شیخُ الحدیث، مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ

May 29, 2020

ڈاکٹر سعید احمد صدیقی

قحط الرجال کے اس دور اور موجودہ حالات میں ایک عظیم علمی و دینی نقصان دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث و صدر المدرسین، کئی نسلوں کے معلم و مربی، استاذ الاساتذہ مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ الله علیہ سے متعلق وہ خبر ہے، جس میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے، بلا شبہ، وہ اس وقت اہلِ علم اور دینی طبقے کا عظیم سرمایہ اور گراں بہا اثاثہ تھے۔مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ اسلاف کی یادگار تھے، ان کی وفات کی خبر سن کر دل مغموم ہوا ، آنکھیں نم ہیں، ذہن پر رنج و غم کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

ولادت و تعلیم: شیخ الحدیث مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کی ولادت 1362ھ بمطابق 1942ء کو شمالی گجرات کے علاقے پالن پور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن گجرات میں حاصل کی، پھر دارالعلوم چھاپی اور مولانا نذیر احمد پالن پوری کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی، 1377ھ میں مظاہر العلوم سہارنپور میں داخلہ لیا، جہاں نحو، منطق اور فلسفہ کی بیشتر کتابیں پڑھیں۔ بعد ازاں 1380ھ بمطابق 1960ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور حدیث، تفسیر اور فقہ کے علاوہ دیگر فنون کی کتابیں پڑھیں۔ 1962ء میں دورہ حدیث کی تکمیل امتیازی حیثیت میں کی۔ بعد ازاں دارالعلوم ہی میں شعبہ افتاء میں داخلہ لیا اور فتاویٰ نویسی کی تربیت حاصل کی۔

درس و تدریس:۔1963ء میں دارالعلوم اشرفیہ میں درجہ عالیہ کے مدرس مقرر ہوئے اور تقریبا ًدس سال اپنے مخصوص دل موہ لینے والے انداز میں تدریسی فرائض بحسن وخوبی انجام دئیے، 1973ء میں دارالعلوم دیوبند میں مسند درس و تدریس کےلیے آپ کا انتخاب عمل میں آیا اور 2020ء تک تقریباً نصف صدی پر محیط تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ سنن ترمذی ، صحیح بخاری کی تدریس بڑے دل نشین انداز میں فرماتے ، آپ کے درس کے وقت کمرۂ جماعت میں طلباء کی بڑی تعداد شریک ہوتی۔ان کے علاوہ دیگر حضرات بھی استفادہ کی غرض سے جوق در جوق حاضر ہوتے۔ جب حدیث پڑھی جاتی اور شیخ الحدیث مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کی تقریر شروع ہوتی تو ایک عجیب سماں بندھ جاتا ، طلباء پر ایک سحر کی کیفیت طاری ہوجاتی ، آپ کی تقریر دلکش، سحر انگیز اور اتنی دل نشین ہوتی کہ ہر طالب علم سراپا سماعت بن جاتا اور مکمل ذہنی و فکری حاضری کے ساتھ درس گاہ میں موجود ہوتا، آپ کے اسلوب کلام اور اندازِ بیان میں ایک مقناطیسیت تھی جو طلباء کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی۔ حضرت کے درس کی خوبی یہ تھی کہ آپ اپنا ارتکاز موضوع پر رکھتے اور اس کی تفہیم میں تمام متعلقہ دلائل و براہین کو اس خوبصورتی اور منطقی ترتیب سے بیان فرماتے کہ سننے والا عش عش کر اٹھتا۔ کم و بیش 35 سال آپ نے سنن ترمذی شریف اور 2009ء سے تاحیات صحیح بخاری شریف کا درس دیا، شیخ الحدیث مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کے متعلق اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آپ پڑھاتے نہیں تھے، بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ دل نشین انداز میں تربیت کرتے تھے۔ طلباء اور سامعین کے حواس پر چھاجاتے ، ایسا لگتا کہ منہ سے موتی جھڑ رہے ہوں۔ ان کی نگاہ دل نواز اور ادا دلفریب تھی۔

مولانا پالن پوریؒ کی شخصیت میں بھی مخصوص نوع کی وجاہت تھی، جو ایک محدث کے شایان شان ہوتی ہے ،اگرچہ سادگی کے پیکر تھے ،مگر ان میں کشش ایسی تھی کہ دل و نگاہ کو اپنا اسیر بنا لیتے، قدرت نے آپ کو انتہائی ذہانت سے نوازا تھا ۔آپ کا دماغ گویا ایک وسیع و عریض کتب خانہ تھا جس میں مختلف علوم و فنون پر ہزاروں کتابیں ہر وقت موجود و مستحضر رہتیں۔

