عمران خان اور تاریخ کا دھارا

May 27, 2020

ملک میں چینی کی قیمتوں میں دسمبر 2018سے فروری 2020کے دوران تقریباً24 روپے کلو تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس سے چینی ملز مالکان نے نہ صرف اربوں روپے عوام سے لوٹے بلکہ چینی کی برآمد پہ بھی حکومت سے اربوں روپے کی سبسڈی حاصل کر کے اپنی تجوریاں بھر لیں۔

چینی کی قیمتوں میں اس ریکارڈ اضافے پہ شور و غوغا ہوا تو وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف اعتراف کیا کہ ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کی لاپروائی کی وجہ سے ہوا بلکہ انہوں نے اس ناجائز اضافے کی شفاف تحقیقات کے لیے ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بھی قائم کر دی۔

کمیٹی کو تحقیقات مکمل کرنے کیلئے ڈیڈلائن دی گئی جس میں اس نے عبوری رپورٹ پیش کی جس کی روشنی میں وفاقی کابینہ میں قلمدانوں کی تبدیلی عمل میں آئی، کمیٹی نے سفارش کی کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی جامع تحقیقات اور ذمہ داران کے تعین کے لیے فرانزک آڈٹ ضروری ہے جس کے لیے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے چنانچہ وزیراعظم نے انکوائری کمیٹی کی سفارش کی روشنی میں واجد ضیاء کی ہی سربراہی میں انکوائری کمیشن قائم کر دیا جس میں متعلقہ اداروں کے ساتھ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندوں کو بھی شامل کیا گیا۔

انکوائری کمیشن نے رپورٹ پیش کرنے کے لیے ڈیڈلائن میں چند دن کی توسیع لینے کے بعد فرانزک آڈٹ کی تقریباً ساڑھے تین سو صفحات پہ مبنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کر دی، چینی کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے ارکان کو شوگر مافیا کی طرف سے دھمکیاں بھی دی گئیں یہاں تک کہ وزیر اعظم عمران خان کو بھی سنگین سیاسی نتائج سے خبردار کیا گیا تاہم انہوں نے تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔

کمیشن کی تفصیلی رپورٹ میں ان تمام وارداتوں کا سراغ لگایا گیا ہے جو برسوں سے یہ شوگر مافیا ہر حکومت میں شامل ہونے کے بعد اس قوم کے ساتھ کرتا آ رہا ہے۔

پاکستان میں انکوائری کمیٹیاں اور کمیشن بنانے کا رواج عام ہے لیکن کسی کمیٹی یا کمیشن کی رپورٹ کو عام کرنے اور اس پہ عمل درآمد کرنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر رہا ہے جس کی وجہ سے ملک اور عوام کی تقدیر سے کھلواڑ آج تک نہیں رک سکا ہے۔

بطور قوم ہم نے ہمیشہ حقائق سے چشم پوشی کی۔ ملک کے دو لخت ہونے کا عظیم سانحہ ہو یا پاک سر زمین پر امریکی میرینز کی کا رروائی ہم نےہمیشہ سچ سے راہ فرار ہی اختیار کی۔ قومی سانحات اور حادثات پر کبھی حمود الرحمٰن کمیشن بنایا تو کبھی ایبٹ آباد لیکن سچ کی کڑواہٹ محسوس ہونے پر ریت میں سر دے دیا۔

ہر سال دسمبر آنے پر تلخ گھونٹ پیے لیکن اتنا ظرف پیدا نہ کر سکے کہ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لا کر ان عوامل اور کرداروں کا تعین کرتے جن کی وجہ سے ہمیں خون کے آنسو رونے پڑے۔

ہم نے کبھی کھوج لگانے کی زحمت نہیں کی کہ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو جب لیاقت باغ راولپنڈی میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا تو پاکستان میں جسٹس محمد منیر کے نام سے بننے والے پہلے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو ملکی مفادات کے نام پر کلاسفائیڈ قرار دیکر چپ کیوں سادھ لی گئی تھی۔

