کورونا وائرس .... سائنسی محاذ پر کیا ہورہا ہے؟

June 07, 2020

’’اگرچہ حکم رانوں نے اپنے مُلکوں کی سرحدیں بند کر دیں، لیکن سائنس دانوں، محقّقین اور طبّی ماہرین پر مشتمل ایک ایسی عالمی کمیونٹی وجود میں آگئی ہے، جو سرحدی پابندیوں سے بالاتر ہو کر رنگ و نسل اور مُلک و قوم کی تمیز کیے بغیر ایک ہی دشمن کے خلاف نبرد آزما ہے اور وہ دشمن ہے، کورونا وائرس۔‘‘ یہ الفاظ ہارورڈ یونی ورسٹی، امریکا کے ایک محقّق، جوناتھن کے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’تاریخِ انسانی میں پہلی مرتبہ دنیا بھر کے سائنس دان اور طبّی ماہرین کسی ایک ایجنڈے پر مل کر کام کر رہے ہیں۔ اُن کا سامنا ایک ایسے دشمن سے ہے، جو نظر نہیں آتا، مگر ہمارے اردگرد موجود ہے۔‘‘ امریکا، چین، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور دیگر کئی ترقّی یافتہ ممالک کی جدید ترین لیبارٹریز میں تجربات ہو رہے ہیں، تو سائنس دانوں نے ایمیزون اور جنوبی ایشیا کے جنگلات اور پہاڑی علاقوں کا بھی رُخ کر لیا ہے۔ وہ ان علاقوں کے طبّی ماہرین اور قبائلی بزرگوں کی مدد سے ایسی جڑی بوٹیوں کی تلاش میں ہیں، جو کورونا وائرس کے علاج میں مؤثر ثابت ہو سکیں۔

’’اطلاعات‘‘ کی وبا

ویسے تو دنیا بھر کے تقریباً تمام بڑے مُمالک کی یونی ورسٹیز، لیبارٹریز وغیرہ میں رات دن تحقیقی سرگرمیاں جاری ہیں، لیکن عالمی ادارۂ صحت (WHO) کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے کہ وہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں مرکز کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس ادارے کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ’’ہمیں روزانہ دنیا بھر سے کورونا وائرس سے متعلق تحقیق پر مبنی اوسطاً 10 ہزار سے زاید تحریریں، جو مقالہ جات، مشاہدات اور انکشافات پر مشتمل ہیں، موصول ہو رہی ہیں، جنہیں ایک مربوط نظام کے تحت دنیا بھر کی یونی ورسٹیز اور طبّی ماہرین کو مزید تحقیق کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔‘‘ عالمی ادارۂ صحت کورونا وائرس کے سدّ ِباب کی خاطر ویکسین کی تیاری کے لیے بھی متحرّک ہے اور اِس ضمن میں عالمی سطح پر ہونے والی کوششوں میں ہم آہنگی پیدا کر رہا ہے۔

اُسے اتنی بڑی تعداد میں اطلاعات موصول ہوتی ہیں کہ اُس نے اسے ’’Massive Infodemic‘‘ یعنی ’’اطلاعات کی وبا‘‘ کا نام دے دیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ’’انکشافات، تجربات اور مشاہدات کو لیبارٹریز میں سخت کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے، جس سے ان کی حقیقت کُھل جاتی ہے۔ بعض اطلاعات بنیادی سوالات کو بھی پیچیدہ بنا دیتی ہیں، جیسے فیس ماسک کب پہننا چاہیے؟ کورونا جسم کے باہر کس سطح پر یا فضا میں کتنی دیر زندہ رہ سکتا ہے؟ اور یہ کہ یہ وائرس بنیادی طور پر کس طرح پھیلتا ہے؟ اگرچہ ان سوالات کے جوابات اب دست یاب ہیں، لیکن خود ساختہ ماہرین اُنہیں متنازع بنا دیتے ہیں، جس سے حقیقی ریسرچرز کی ذمّے داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔‘‘ ماہرین کے مطابق، یہ وبا دوسرے مرحلے میں داخل ہو چُکی ہے۔

