطن کی جانب سے بھجوائی جانے والی رقوم 80 کروڑ ڈالرز سے بڑھ کر 6 ارب ڈالرز ہوگئیں۔ دراصل، ہمارے حقیقی ہوم رمیٹینس 15 بلین ڈالرز تھے، مگر بینکس کے ذریعے صرف 80 ملین ڈالرز آ رہے تھے اور باقی سب ہنڈی مارکیٹ کو مل رہے تھے۔ درحقیقت ہنڈی کا کاروبار انٹر بینک مارکیٹ پر انحصار کرتا ہے کہ وہاں سے ڈالر کا کیا ریٹ نکلتا ہے، تو ہم نے غیر قانونی کاروبار کی بنیادوں کو نشانہ بنایا۔ اُس دور میں ڈالر ایک دن میں تین، تین روپے بڑھ رہا تھا، جس سے حوالہ مارکیٹ فائدہ اُٹھا رہی تھی، ہم نے اُسے روکا اور ڈالر کو 57 روپے تک لے آئے، جس سے غیر قانونی کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ نیز، ہم نے ہنڈی کاروبار کے توڑ کے لیے دبئی حکومت سے بھی مدد حاصل کی ۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: ماضی کے تجربات کی بنیاد پر اب روپے کے استحکام کے لیے کیا کیا جائے؟

ج: اِس وقت تو حکومت کا سارا انحصار اُدھار پر ہے، جب ضرورت پڑی، کہیں سے مال پکڑ لیا۔جب ڈالر کی قدر ایک روپے بڑھتی ہے، تو مُلک پر 100 ارب ڈالرز کا قرضہ بڑھ جاتا ہے۔اِسی طرح جب انٹریسٹ ریٹ ایک فی صد بڑھتا ہے، تو دو ڈھائی ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اگرچہ حکومتی معاشی ماہرین کتابی باتوں کی بنیاد پر اپنے اقدامات کو درست ثابت کردیں گے، جیسے اُن کے بقول تجارتی خسارے میں کمی ہوئی ہے، لیکن زمینی حقائق تو کوئی اور کہانی سُنا رہے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں، کمرشل بینکس کو پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ کیش کرنسی عوام سے خرید کر اسٹیٹ بینک کے حوالے کریں اور اپنا کمیشن چارج کریں۔ اسی طرح بینکس کو اپنے غیر مُلکی کرنسی اکاؤنٹس ڈالرز اور یورو وغیرہ میں کھولنے کی ترغیب دی جائے۔ ہمیں قرضے لینے کی روش تَرک کرکے ڈالرز کی کمی پوری کرنے کے لیے اپنے سپلائی سسٹم میں موجود ڈالرز کو کام میں لانا چاہیے۔

س: سپلائی سسٹم میں ڈالر کہاں ہیں؟

ج: اگر ہم پرائز بانڈز، نیشنل سیونگ سرٹیفیکیٹس اور قومی بچت کی دیگر اسکیمز ڈالرز، یورو اور ین کی بنیاد پر متعارف کروائیں، تو آپ دیکھیں گے کہ مُلک میں کس طرح ڈالرز آتے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے ہمیں پاکستانی تارکینِ وطن سے فائدہ اٹھانا ہوگا، جوکہ بدقسمتی سے نہیں اُٹھایا جا رہا۔ یاد رہے، جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے، تو معاشی حالات بہت خراب ہوگئے تھے، اُن حالات میں نیشنل سیونگز کے ادارے نے مختلف اسکیمز کے ذریعے ڈیڑھ، دو ارب ڈالرز جمع کیے۔ نواز شریف نے 18 پرسینٹ پر جو بانڈز جاری کیے تھے، اُس کی ادائیگیاں بھی اسی ادارے کو کرنی پڑیں، مگر اس کے باوجود جو ادارہ ساٹھ برسوں میں 1030 ارب پر پہنچا تھا، وہ ہم نے 2500 ارب پر پہنچا دیا تھا۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ قومی بچت کے اس ادارے سے اچھی حکمتِ عملی کے تحت کام لیا جائے، تو یہ مُلک کو بہت کچھ دے سکتا ہے۔ اِس ضمن میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ہمیں مختلف ڈیمز کی تعمیر کے لیے بھی بانڈز جاری کرنے چاہئیں، اس سے غیر مُلکی اداروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑیں گے۔ پھر یہ کہ ڈالرز کی بیرونِ مُلک اسمگلنگ بھی ایک سنجیدہ معاملہ ہے، اس کی روک تھام کے بغیر روپیا مستحکم نہیں ہو سکے گا۔ اِس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اسٹیٹ بینک کا یہ کام نہیں کہ وہ ہنڈی والوں سے معاملات طے کرتا پِھرے، اُس کا کام صرف بینکس سے ڈیلنگ کرنا ہے۔ ہمارے دور میں اسٹیٹ بینک نے ہنڈی والوں کے ساتھ کام بند کردیا تھا، جس کے فوائد سب کے سامنے ہیں۔ حالاں کہ اس حوالے سے ہم پر بہت دباؤ بھی تھا۔