تصانیف: الله تعالیٰ نے شیخ الحدیث مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کو تصنیف و تالیف کا خصوصی ملکہ ودیعت فرمایا تھا۔ اسی لیے آپ کی کتابوں اور شروحات نے برصغیر پاک و ہند میں یکساں اور خوب خوب مقبولیت حاصل کی، آپ نے آٹھ جلدوں میں "ہدایت القرآن" کے نام سے قرآن کریم کی جامع و عام فہم تفسیر لکھی، جبکہ "تحفۃ القاری" کے نام سے بخاری شریف کی شرح بارہ جلدوں میں تحریر فرمائی، "تحفۃ الالمعی" کے نام سے آٹھ جلدوں میں سنن ترمذی کی مشہور عالم شرح لکھی۔ امام الہند شاہ ولی اللهؒ کی مشہور زمانہ تصنیف حجۃ الله البالغہ کی شرح پانچ جلدوں میں "رحمۃ الله الواسعۃ" کے نام سے لکھی اور امت پر احسان عظیم فرمایا ۔آپ نے "فیض المنعم" کے نام سے مسلم شریف کے مقدمے کی شرح بھی تحریر فرمائی۔ اس کے علاوہ بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کی متعدد کتابوں کی تسھیل فرمائی اور نئی نسل کے لئے عام فہم بنایا۔ درس نظامی کی متعدد کتابوں کی اردو زبان میں شروح تحریر فرمائیں اور لطف یہ کہ شیخ الحدیث پالن پوریؒ کے ساری کتابیں انتہائی جامع، پر مغز عام فہم ہیں۔

مولانا سعید احمد پالن پوریؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور فی زمانہ ان کا کوئی ثانی نہ تھا ،وہ سچائی کے علمبرداروں کے لئے مینارۂ نور تھے اور علوم نبوت کے امین و پاسبان تھے جو کہ مرجع خلائق کےساتھ ساتھ تشنگان علوم نبوت کے لیے وہ آب رواں تھے، جن کا فیض کبھی ختم نہیں ہوتا اور اپنے پیچھے علوم نبوت سے بہرہ مند ایک ایسی جماعت کو چھوڑ جاتے ہیں، جو ان کے فیوض و برکات کو جاری وساری رکھے اور ہمیشہ ان کے اصولوں اور طریقوں پر گامزن رہے گی۔

یہ بلند پایہ محدث جن کو الله کے نور نے ہمیشہ متحرک رکھا ۔ آج کے دور میں ان کی قیادت و سیادت کی اشد ضرورت تھی25, رمضانُ المبارک 1441 ھ بمطابق 19،مئی 2020 کو آپ اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے۔ ان کے پیروکاروں کے لئے ان کی سیرت، ان کا اخلاق، ان کی نشست و برخاست اور طرزِ زندگی ایک روشن نمونہ ہے۔ آپ کے اندر دینی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور آپ کے قول و فعل میں کوئی تضاد ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا تھا۔ آپ دنیا کے لئے ایک کھلی ہوئی کتاب اور اپنے اسلاف کی زندگی کا عملی نمونہ تھے، الله تعالی نے اس عظیم محدث کو اپنی خلق میں بے پناہ مقبولیت سے نوازا کہ ہر چھوٹا بڑا ان سے تعلق پر فخر کرتا اور ہر ایک ان سے تعلق قائم رکھنے کی دلی خواہش رکھتا تھا۔

آپ ساری زندگی ریا کاری، دکھاوے، شہرت سے دُوراور خالص الله تعالیٰ کے دین کی خدمت میں ہمہ تن مصروف عمل رہے۔ آپ کے قلب و روح میں اسلام کی محبت رچی بسی تھی، آپ اخلاص و تقوی، تواضع و انکساری کے پیکر اور اعلیٰ اسلامی اقدار کے امین تھے، دنیا کی ہر نعمت و آسائش میسر ہونے کے باوجود دنیا سے منہ موڑا اور اپنے اکابرین کے زہد و تقویٰ کو اپنائے رکھا۔

مولانا سعید احمد پالن پوری ؒایک قابلِ رشک زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے، جو ہم سب کے لیے قابل رشک اور عملی نمونے کی زندہ دعوت ہے۔ انہوں نے اپنے رب کی رضا کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ آخر میں ہم الله تعالیٰ کی عظیم بارگاہ میں دست بہ دعا ہیں کہ رحمت الٰہی انہیں اپنی پناہ میں لے لے، ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور ان کے اہل و عیال ، اصحاب ، طلبائے کرام اور پیروکاروں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ انہیں اس درجے پر فائز فرمائے جس کی وہ ہمیشہ تعلیم دیتے رہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن پر الله تعالیٰ نے اپنا انعام فرمایا۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے