جاسوس یا جہادی کبوتر

May 31, 2020

سیالکوٹ کے گاؤں بگا شکار گاہ سے ایک غیرمعمولی پرواز بھرتے ہوئے وہ لائن آف کنٹرول پر موجود چوکس بھارتی فوجیوں کو جل دینے کے بعد چھپتے چھپاتے کٹھوعہ شہر میں واقع ایک رہائشی مکان پر ابھی سستانے ہی لگا تھا کہ مکان مالک گیتا دیوی نے اُسے قبضے میں کر لیا۔ میڈیا پر پچھلے تیس سال سے لگاتار لوگوں کو دشمن کی پہچان سمجھانے کا یہ اعجاز ہے کہ بھارت کی فوج سے لیکر عام ہندو بشمول خواتین پاکستان کی طرف سے آنے والی ہواؤں کو بھی کافی احتیاط سے دیکھتی ہیں۔ دونوں ممالک کی تاسیس کے فوراً بعد نئی دہلی میں سرکاری طور پر فیصلہ ہوا کہ ملک کے تمام مسائل بشمول بڑھتی آبادی پاکستانی سازش کی مرہونِ منت ہے۔ اس لئے فوج سے لیکر عام آبادی تک سبھی ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں۔ کسی تکنیکی یا انسانی غفلت کی وجہ سے فوجیوں سے کبھی کوئی بھول چوک ہو جائے تو بہادر شہری اپنی جان پر کھیل کر اس کی تلافی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس طرح کی وارداتوں میں دشمن عموماً سویلین، مسلمان، دلت یا پھر کبوتر ہوتے ہیں اور جو تعداد میں قلیل اور کمزور ہوتے ہیں جس سے ہندو توا وادیوں کی غیرت بہ آسانی جاگ اُٹھتی ہے۔

صوبہ جموں کے کٹھوعہ شہر کی گیتا دیوی کو داد دیں کہ اس نے دور سے ہی دشمن کے کبوتر کو نہ صرف پہچان لیا بلکہ اسے کوئی مہلت دیے بغیر پکڑ لیا۔ اس کے فوراً بعد اسے سرحدی حفاظتی فوج کے حوالے کردیا، جنہوں نے سرسری معائنے کے بعد اس کے پروں کے دونوں اطراف لگے شوخ گلابی رنگ اور پنجے میں فون نمبر والی انگوٹھی دیکھ کر اسے فوراً پاکستانی جاسوس قرار دیکر پولیس کے حوالے کردیا جس نے چشمِ زدن میں ایف آئی آر کاٹ دی۔ اگرچہ کبوتر کی تفتیشی رپورٹ ابھی آنا باقی ہے مگر میڈیا نے اسے ایک خطرناک جاسوس اور کچھ نے تو جہادی کبوتر قرار دیکر مقدس جنگ کے نظریے کی سرحدوں کو نئے امکانات سے روشناس کرا کے ایک طرح سے لامحدود کردیا ہے۔ عجب نہیں کہ ٹیلی وژن چینلز پر براجمان کئی افلاطونوں نے اسے ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیکر افواج کو مبارکباد بھی دے ڈالی۔ دہشت گردی کی وارداتوں کا پیشگی پتا لگانے اور پاکستان میں ان کی جڑیں تلاشنے میں بھارتی سیکورٹی ایجنسیز بجلی کی سرعت سے کام کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ یہ شاید پہلی بار ہے کہ ہفتہ بھر گزرنے کے باوجود وہ ابھی تک کبوتر سے وابستہ عسکری تنظیم کا اعلان کرنے سے کترا رہی ہیں۔ پچھلے دو برسوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والی اکثر وارداتوں کو ممنوعہ جیش محمد کے کھاتے میں ڈال کر اسے چین کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے جس نے ابھی تک جیش کیخلاف بھارتی کوششوں کو عالمی سطح پر سبوتاژ کر رکھا ہے۔

پاکستان سے آنے والے کبوتروں پر حد سے زیادہ دھیان رکھنے کے کچھ مضمرات بھی ہیں۔ مثلاً آپ ایک چھوٹے سے جہادی اور جاسوس کبوتر کو اس کی حرکتوں سے پہچان کر اس کا فوراً تدارک کرتے ہیں مگر جب جموں و کشمیر کی چینی سرحد سے متصل علاقے لداخ میں دس ہزار سے زائد چینی فوجی تین سے پانچ کلومیٹر گھس کر اندر آتے ہیں تو کئی ہفتوں تک وہ کسی کو نظر ہی نہیں آتے اور جب نظر آتے ہیں تو وہ خندقیں کھودنے اور پختہ تعمیرات بناتے ہوئے مصروف پائے جاتے ہیں۔ جہادی کبوتر کے برعکس چینی افواج صرف ناپسندیدہ خیالات سے ہی نہیں بلکہ خطرناک ہتھیاروں سے لیس بھی ہیں مگر وہ پتھر کے زمانے کی تہذیب کے احترام میں صرف مکوں، گھونسوں اور پتھراؤ سے بھارتی فوج سے لگ بھگ پینتیس مربع میل کا علاقہ چھینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں مگر دو ہفتے تک کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ بالآخر جب حکومتِ ہند نے دبے الفاظ میں اپنی شکست کو تسلیم کیا ہے تو پوری قوم کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ ٹی وی اسٹوڈیوز میں فوجی وردی پہن کر پاکستان کیخلاف بات بےبات دھمکی داغنے والے اینکر اور ان کے ساتھ غصے میں چیخنے والے اور بدمزہ باتیں کرکے منہ میں سمندری جھاگ بنانے والے ریٹائرڈ فوجی جنرل بھی خاموش نظر آتے ہیں۔ جہادی کبوتر کے کامیاب تذکرے سے پندرہ سے بیس ہزار چینی فوجیوں اور ان کے سامانِ حرب کو زیادہ دیر چھپایا نہیں جا سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب جبکہ چینی فوجی بھارت کے زیر قبضہ علاقے میں تعمیرات کھڑی کر رہے ہیں تو بھارتی میڈیا ٹڈی دل کی جانب سے فصلوں کی تباہی کا رونا رو رو کر عوام کا دھیان بٹانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ حالات سے نمٹنے کیلئے کافی غور و خوض کے بعد اب حکومتِ ہند نے چینی فوجیوں کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی دعوت دی ہے مگر فی الحال سرخ افواج کسی مذاکرات کے حق میں دکھائی نہیں دیتیں اور وہ حضرتِ میر جدھر بیٹھ گئے، بیٹھ گئے کی عملی تفسیر نظر آتی ہیں۔