س: کیا موجودہ شرحِ سود انڈسٹری کی نمو کے لیے مناسب ہے؟

ج: آئی ایم ایف سب سے زیادہ انٹریسٹ ریٹ پر فوکس کرتی ہے، حالاں کہ کرنسی کا گرنا اور شرحِ سود میں اضافہ معیشت کو تباہ کردیتا ہے۔ہم بھی آئی ایم ایف کے پروگرام میں تھے، مگر ہم نے اُنھیں اس بات پر قائل کیا تھا کہ پاکستان کی مارکیٹ کا امریکا یا یورپ کی مارکیٹس سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں کے اور یہاں کے کاروباری اسٹرکچر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ٹھیک ہے، کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ افراطِ زر بڑھے، تو شرحِ سود بڑھا دو، مگر یہ فارمولا ہر جگہ ایک ہی طرح سے لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ بعض مواقع پر اس طرح کے مسائل کے حل کے لیے غیر روایتی طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ اِس حوالے سے سابق گورنر اسٹیٹ بینک، ڈاکٹر عشرت حسین کے( جو اِن دنوں وزیرِ اعظم کے مشیر بھی ہیں) دو متضاد بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ ایک میں وہ کہتے ہیں کہ شرحِ سود اِس لیے بڑھائی کہ افراطِ زر پر قابو پانا ہے اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں، افراطِ زر پر قابو پانے کے لیے شرحِ سود کم کرنی پڑی۔ بتایا جائے، اِن دونوں میں سے کون سی تھیوری درست ہے؟ معیشت میں بہتری کے لیے کئی ممالک میں کتابی تھیوریز کی بجائے آؤٹ آف باکس حل تلاش کیے جاتے رہے ہیں اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ حکومتی معاشی ٹیم بتائے، شرحِ سود چھے سے تیرہ فی صد تک کرنے سے کیا فائدہ ہوا؟ حقیقت یہی ہے کہ اس اقدام سے فائدہ کچھ بھی نہیں ہوا، جب کہ نقصانات کی طویل فہرست ہے۔تاہم اچھی بات یہ ہے کہ کورونا وبا کے دوران شرحِ سود میں کی گئی کمی سے انڈسٹری کو سنبھلنے میں مدد ملے گی۔ اگر عالمی تناظر میں بھی دیکھا جائے، تو پاکستان میں شرحِ سود پانچ، چھے فی صد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ مَیں حیران ہوں کہ ایک طرف تو وزیرِ اعظم، عمران خان کہتے ہیں کہ 2020ء نوجوانوں کو ملازمتیں دینے کا سال ہے، مگر اُنھیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اتنی زیادہ شرحِ سود پر کون سی انڈسٹری چل سکتی ہے؟ ہمیں سالانہ 20 لاکھ ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، مگر دو فی صد گروتھ ریٹ پر یہ ٹاسک کسی صُورت حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

