ترین اور عمران میں فاصلے پہلے سے ہی زیادہ ہوچکے تھے، سہیل وڑائچ

May 24, 2020

کراچی (ٹی وی رپورٹ)معروف تجزیہ کار ، سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان فاصلے پہلے سے ہی زیادہ ہوچکے تھے اور یہ انکوائری بھی اسی کا نتیجہ ہے۔

گورننس ٹھیک نہ ہونے ، ٹیم ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے عمران خان کا جو خواب تھا وہ پورا نہیں ہوسکا،حکومت کے لئے سب سے بڑا امتحان حکومت بنانا نہیں حکومت چلانا ہے۔

اس بار تبدیلیاں پہلے صوبوں میں آئیں گی پھر مرکز میں آئیں گی، میں نے جو کچھ بھی سیکھا ہے وہ اپنے جونیئر اور سینئر سے سیکھا ہے میں آج بھی صحافت کا ادنیٰ طالب علم ہوں ۔وہ جیو کے پروگرام جرگہ میں میزبان سلیم صافی کی سوالات کے جوابات دے رہے تھے ۔

اس سے قبل سہیل وڑائچ کے حوالے سے آگاہی فراہم کرتے ہوئے سلیم صافی کا کہنا تھا پاکستان میں صحافیوں میں چند ایسے لوگ ہیں جو حقیقی معنوں میں تجزیہ کار کی تعریف پر پورا اترتے ہیں جن میں سرفہرست نام سہیل وڑائچ کا ہے سہیل وڑائچ سخت سے سخت بات بھی نرم لہجے میں کہہ دیتے ہیں ، سہیل وڑائچ کا کمال یہ بھی ہے کہ وہ نہ افراط و تفریق کاشکار ہوتے ہیں نہ جذبات میں آتے ہیں ۔

سہیل وڑائچ جیسے دور اندیش صحافی نے اپنے کالم میں نواز شریف کو خبردار کردیا تھا کہ ان کا اقتدار بھی ختم ہونے جارہا ہے اوروہ جیل بھی جانے والے ہیں یہی نہیں اس سے بھی بڑھ کر سہیل وڑائچ صاحب ہمارے ساتھ بیٹھتے تو کہتے کہ اگلے وزیراعظم عمران خان ہوں گے اور ہم نے دیکھا ان کی یہ پیش گوئی بھی درست ثابت ہوئی ۔

سہیل وڑائچ نے اپنی گفتگو میں مزید کہا حکومت کے لئے سب سے بڑا امتحان حکومت بنانا نہیں حکومت چلانا ہے ، یاد وہ حکومت رہ جاتی ہے جو عوام کے لئے کچھ کرجاتی ہے ۔

پاکستان کی عوام کو لگا کہ شاید پاکستان کا مسئلہ صرف کرپشن ہے یہی وجہ ہے کہ مڈل کلاس کو یہ نعرہ اچھا لگا اور وہ سمجھ بیٹھے کہ صرف کرپشن ہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان آگے نہیں بڑھ پارہا حالانکہ مثال غلط تھی مگر لوگوں کو بہت پسند آئی ۔

یہی وجہ تھی کہ عوام سمجھ بیٹھی کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے سے گورننس اور کرپشن کے مسئلے حل ہوجائیں گے ۔ہمارے سرکاری ملازم ، ججز ، فوج یہ سب مڈل کلاس سے ہیں اور ان کی سوچ یہی تھی کہ ہم مڈل کلاس ایماندار اور یہ جو بزنس کلاس ہے یہ بے ایمان ہے ۔گورننس ٹھیک نہ ہونے ، ٹیم ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے عمران خان کا جو خواب تھا وہ پورا نہیں ہوسکا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان دیانت شخص ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی ٹیم جس کا انتخاب بالکل انہوں نے درست کیا ہوگا لیکن کیا ان کی پلیسنگ بھی ٹھیک تھی جس کو جو ڈیوٹی دی تھی کیا وہ نبھارہا ہے ۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کے دور میں بھی فائلیں مین ٹین ہورہی ہیں جس طرح بھٹو کے دور میں میں ٹین ہوا کرتی تھیں اور وہ اپنے وزراء سے اتنا کام بھی لیتے تھے مگر یہاں کام نہیں ہورہا ہے صرف جدوجہد ہورہی ہے ۔

عمران خان کا ووٹر ابھی مایوس نہیں ہوا ہے کیونکہ اس کا خواب ٹوٹا نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے خواب کو بار بار ایکسٹینشن مل رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ احتساب کا خواب بار بار مڈل کلاس کو دکھایا جارہا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب احتساب ختم ہوگا تو پھر ڈلیوری کا سوال پیدا ہوگا ۔

جیلوں میں بھرنے سے سیاسی اور انتقامی تسکین تو ہوجاتی ہے لیکن مڈل کلاس کا اس سے پیٹ نہیَں بھرتا اور یہ پیٹ کی آگ باقی سب تسکینوں کو بھلادیتی ہے ۔ نواز شریف کی پالیسی یہ ہے کہ خاموش رہو اور ان کی غلطیاں لوگوں تک پہنچنے دو ۔

شوگر کمیشن رپورٹ پر بات کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا اس کا عمران خان کو سیاسی فائدہ ہوگا مگر وقتی ، جس کے بعد دوسرا بیانیہ سامنے آنے لگے گا اور وہ بیانیہ ہوگا سیاسی نقصان کا کیونکہ پاکستان کے اندر اب بھی جو پولٹیکل ہیوی ویٹ ہیں ان کا ایک کردار ہے۔

اگر آپ شوگر مافیا کے 8 ، 10لوگوں کے نام لے آتے ہیں تو ابھی تو وہ مصلحت کے ساتھ خاموش ہوجائیں گے لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اگلے الیکشن میں وہ عمران خان کے ساتھ نہیں ہوں گے ان کے خلاف الیکشن لڑتے نظر آئیں گے کیونکہ دنیا میں ہمیشہ اچھے وقت کا انتظار کیا جاتا ہے اور وہ وقت اگر ان کے لئے اچھا ہوگا تو عمران خان کے لئے بحران کا وقت ہوگا ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان فاصلے پہلے سے ہی زیادہ ہوچکے تھے اور یہ انکوائری بھی اسی کا نتیجہ ہے اور انہی فاصلوں کی وجہ سے ان کی کچن کیبنٹ میں یہ تاثر پہلے سے موجود تھا کہ جہانگیر ترین متبادل پرائم منسٹر بننا چاہتے ہیں۔

پہلے عمران خان کے نزدیک بہت سارے لوگ تھے لیکن جب سے بیگم صاحبہ آئی ہیں ایک تبدیلی سی آگئی ہے ، بیورو کریسی میں اعظم خان ہیں جو ان کے قریبی ہیں اور سیاست میں زلفی بخاری ، اسد عمر ، شاہ محمود قریشی اور شفقت محمود ہیں ۔