اسی طرح ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے جنرل ضیاء الحق کے طیارہ حادثہ کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس شفیق الرحمٰن کی سربراہی میں کمیشن بنایا گیا، ملکی اور بین الاقوامی سازش کے تانے بانے سلجھانے کی کاوش کی گئی اور جب اس کے کرداروں کے چہرے پر سے نقاب ہٹانے کے لئے رپورٹ تیار ہو گئی تو مٹھیاں بھینچ لی گئیں ۔

جو آج تک نہ کھل سکیں سولہ دسمبر 1971کے سقوط ڈھاکہ کے بعد بطور خود مختار ریاست پاکستان کو جس بڑی ہزیمت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا وہ 2مئی 2011کو ایبٹ آباد کی سر زمین پر امریکی میرینز کا وہ آپریشن تھا جس میں انہوں نے دنیا کے انتہائی مطلوب شخص اسامہ بن لادن کو نہ صرف ہلاک کیا ۔

بلکہ اس کی لاش بھی اپنے ساتھ لے گئی اور ہم سوتے ہی رہ گئے۔ ایک بار پھر ہاہاکار مچی، ذمہ داران کا تعین کرنے کا عزم دہرایا گیا۔ جمہوری حکومت کی درخواست پر سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایبٹ آباد کمیشن بنایا گیا۔

اس کمیشن نے دو سال کے عرصے میں 300سے زائد افراد کے بیانات لینے اور 3000دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ تیار کرلی لیکن حسبِ روایت ایک بار پھر ملکی سلامتی اور قومی مفادات رپورٹ کو عام کرنے میں آڑے آ گئے۔ جون دو ہزار گیارہ میں صحافی سلیم شہزاد کو اغواکے بعد قتل کر کے لاش پھینک دی گئی۔ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں کمیشن بن گیا،ایک اور رپورٹ کلاسیفائیڈ ڈکلیئر قرار دینے کے لئے تیار ہو گئی ۔

امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی سے منسوب میمو اسکینڈل نے پاکستان کی جمہوری حکومت کی چولیں ہلا دیں،اس بار عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کی ذمہ داری بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو سونپی گئی۔ پاکستان کے ساتھ بیرون ممالک تک بیانات قلمبند کئے گئے، حساس اداروں کے سربراہان کی پیشیاں تک ہوئیں۔

رپورٹ تیار ہوگئی لیکن اس کے اثرات کو برداشت کرنے کی ہمت ایک بار پھر پیدا نہ ہو سکی اور اسے بھی کلاسیفائیڈ والے ڈبے میں بند کردیا گیا۔اسی طرح اصغر خان کیس ہو یا بلوچ رہنما اکبر بگٹی کی ہلاکت ،ارسلان افتخار کیس ہو یا لاپتہ افراد کا معاملہ ہر تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو عوام کی پہنچ سے دور ہی رکھا گیا۔

لیکن اب چینی اسکینڈل کی رپورٹ کو عام کرکے وزیراعظم عمران خان نے قابلِ ستائش قدم اٹھایا ہے تاہم یہ ملکی تاریخ کو تبدیل کرنے کی شروعات ہیں اور اگر عمران خان واقعی ایک نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو وہ دوسرے مرحلے میں اس رپورٹ میں قرار دیے گئے تمام ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔

وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ کی طرز پہ بلا امتیاز احتساب اور انصاف کو یقینی بنانے کے لئے چینی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں نیم دلی سے درج کئے گئے اپنی کابینہ اور وزیراعلیٰ پنجاب سمیت ان تمام ساتھیوں کے خلاف بھی کارروائی کیلئے وہی پیمانہ استعمال کریں جو وہ اپوزیشن کیلئے کر رہے ہیں تو بھلے انہیں اپنے اقتدار کی قربانی دینا پڑے لیکن وہ تاریخ میں امر ہو جائیں گے۔