دن میں کئی بار صابن سے ہاتھ دھونے، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے، کھانسی اور نزلے کی صُورت میں یا عام حالات میں جہاں قربت بہت زیادہ ہو، ماسک پہننے اور قوّتِ مدافعت کو مضبوط بنانے جیسی حفاظتی تدابیر اب تقریباً ہر شخص کے علم میں ہیں۔ نیز، بیش تر افراد ان حفاظتی تدابیر پر عمل بھی کر رہے ہیں۔

ویکسین کی تیاری کے لیے مقابلہ

سائنس دان اور طبّی ماہرین ادویہ کے علاوہ کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری میں بھی مصروف ہیں، کیوں کہ ماہرین کے نزدیک بالآخر ویکسین ہی اس مہلک مرض کا حتمی اور پائیدار حل ہے۔ پھر شاید دنیا بھر کی معروف فارماسیوٹیکل کمپنیز نے ویکسین کی تیاری میں اِس لیے بھی اربوں ڈالرز لگادئیے ہیں کہ مستقبل میں ساری رقم بھاری منافعے سمیت وصول ہوجائے گی۔ گو کہ برطانوی وزیرِ صحت کے اس بیان نے مایوسی پھیلائی کہ’’ویکسین کی تیاری محض ایک خوش فہمی ہے‘‘ لیکن ماہرین ہرگز مایوس نہیں، البتہ یہ کام مشکل اور پیچیدہ ضرور ہے، کیوں کہ ماضی میں ایڈز کے خلاف ویکیسن کی تیاری کے دعوے بھی بے بنیاد ثابت ہوئے تھے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق فی الوقت آٹھ، نو ممالک ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں، جب کہ اس مقصد کے لیے 40 ممالک نے 8 ارب ڈالرز مختص کیے ہیں۔ عطیہ دینے والوں میں برطانیہ، فرانس، سعودی عرب، جاپان اور ایران شامل ہیں۔ بل گیٹس نے ذاتی طور پر ڈھائی کروڑ ڈالرز دیے ہیں۔ تاہم، ٹرمپ حکومت نے اس سلسلے میں سردمہری کا مظاہرہ کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکا کی متعدّد فارماسیوٹیکل کمپنیز اپنے طور پر اس منصوبے پر کام کر رہی ہیں۔ ویکسین کی تیاری کے ان مراحل کے دوران امریکی خفیہ ادارے، ایف بی آئی نے چین پر ویکسین کی تیاری سے متعلق امریکی معلومات چُرانے کا الزام لگایا، مگر چین نے الزامات کی سختی سے تردید کی۔ امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی (FDA) نے ایک کمپنی کو ویکسین کی تیاری کے دوسرے مرحلے میں اس کے کلینیکل ٹرائلز کی اجازت دی۔ پہلے مرحلے میں ویکسین 45 صحت مند رضا کاروں پر آزمائی گئی۔

یہ ویکسین انسانی خلیوں میں پروٹین بنا کر قوّتِ مدافعت بڑھاتی ہے۔ ان دنوں دوسرے مرحلے میں 600 رضا کاروں پر مختلف تجربات کیے جارہے ہیں۔ یہ رضا کار دو گروپس پر مشتمل ہیں۔ ایک گروپ میں 18 سے 55 سال اور دوسرے میں 55 سال سے زاید عُمر کے افراد شامل کیے گئے ہیں۔ اُنہیں 28 روز تک ایک دوسرے سے الگ رکھا جائے گا۔ ایک اور بائیوٹیک کمپنی ’’ NOVAVAX‘‘ نے بھی ویکیسن کی تیاری کا کام اپنے ذمّے لیا ہے، جسے 38 کروڑ ڈالرز کی گرانٹ ملی ہے۔ یہ کمپنی جانوروں پر تجربات مکمل کرنے کے بعد اب آسٹریلیا کے130 رضا کاروں پر تجربات شروع کرے گی۔ ایک اور کمپنی ’’INOVIO‘‘ ڈیگو لیبارٹریز میں انسانی جین (DNA) کی بنیاد پر ویکسین تیار کر رہی ہے۔

اس مقصد کے لیے اسے ایک کروڑ ڈالرز دیے گئے ہیں۔ یہ کمپنی رواں ماہ 40 رضا کاروں پر تجربات شروع کرے گی، جن کے نتائج اگلے ماہ کے شروع میں منظرِ عام پر آئیں گے، بعد ازاں دوسرے اور آخری مرحلے کا آغاز ہوگا۔ اُدھر روس نے17 مئی کو اعلان کیا کہ وہ رواں برس اگست تک ویکسین تیار کر لے گا۔ علاوہ ازیں، معروف کمپنی جانسن اینڈ جانسن نے 2021ء کے شروع میں اپنی تیار کردہ ویکیسن متعارف کروانے کا دعویٰ کیا ہے اور ابتدا میں ایک ارب ڈوز تیار کرنے کا ہدف مقرّر کیا ہے۔ چینی کمپنیز بھی اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں، بلکہ عالمی ادارۂ صحت کو تو چین سے زیادہ اُمیدیں ہیں، کیوں کہ اس کے پاس کورونا کا ڈیٹا وافر مقدار میں موجود ہے۔

اس ضمن میں’’کان سنیو‘‘ نامی بائیو ٹیک لیب کی شہرت زیادہ اچھی زیادہ ہے، جو رواں برس دسمبر میں تجربات کا آغاز کرے گی۔ واضح رہے، اس کمپنی نے ایبولا وائرس کی ویکسین بھی تیار کی تھی۔ ’’SINOVAC‘‘ نامی بائیو ٹیک لیبارٹری نے ویکسین کی تیاری کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا ہے۔ اسی نے سارس وائرس کی ویکسین تیار کی تھی، لیکن اُسے مارکیٹ میں نہیں لایا جاسکا۔ برطانیہ میں آکسفورڈ یونی ورسٹی نے بھی ویکسین کی تیاری میں ابتدائی کام یابیوں کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کی جانب سے بندروں پر کیے گئے تجربات کام یاب رہے۔ فرانس میں ویکسین کی تیاری کی ذمّے داری مُلک کے سب سے بڑے فارما سیوٹیکل ادارے ’’SANOFI‘‘ نے سنبھالی ہوئی ہے، لیکن اُس نے اعتراف کیا ہے کہ رواں برس یہ کام مکمل نہیں ہو سکے گا۔

وبائی امراض کے قومی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر، انتھونی فاوسی نے 18 ماہ اور برطانیہ کے چیف میڈیکل افسر، کرس وٹی نے ایک سال میں ویکسین بنانے کے دعوے کیے ہیں۔ کمپنیز کے دعوے اپنی جگہ، مگر عام افراد اور ڈاکٹرز ان پر مکمل اعتماد کے لیے تیار نہیں۔ 1984ء میں امریکی سیکرٹری آف ہیلتھ، مارگریٹ ہیلر نے ایڈز کی ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن کئی دہائیاں گزرنے اور تین کروڑ سے زاید افراد کی ہلاکت کے باوجود دعویٰ حقیقت کا رُوپ نہیں دھار سکا۔ البتہ، سائنس دان کورونا کی ویکسین سے متعلق میں اِس لیے زیادہ پُرامید ہیں کہ وہ اس وائرس کو ایچ آئی وی کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ یونی ورسٹی آف پیٹس برگ میں ایک پرندے میں وائرس داخل کیا گیا، تو اسے بخار ہو گیا۔ اب اسی تجربے کی بنیاد پر ویکسین بنائی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں کینیڈا نے بھی ویکسین کی تیاری کی دوڑ میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔

ہارورڈ بمقابلہ آکسفورڈ

ایک طرف تو دنیا بھر کے معروف ادویہ ساز ادارے اور کمپنیز ویکسین کی تیاری کے لیے کوشاں ہیں، تو دوسری طرف، دنیا کے دو معروف تعلیمی اداروں ہارورڈ یونی ورسٹی، امریکا اور برطانیہ کی آکسفورڈ یونی ورسٹی کے درمیان بھی تحقیقی سطح پر مقابلہ جاری ہے۔ اگر دونوں کی مشترکہ مساعی کا جائزہ لیا جائے، تو رواں ماہ کے آخر تک 6 ہزار سے زاید رضا کاروں پر تجربات کیے جاچُکے ہوں گے۔ طب کی تاریخ میں کلینیکل ٹرائلز کے حوالے سے یہ رضا کاروں کی سب سے بڑی تعداد ہوگی ۔