س: لیکن مالیاتی خسارے میں کمی تو بڑی کام یابی ہے؟

ج: ہاں اس بات کا بہت چرچا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ہماری درآمدات کس مَد میں کم ہوئی ہیں، جس سے مالیاتی خسارے میں کمی واقع ہوئی؟ اگر کیپیٹل گُڈز کی مَد میں کمی ہوئی ہے، یہ تو معاشی تباہی کے مترادف ہے۔ البتہ، لگژری گُڈز میں درآمدات کی کمی ہوئی ہو، تو یہ اچھی خبر ہے۔ تاہم لگتا یہی ہے کہ اِس ضمن میں اتنی کام یابی حاصل نہیں ہوئی، جتنا کہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ سب دکھاوا اور اعداد وشمار کا چکر ہے۔ اگر درآمدات واقعتاً کم ہوئی ہیں، تو بتایا جائے کون کون سے مقامی اشیاء اور صنعتوں کو فروغ ملا ہے؟ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان دنوں ٹریژری بلز میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے،جس پر تیرہ فی صد کے قریب منافع یقینی ہے، جب کہ دیگر فوائد اس کے علاوہ ہیں۔ اگر ان بیرونی سرمایہ کاروں نے اپنے سرمائے کو بلا روک ٹوک ڈالرز کی صُورت میں واپس لے جانا شروع کردیا، تو معاشی حالات بہت خراب ہوجائیں گے۔لہٰذا، اس ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی طور پر ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہئیں۔

س: کون کون سی حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور کس کی معاشی پالیسیز بہتر تھیں؟

ج: پرویز مشرف، زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔پرویز مشرف کے پہلے تین سال اچھے تھے۔ وہ معاشی حالات بہتر بنانے میں بہت سنجیدہ تھے، یہاں تک کہ ہم سے ملنے کے لیے ہمارے دفتر تک آجایا کرتے اور معاشی امور پر صلاح مشورے کرتے۔ بعدازاں، بوجوہ معاملات بگڑے، خاص طور پر شوکت عزیز کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد وہ معاشی معاملات سے ایک طرح سے الگ ہوگئے تھے۔ یقیناً ماضی کی حکومتوں نے بہت سی حماقتیں کیں، اسحاق ڈار کی ڈالر ریٹ سے متعلق پالیسی بھی مناسب نہیں تھی، اُنہوں نے عارضی طور پر تو ڈالر ریٹ کنٹرول میں رکھا، لیکن بعد میں یہ طریقہ نقصان دہ ثابت ہوا، مگر اس سب کچھ کے باوجود سارا الزام ماضی کی حکومتوں پر تھوپ دینا درست نہیں۔ موجودہ حکومت نے بہت سی غلطیاں کی ہیں اور کئی معاملات میں اس کی سمت ہی درست نہیں۔

س: ایف بی آر میں اصلاحات کس قدر مفید ثابت ہو رہی ہیں؟

ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ جب مُلک میں کاروبار ہی نہیں ہوگا، تو ایف بی آر کیا کرے گی؟ کوئی ایک کاروباری شخص بتا دیں، جو حکومتی پالیسیز سے مطمئن ہو۔منہگائی اور بے روزگاری نے جو تباہی مچائی ہے، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکس بہت زیادہ جمع ہوسکتا ہے، لیکن اس کے لیے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آگے بڑھنا ہوگا۔ مثال کے طور پر تاجر فِکس ٹیکس کا مطالبہ کر رہے ہیں، تو اس پر غور کرنے میں کیا حرج ہے؟افغان ٹرانزٹ ٹرید بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اس حوالے سے بنیادی نوعیت کی اصلاحات ضروری ہیں، کیوں کہ اِس کی آڑ میں بہت کچھ غلط ہو رہا ہے۔لاک ڈاون کے سبب کاروبار کو بہت نقصان ہوا، لہٰذا اب تو پورا ٹیکس نظام ہی بدلنا پڑے گا۔

س: آپ کا بینکنگ سیکٹر کا طویل تجربہ ہے۔یہ بتائیے کہ نوجوانوں کو ایم بی اے کرنے کے بعد بھی مالیاتی اداروں میں ملازمتیں کیوں نہیں مل رہیں؟

ج: اس کی ایک وجہ تو نئی ملازمتوں کا پیدا نہ ہونا ہے، مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایم بی اے اور ایم اے اکنامکس میں فارن ایکسچینج اور ڈیٹ مینجمنٹ کے مضامین شامل کیے جانے چاہئیں کہ ان کی اِس وقت مارکیٹ میں بہت مانگ ہے۔ہمارے طلبہ مانیٹری پالیسی، انٹریسٹ ریٹ اور قرضوں سے متعلق معاملات پر چند رٹے رٹائے جملوں کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