کورونا اور قومی اتحاد

May 31, 2020

وفاقی حکومت نے تمام اداروں اور صوبوں سے مشورے کے بعد ملک میں جاری لاک ڈائون نرم کرتے ہوئے کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دے دی ہے۔ کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے وفاق کی تمام اکائیوں نے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) جاری کیے ہیں جن پر عمل درآمد کرتے ہوئے دکانوں، فیکٹریوں اور کاروباری اداروں کو کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ سندھ نے بھی دکانوں کو کھولنے کی اجازات دے دی اور صبح 6 بجے سے 4بجے تک کا وقت مقرر کر دیا۔ وزیراعظم نے اپنے اعلان میں نماز فجر کے بعد دکانیں کھولنے کا عندیہ دے دیا تھا مگر صوبوں نے اپنے حالات کے مطابق وقت مقرر کیے۔ وفاقی وزرا اور وزیراعظم کے خیالات مختلف ہیں جبکہ صوبائی حکومتوں کی حکمت عملی واضح طور پر وفاق سے مختلف نظر آ رہی ہے حالانکہ نیشنل کمانڈ سنٹر میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی صدارت میں روزانہ جائزہ اجلاس کاا نعقاد کیا جاتا ہے اور تمام صوبوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے نمائندوں کو مشورہ میں شامل کر کے متفقہ طور پر فیصلہ جات کیے جاتے ہیں مگر پھر فیصلہ جات کے اعلان اور عمل کے مواقع پر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا تضاد کھل کر سامنے آجاتا ہے۔مرکزی حکومت کے وزرا کو سندھ حکومت کی کارکردگی ایک آنکھ نہیں بھا رہی اور وہ تیر و تفنگ لے کر سندھ حکومت پر چڑھائی کیے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اپنیمصروفیات کی وجہ سے کراچی میں جا سکے اور سندھ حکومت کو شکوہ ہے کہ مرکز سندھ کے حصے کے فنڈز جاری نہیں کر رہا ہے یعنی کورونا کی وبا میں جہاں ساری دنیا اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ کر رہی ہے وہاں ہمارے ہاں لیڈر شپ کی نادانی کی وجہ سے تمام دنیا میں عدم تعاون کا پیغام جا رہا ہے۔

1988میں جب مرکز میں محترمہ بےنظیر بھٹو کی قیادت میں حکومت بنی اور پنجاب میں محمد نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی کی حکومت بنی تھی تو پیپلز پارٹی کی نادانیوں کی وجہ سے محمد نواز شریف صوبائی سطح کے لیڈر سے قومی سطح کے لیڈر بن گئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے مرکز ی وزرا اور قیادت پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھی۔ نواز شریف بطور وزیراعلیٰ اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بےنظیر بھٹو کے استقبال کے لیے لاہور ایئر پورٹ پر پہنچے تو پیپلز پارٹی کے جیالوں نے ان کی گاڑی پر حملہ کر دیا اور نواز شریف کو ایئر پورٹ سے واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ اس طرح کے اقدامات اور بےجا تنقید نے نوازشریف کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافی کیا اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ نواز شریف غلام مصطفیٰ جتوئی کی موجودگی میں پہلے آئی جے آئی کے صدر اور پھر ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ لہٰذا بظاہر تو یہی نظر آ رہاہے کہ تحریک انصاف کے وزرامراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ کے مقام سے اٹھا کر مرکزی رہنما کے مقام پر بٹھانے کے لیے ان کے سیاسی قد میں اضافے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

لاک ڈائون کے دنوں میں حکومت نے جمہوری اقدار و روایات کی پاسداری کرتے ہوئے مقننہ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس بلا لیا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اراکین تمام تدابیر اختیار کرتے ہوئے شریک ہوئے مگر صد افسوس کے کورونا پر بحث نہ ہوئی اور اراکین نے ایک دوسرے پر ذاتی حملے کیے۔ قومی سطح کی پالیسی وضع کرنے سے معذور ہماری قومی اسمبلی قائد ایوان اور قائد حزبِ اختلاف کی حاضری سے محروم رہی۔ ریاست و سیاست کے دونوں ستونوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کو ضروری نہیں سمجھا۔قومی اسمبلی کے ایوان میں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی جو یقیناً وزیراعظم کی جگہ ایوان میں موجود تھے، کی تقریر نے قومی اتحاد کو ضرب لگائی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ پہ چڑھائی کرنے کا عندیہ دیا اور قوم کو قومی اسمبلی اجلاس سے کورونا کی وبا کے دوران قومی اتحاد کی جو توقع تھی وہ پوری ہوتی نظر نہیں آئی۔ قومی اتحاد کو فروغ دینا اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ سب سے زیادہ یہ ذمہ داری بر سر اقتدار تحریک انصاف کی ہے۔ اس کے وزرابشمول وزیراعظم عمران خان کو اپنی قومی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے قومی اتحاد کی کوشش کر نی چاہئے۔ سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف راجہ ظفر الحق اور پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں اپنی تقاریر میں حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھانے کی بات کی ہے، حکومت کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اپوزیشن کو ڈائیلاگ میں انگیج کر کے کورونا کے خلاف قومی پالیسی ترتیب دینی چاہئے تا کی قومی ذمہ داری ادا ہوتے ہوئے قو م کو اتحاد کا پیغام جائے اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل جارحیت کے مرتکب دشمن کو بھی قومی اتحاد نظر آ جائے۔