امریکا میں مونٹانا یونی ورسٹی کی لیبارٹری میں تیار شدہ ویکسین کی سنگل خوراک چھے بندروں کو دی گئی۔ اس کے بعد اُنہیں کورونا وائرس کی ڈوز دی گئی۔ اس کے مقابلے میں دوسرے بندروں کو کورونا کی ڈوز تو دی گئی، لیکن ویکسین نہیں دی گئی۔28 دن بعد معلوم ہوا کہ جن بندروں کو ویکسین دی گئی تھی، وہ کورونا سے محفوظ رہے، جب کہ دیگر بندر اس مرض کا شکار ہو گئے۔ اس لیبارٹری سے منسلک ڈاکٹر منٹرونسٹنٹ کا کہنا ہے کہ’’اب بندروں کی بجائے محتاط انداز میں انسانوں پر تجربات کیے جائیں گے۔‘‘ تاہم، بہت سے ماہرین مختلف خدشات کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔

اُن کے مطابق، اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ جو قوّتِ مدافعت بندروں میں ہے، وہ انسانوں میں بھی ہو، البتہ بیش تر سائنس دان اس حوالے سے پُرامید ہیں کہ جتنے زیادہ ادارے ویکسین کی تیاری کا کام کریں، اُتنا ہی بہتر ہے۔ ایک سے زاید اقسام کی ویکسین کا تیار ہونا عوام کے مفاد میں ہے، کیوں کہ زیادہ اقسام بچّوں اور بوڑھوں کی قوّتِ مدافعت سے مطابقت رکھ سکیں گی۔ ماہرین نے اس بات پر بھی تحفّظات کا اظہار کیا ہے کہ ویکسین کی تیاری کے سلسلے میں کہیں رضا کاروں کی زندگیاں خطرات سے دوچار نہ ہوجائیں۔

ادویہ کی بھی تیاری

ویکسین کے ساتھ ادویہ کی تیاری پر بھی تیز رفتاری سے کام ہو رہا ہے۔ اپریل تک امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کے تحت 72 دوائوں پر تجربات شروع ہو چُکے تھے اور 200 سے زاید منصوبے زیرِ غور تھے۔ اتھارٹی کو مجموعی طور پر 950 ادویہ کی تیاری کی تجاویز موصول ہوئیں، لیکن بیش تر کے نتائج حوصلہ افزا نہیں رہے۔ سائنس دان اب یہ بھی جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس مختلف ادویہ پر کس طرح ردّ ِعمل ظاہر کر سکتا ہے۔ اب تک سیکڑوں دوائوں پر تجربات کیے گئے، تاہم اُن میں سے صرف30 ایسی نکلیں، جو انسانی خلیوں کو نقصان پہنچائے بغیر وائرس کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

اُن میں سے چار ادویہ کورونا کی بجائے جوڑوں کے درد، کینسر اور دیگر امراض کے لیے مفید پائی گئیں۔ امریکی طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ مُلک میں صرف چند ہی ایسی لیبارٹریز ہیں، جو کمپائونڈ کو بیک وقت ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، کیوں کہ یہ ایک نہایت پیچیدہ عمل ہے۔ کورونا وائرس کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ بے حد چالاک اور ہوشیار ہے کہ ہر دوا اور کمپائونڈ کے ردّ ِعمل کے طور پر اپنی شکل تبدیل کر لیتا ہے۔ اِس لیے صرف ایک دوا کی بجائے مختلف کمپائونڈز کی ’’کاک ٹیل‘‘ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ہارورڈ یونی ورسٹی میں ایسے چھوٹے مالیکیولیز تیار کیے جارہے ہیں، جو انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط بنا سکیں۔ اِس مقصد کے لیے مرض سے صحت یاب ہونے والے افراد کی اینٹی باڈیز کو استعمال کیا جارہا ہے۔

