آپ برطانیہ کیوں آئے…؟

May 31, 2020

تحریرـ:ڈاکٹر راحیل احمد ۔۔لندن
ابو جان کے ساتھ روزانہ کی واک کرنا میرا معمول تھا۔ دورانِ سیر میں ان اس سے سوالات پوچھتا۔ پھر میں ان کے جوابات توجہ سے سنتا۔ انہوں نے میری شخصیت کی تشکیل کی اور مجھے فلسفہ ، ادب ، مذہب ، سماجیات اور سیاست سے متعلق آگاہ کیا۔پچھلی عید ہم باپ بیٹے واک کرتے مسجد میں نماز پڑھنے جا رہے تھے کہ میں نے ان سے پوچھا کہ ابو جب آپ پاکستان میں خوشحال زندگی گزار رہے تھے اور آپ کی عمر بھی اچھی خاصی ہو چکی تھی تو آپ نے اچانک برطانیہ آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ۔۔۔ کہنے لگے بات یہ ہے کہ میں نے زندگی کسی پلان کے تحت بسر نہیں کی، کبھی میں سوچتا تھا کہ میں اپنے فیصلوں پر قادر ہوں اورزندگی اپنی خواہش اور مرضی سے گزار رہا ہوں، اب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے، حالات و واقعات کی ایک رو تھی جومجھے بہاتے بہاتے یہاں تک لے آئی۔ کبھی سب ٹھیک ہو جاتا تھا اور کبھی نہیں ہوتا تھا، البتہ ایک اعتماد ضرور رہا کہ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں، لیکن چونکہ کسی واضح پروگرام کا فقدان تھا، چنانچہ یہ اعتماد کبھی مکمل طور پر کام نہ آسکا اور زندگی کی گاڑی کبھی رکتی اور کبھی چل پڑتی۔ عملی زندگی کا آغاز کیا اور ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم کو جوائن کیا، تو تین سو روپے ماہانہ وظیفہ مقررہوا، چند سا ل بعد ایک گزٹیڈ جاب شروع کی تو تین ہزار روپے تنخواہ ملنے لگی، لیکن زندگی میں کو ئی خاص تبدیلی محسوس نہ ہو ئی۔ تین سو روپے میں گزارہ ہوتا تھا تو تین ہزار روپے میں بھی گزارہ ہی ہوتا۔ مہینے کے شروع میں رکشے پر سفر کرتے تو مہینے کے آخر میںویگن اور بس کی نوبت آ جاتی، کئی بار پیدل بھی چلنا پڑتا، بجٹ بنایا اور نہ کبھی بچت کرنے کا سوچا، جس مہینے زیادہ خرچ ہو جاتا،تیرے دادا ابو سے ادھار پکڑ لیتا، تنخواہ ملنے پر یہ ادھار کبھی واپس کر دیتا اور کبھی صاف مکر جاتا۔ پولیس کی ایک اچھی نوکری ملی توجلد احساس ہو گیا کہ یہاں کام نہ کرنے کی تنخواہ ملتی ہے اور کام کرنے کی رشوت۔ کئی بار نوکریاں کیں اور کئی چھوڑیں، طبیعت میں لا ابالی پن تھا اور کہیں جم کر زیادہ دیر کو ئی کام نہ ہوتا تھا البتہ کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور کہانیاں، افسانے اور ناول میں نےخوب پڑھے، ان سے یہ ہوا کہ طبیعت میں لا ابالی پن کے ساتھ ساتھ تصور اور تخلیق کا عنصر بھی شامل ہو گیا۔ میں خواب دیکھتااور یہ خواب بہت خوبصورت ہوتے، یہ خواب عموماً میری ذات سے پھوٹتے اور میرے وطن تک پھیل جاتے، میری ذات کی کمیاں اور محرومیاں میرے وطن میں موجود بدصورتیوں اور بدنمائیوں میں باہم پیوست ہوجاتیں اور میرے خواب انہیں مکمل اوردرست کر کے خوبصورت بنا دیتے۔ میں سوچتا میرے اردگرد کی یہ دنیا اتنی ہی حسین اور دلکش ہو جا ئے گی، جتنی سحرانگیز اور خوشکن یہ میرے خوابوں میں ہے، میں اس امید اور یقین کے سہارے جی رہا تھا۔ شادی میں نے ایک جوہری سائنسدان سے کی، خیال تھا کہ دونوں مل کر نوکری کرینگے اور اتنے پیسے مل جائیں گے کہ زندگی بغیر کسی تردد کے آرام سے گزر جائے گی۔ یعنی ابو جان زندگی توآپ کی ٹھیک ہی گزر رہی تھی؟۔شادی کے بعد چند سال تو آرام سے ہی گزرے، پھر عجیب معاملہ درپیش ہوا، بچے ہوگئے اور جوں جوں آپ بھا ئی بڑے ہونےلگے۔ مہنگائی بھی بڑھنے لگی۔ ادھر بچے سکول میں داخل ہوئے اور ادھر بجٹ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ خرچوں اور ضروریات نے آپس میں مل کر ایسا تگنی کا ناچ نچایا کہ چھٹی سے لیکر دسویں تک کا دودھ یاد آ گیا۔ بیس سال پڑھایا، جس سکیل میں کام شروع کیا تھا، آخر تک اسی سکیل میں رہا۔ آپ بھا ئی سینٹ انتھونی ہا ئی سکول میں پڑھتے تھے جو کہ ایک مشنری سکول تھا اور جہاں کی فیسیں ابھی کم تھی۔ یہاں سے متعدد نامور افراد نے پڑھا ہے جن میں ڈاکٹر عبد القدیر خان ، نواز شریف ، شہباز شریف، سلمان تاثیراور جنرل راحیل شریف بھی شامل ہیں۔ بہر حال ، یہ بات چھوڑیں۔ان میں سے بہت سے طلبا اچھے دوست بھی نہیں تھے۔مجھے تم بچوں کی اچھی اور سستی تعلیم کی بہت فکر تھی۔ بہرحال مالی تنگ دستی اور پورا مہینہ چلانے کی جستجوں نے عقل سے بیگانہ کر دیا تھا بلکہ یوں کہیے کہ مت ماری گئی تھی۔ تین ہزار روپے کا پٹرول، تین ہزار روپے سکول فیس، تین ہزار روپے بجلی، گیس،ٹیلیفون اور پانی کابل۔ کل ہوئے نو ہزار یوں بیوی کی تنخواہ ختم ہو جاتی تھی، میری جو قلیل آمدن تھی اس میں باقی سارا گھر چلتا،جس میں کچن، کپڑالتا، ملنا جلنا، بچوں کی کتابیں، دودھ اور دوسرے خرچے۔ ہر مہینے کی پانچ تاریخ کو نیا بجٹ بناتے اور ری بجٹ کا یہسلسلہ سارا مہینہ چلتا۔ جوں جوں مہینہ گزرتا اور پیسے کم ہوتے، ہماری میاں بیوی کی لڑائی شروع ہو جاتی، میں کچن اور گھر نہ چلا سکنےپر بیوی کو کوستا، اسے نکمی، نا اہل اور پھوہڑ جیسے القابات سے نوازتا، جواباً وہ مجھے قصوروار ٹھہراتی، میری قلیل تنخواہ پر باتیں بناتی،ہم تم بچوں سے چھپ چھپا کر ادھر ادھر آتے جاتے ایک دوسرے پر حملے کرتے اور اکثر موقع ملنے پر کھل کھلا کر لڑتے۔ میری بیوی پڑھی لکھی تھی، اس نے ایم ایس سی میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی تھی وہ حساس تھی ان روز روز کے جھگڑوں نے اسےڈپریشن کا شکار کر دیا تھا۔ میں بھی جلتا اور کڑھتا رہتا، کبھی ہم آئیڈیل جوڑا مشہور تھے، لیکن حالات نے ہمیں چڑچڑا، زود رنج اورافسردہ کر دیا تھا۔ میں اسے کہنے لگا ان لوگوں کو بھی تو دیکھو، جن کی ایک تنخواہ ہے اور کرائے کے گھر میں رہتے ہیں، آخر وہ بھی توزندہ ہیں لیکن میری یہ دلیل اس پر اثر نہیں کرتی، تب میں کہنے لگا چلو ہم بھی حرام اور رشوت کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس پراسے شاک لگتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں کئی سال ادھار لے کر اپنے خرچے پورے کرتا رہا۔ اچھا خاصا مقروض ہو گیا، اب لوگوں نےقرض دینا بھی بند کر دیا اور پہلے قرضوں کی واپسی کا تقاضہ شروع کر دیا۔ کچھ وقت تو میں نے اس طرح گزارہ کہ ایک جگہ سے قر ضے لر کر دوسری جگہ اتار دیا۔ پھر یہ سلسلہ بھی رک گیا۔ میرا ایک پلاٹ تھا، میں اسے بیچنا چاہتا تھا مگر گاہک نہیں مل رہا تھا۔ ہم میاں بیوی جب لڑ کر فارغ ہو جاتے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنستے اور کہتے یہ ایک ہمارا ہی نہیں سب کا حال ہے، چنانچہ ہم نئے سرے سے بیٹھ کر بجٹ بنانے لگتے۔ ایسا کرتے ہیں کہ گاڑی کا استعمال کم کر دیں، بچوں کو ویگن لگوا دیتے ہیں لیکن وہ بھی پندرہ سو روپے مانگتا تھا۔ سوچا بیوی کو موٹرسائیکل پر چھوڑ دیا کروںگا، ٹیلیفون پر صرف کال ریسو کروں، فریج، ٹی وی بند کر دوں،ایک وقت میں صرف ایک ٹیوب لائٹ کو استعمال کروں، اور گوشت اور چکن کو بھلا دوں، کوشش کروں کپڑے سستے ترین پہنوں،اور سیر و تفریح کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ۔ یہ سارے کام حکمرانوں کے لئے رہنے دو۔ ہر لڑائی کےبعد ہم ایسا ہی بجٹ بناتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر کبھی کوئی ایمرجنسی پڑ گئی تو ہم کیا کریں گے؟ شروع میں جو اعتماد اور امیدتھی، اس کی جگہ مایوسی اور قنوطیت آ چکی تھی، اور یہ مایوسی بہت گہری تھی اس لئے کہ دور دور تک بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہےتھے، البتہ ڈپریشن کی وجہ سے بیماری کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ سمجھ نہیں آتی تھی ہمارا کیا بنے گا؟ کئی بار سوچ چکا تھا کہ باہر چلاجاؤں۔ راحیل تمہاری دادی سے اجازت لینے کی کوشش کی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ میں بھی خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔ (جاری ہے)