فی الحال ڈاکٹرز جس دوا کے بارے میں زیادہ پُرامید ہیں، اسے ’’Remdesivir‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ انٹرا وینس انجیکشن کے ذریعے دی جانے والی اس دوا کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ جسم میں وائرس کی افزائش روکتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے 15 مارچ کو ملیریا کے لیے دی جانے والی ادویہ کو کورونا کے علاج کے لیے معاون قرار دیا تھا۔ اب آخری مرحلے میں ان دوائوں کے اثرات کو لیبارٹریز میں پرکھا جارہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ادویہ کی تیاری کے سلسلے میں چینی برتری کی چھاپ ہر جگہ نمایاں ہے۔ گزشتہ دنوں امریکا نے بھارت سے تجرباتی طور پر جو کمپائونڈز منگوائے تھے، ان کا 70 فی صد خام مال چین ہی سے آتا ہے۔

یونی ورسٹیز، تحقیق کے مراکز

گو کہ ویکسین کی تیاری میں فارماسیوٹیکل کمپنیز زیادہ دِل چسپی لے رہی ہیں اور اُنہوں نے اس مقصد کے لیے بھاری مشاہروں پر طبّی ماہرین اور ریسرچرز بھی رکھے ہیں، لیکن عملی اور تحقیقی سطح پر ہونے والا کام بھی کورونا وائرس کے خلاف ایک بڑے محاذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس سلسلے میں ماہرین چین کے اعداد و شمار اور نتائج سے بھرپور فائدہ اُٹھا کر اُنہیں مستقبل کی گائیڈ لائنز قرار دے رہے ہیں۔ ان تحقیقی کاوشوں کا مقصد ماضی کے تجربات سے فائدہ اُٹھا کر کورونا کے خلاف ٹھوس حکمتِ عملی تیار کرنا ہے۔ اس سلسلے میں برطانوی سائنس دان تائیوان کی مثال دیتے ہیں، جس نے بروقت اقدامات کر کے ہلاکتوں کی تعداد کو محدود کیا۔

طبّی ماہرین کے مطابق جب 31 دسمبر 2019ء کی سہ پہر چینی صوبے، ووہان میں نامعلوم وائرس کا انکشاف ہوا، تو دنیا نئے سال کے استقبال میں مصروف تھی، لیکن تائیوان نے اُسی دن ووہان سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگا دی اور جو مسافر پہنچ چُکے تھے، اُنہیں قرنطینہ میں رکھا گیا اور یوں مرض بہت کم پھیلا۔ اس کے برعکس، چین نے صوبے میں ہیلتھ اسکریننگ اور دیگر ٹیسٹس کی مخالفت کی اور اگلے15 دنوں تک غفلت کا مظاہرہ کیا گیا، حالاں کہ وہاں ایسے لوگوں کا گویا سیلاب آیا ہوا تھا، جو سانس لینے میں دشواری محسوس کر رہے تھے۔ مرض پھیلنے کے بعد ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر چین نے اس وبا کے پھوٹنے سے ایک ہفتہ پہلے احتیاطی تدابیر اختیار کر لی ہوتیں، تو مریضوں کی تعداد میں 66 فی صد کمی واقع ہوجاتی اور اگر تین ہفتے پہلے حفاظتی اقدامات کر لیے جاتے، تو مریضوں کی تعداد95 فی صد کم ہو سکتی تھی۔

اسی طرح جنوبی کوریا، آئس لینڈ اور سنگاپور نے بھی سخت حفاظتی اقدامات اختیار کرکے مرض کو بڑھنے نہ دیا۔ امریکا میں وفاقی حکومت اور ریاستوں کے درمیان کھینچا تانی سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھی۔ جنوبی کوریا نے عوام کا ہجوم روکنے کے لیے ڈرونز کا بھی استعمال کیا۔ ڈرونز کے ذریعے لوگوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ اُن کی مسلسل نگرانی ہو رہی ہے۔ اس لیے وہاں حفاظتی تدابیر پر بہت زیادہ عمل کیا گیا، جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔

پُراسرار انسانی جین

کورونا وائرس کے حوالے سے مختلف پہلوئوں پر تحقیق ہو رہی ہے، جن میں جینیٹکس بھی شامل ہے، کیوں کہ یہ انسانی جسم کا وہ پُراسرار خلیہ ہے، جس میں اُس کی پوری شخصیت ملفوف ہوتی ہے اور اس کے اسرار و رموز کھولنا سائنس دانوں کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ سائنس دان یہ جاننے میں دل چسپی رکھتے ہیں کہ کورونا کے بعض مریض کیوں جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ اُن میں علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں، جب کہ کئی افراد جَلد مر جاتے ہیں؟ اِس لیے وہ مریضوں کے جینیٹکس کا ڈیٹا دیکھ رہے ہیں۔

سائنس دانوں کے خیال میں مریضوں کی شفایابی کا راز انسانی جین میں چُھپا ہوا ہے اور اس کے تہہ در تہہ رازوں سے پردہ اُٹھانا ہی اصل کام ہے۔ اُنہیں یقین ہے کہ وہ بہت جلد جین کا ٹیسٹ لے کر یہ بتانے کے قابل ہوجائیں گے کہ کس شخص کو کورونا مرض ہو سکتا ہے اور کون محفوظ رہے گا؟ تاہم، بعض سائنس دان اس کے اخلاقی پہلوئوں پر تحفّظات رکھتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے بارے میں یہ انکشاف کر دیا جائے کہ وہ کورونا کا شکار ہو سکتا ہے، تو خود اس کا اور اُس کے اہلِ خانہ کا ردّ ِعمل کیا ہوگا؟

جڑی بوٹیوں کا کردار

سائنس دان اور طبّی ماہرین اب لیبارٹریز کے ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں کی طرف بھی رجوع کر رہے ہیں، کیوں کہ اُن کا کہنا ہے کہ بعض پودے مختلف امراض کی شفایابی میں معجزاتی اثر رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں پہاڑی علاقوں میں واقع امریکا کی مونٹانا یونی ورسٹی خاصی سرگرم ہے۔ اُس کی لیبارٹریز میں جڑی بوٹیوں کا کیمیائی تجزیہ کیا جارہا ہے۔ یہ یونی ورسٹی جنگلات میں گِھری ہوئی ہے۔

سائنس دان جڑی بوٹیوں کو متبادل طریقۂ علاج کا نام دیتے ہیں اور عالمی ادارۂ صحت بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ہومیو، ایلو پیتھک، یونانی یا پھر آئیو ویدک طریقۂ علاج ہو، سب کی ادویہ کے بنیادی اجزاء میں مختلف پودے اور جڑی بوٹیاں شامل ہوتی ہیں۔ مونٹانا یونی ورسٹی کے ماہرین، جنگلات میں مقیم قبائلیوں سے بھی ملاقاتیں کرتے ہیں، جن کے ٹوٹکے اور طریقۂ علاج بعض امراض میں نہایت موثر پائے گئے۔

چین میں ریسرچ

اگرچہ پوری دنیا کی یونی ورسٹیز اور لیبارٹریز میں کورونا وائرس زیرِ بحث ہے، لیکن دنیا چین کے مشاہدات اور تجربات کو زیادہ اہمیت دیتی ہے، کیوں کہ یہی وہ مُلک ہے، جہاں سے اس بھیانک وبا کا آغاز ہوا اور اسے جو ابتدائی تجربات حاصل ہوئے، اسے دنیا ایک سبق آموز تجربہ قرار دے رہی ہے، لیکن حال ہی میں چین میں ریسرچ کے حوالے سے حکومت کا جو طرزِ عمل دیکھنے میں آیا ہے، اس پر طبّی ماہرین تحفّظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ مثلاً کچھ عرصہ قبل چین کی وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے تمام یونی ورسٹیز کو ہدایت کی کہ وہ کوئی بھی ریسرچ پیپر شایع کرنے سے قبل یونی ورسٹی کی خصوصی کمیٹی سے منظوری حاصل کرے۔

بظاہر وزارت نے یہ تاثر دیا ہے کہ اِس اقدام کا مقصد غیرمعیاری اور غیرمصدّقہ معلومات کو روکنا ہے، لیکن بعض حلقوں نے اسے انفارمیشن کنٹرول کا ایک طریقہ قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نہیں چاہتی کہ کورونا وائرس کے بارے میں ان کی ریسرچ دوسرے ممالک سے شیئر کی جائے، لیکن اکثر سائنس دان حکومت کے اس اقدام کو اِس لیے صحیح قرار دے رہے ہیں کہ آج کل مُلکی اور بین الاقوامی سطح پر کورونا کے بارے میں معلومات کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ غیرمعیاری اور غلط معلومات عالمی سطح پر ریسرچ اسکالرز کو گم راہ کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس دان اس وائرس کی ابتدا اور ماخذ کا سراغ لگا رہے ہیں، جب کہ چینی ماہرین نے اپنی ریسرچ میں اسے چمگادڑوں سے منسوب کیا ہے، جہاں سے یہ جانوروں اور پھر ان کے گوشت کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔

کن منگ یونی وسٹی کے ماہر، وانگ زی کنگ نے، جنہوں نے سب سے پہلے اس وبا کے شروع ہونے کے مقام کی نشان دہی کی تھی، کہا ہے کہ’’ ریسرچ پیپرز کے بارے میں حکومتی اقدام صحیح ہے، کیوں کہ آج کل غیرمعیاری ریسرچ پیپرز کی بھرمار ہے۔‘‘ تاہم، ایسا بھی نہیں ہے کہ چین نے دوسروں پر تحقیق کے دروازے مکمل طور پر بند کر دیئے ہوں۔ مثلاً ایک ریسرچ چین اور اٹلی کے دو اسپتالوں کے اشتراک سے کی جا رہی ہے۔ اس اسپتال سے وابستہ ایک چینی ماہر کا کہنا ہے کہ دورِ حاضر کا منظرنامہ 1990ء سے ملتا جلتا ہے، جب دنیا بھر کے سائنس دان ایڈز کا علاج تلاش کرنے کے لیے متحد ہوگئے تھے۔ اُس دَور میں وسیع پیمانے پر معلومات اور ڈیٹا کا تبادلہ ہوا، لیکن آج کی کیفیت اِس لحاظ سے مختلف ہے کہ اکثر یونی ورسٹیز کے ریسرچرز حقیقی معلومات کا تبادلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں، کیوں کہ یونی ورسٹیز اور فارماسیوٹیکل اداروں کے درمیان جنگ کی سی کیفیت ہے۔

یونی ورسٹیز کے منتظمین اور ادویہ ساز اداروں نے اپنے ریسرچرز کے لیے کام یابی کی صُورت میں انعامات اور خطیر رقم دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ کورونا وائرس کے خلاف دوڑ میں ہر مُلک، بلکہ ہر شخص آگے نکلنا چاہتا ہے۔ معلومات اخفا رکھنے کی کوششوں کے باوجود معلومات کا ایک سیلاب امڈا چلا آ رہا ہے۔ مثلاً جارج ٹائون یونی ورسٹی کے سینٹر فار سیکیورٹی اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی، مائیکرو سافٹ اینڈ نیشنل لائبریری آف میڈیسن اور ایسے دوسرے تدریسی اور تحقیقی شعبوں کو گزشتہ تین ماہ کے دوران 20ہزار سے زائد ریسرچ آرٹیکلز موصول ہوچُکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ نیو انگلینڈ جنرل آف میڈیسن کو بھی روزانہ اوسطاً 100ریسرچ آرٹیکلز موصول ہوتے ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ نظر نہ آنے والا وائرس آج بھی دنیا کے سائنس دانوں کے لیے ناقابلِ فہم ہے، جس سے انسان کائنات کی منفی اور مثبت قوّتوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا۔

اگر نظر نہ آنے والے ایٹمی ذرّات تباہی پھیلا سکتے ہیں، تو دِکھائی نہ دینے والا یہ وائرس بھی ایٹمی تباہی سے کم نہیں۔ سائنس دان اب بھی پُرامید ہیں کہ سائنس کی طاقت کا بھرپور استعمال بالآخر کورونا کو شکست دے دے گا، لیکن فی الحال انسان اور وائرس کی اس رسّہ کشی میں مجموعی طور پر کورونا کا پلڑا بھاری ہے۔ ماہرین اور سائنس دان تو گزشتہ چار پانچ ماہ کو کئی دہائیوں تک اسڈی کرتے رہیں گے، مگر تاریخ دان بھی مدّتوں اِس دور پر باتیں کریں گے۔