چین بھارت کشیدگی، پاکستان لاتعلق نہیں رہ سکتا

June 01, 2020

چین اور بھارت کے مابین جاری حالیہ کشیدگی غیر متوقع نہیں ہے تاہم میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس کی اہمیت موجود نہیں، اس کی اہمیت مسلمہ ہے بلکہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر یہ سلسلہ بدستور جاری ہے اور جاری رہے گا۔ اس جاری رہنے کی وجوہات میں سے اہم ترین وجہ چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں جس کی اہم ترین نشانی سی پیک کی صورت میں سامنے آرہی ہے حالانکہ اسکی راہ میں بدقسمتی سے وطن عزیز کے اندر سے بھی روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس سارے تنازع میں کہاں سے آگیا۔ اگر ہم اس تصادم کے مقام کا نقشے پر جائزہ لیں تو یہ واضح ہوگا کہ بھارتی فوجی اقدامات دراصل اس جگہ کو ہمہ وقت اپنے نشانے پر رکھنے کی خواہش کی عملی تصویر ہیں کہ جہاں پاکستان اور چین کی افواج کا زمینی طور پر رابطہ آسانی سے ممکن ہو سکتا ہے اور وہ علاقہ لداغ اور اسکے گرد و نواح کا ہے۔ لداخ کے اس علاقے پر کسی بھی قسم کی ایسی تعمیر جو چین اور پاکستان کے باہمی رابطے کیلئے دھمکی آمیز حیثیت رکھتی ہو، چین کیلئے کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ حالیہ کشیدگی کی وجہ یہ ہے کہ بھارتی فوج کا سب سیکٹر نارتھ سیاچن گلیشیر کے مشرق میں واقع ہے اور اس علاقے میں بھارت یہ محسوس کرتا ہے کہ اسکا دفاعی انفراسٹرکچر بہت کمزور ہے اور جب سے اس پر اس علاقے کی تھانیداری کا جنون سوار ہو چکا ہے اس وقت سے وہ اس علاقے میں ایسے انفر اسٹرکچر کی تعمیرات کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے جسکے ذریعے وہ چین اور پاکستان کے انفراسٹرکچر کیلئے مستقل خطرات پیدا کر سکے۔ سب سیکٹر نارتھ بھارت کیلئے اسلئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ یہ وہ واحد علاقہ ہے کہ جہاں سے بھارت اقصائے چن تک رسائی رکھتا ہے۔ انڈیا نے اپنے تازہ عزائم کا اظہار 2007ءمیں شروع کر دیا تھا جب اس نے وہاں پر فوجی اہمیت کی حامل سڑکوں کی تعمیر شروع کر دی تھی اس میں سے پہلی سڑک کو وہ sur la passتک تعمیر کرتا ہوا چلا آیا مگر sur la passتک تعمیر کرنے کے باوجود یہ بھارت کے کام نہیں آ سکتی کیونکہ برفباری کے موسم میں یہ سڑک سفید چادر اوڑھ لیتی ہے اور آمدورفت مکمل طور پر بند ہو جاتی ہے۔ اس کو سارا سال استعمال کرنے کی غرض سے بھارت ایک سرنگ بھی بنانا چاہتا ہے مگر ہنوز وہ صرف یہ چاہ ہی سکتا ہے، عملی طور پر کچھ نہیں کر سکتا۔ اسکے علاوہ بھارت نے ایک اور سڑک کی تعمیر بھی کی ہے، یہ 255کلومیٹر لمبی سڑک ہے اور یہ سارا سال آمدورفت کیلئے میسر ہوتی ہے۔ یہ درپوک مرگو ڈسپانگ اور وہاں سے دریائے شیوک کیساتھ ساتھ تیار کی گئی ہے۔ دریائے شیوک اور گلوان ندی کا سنگم ایل اے سی سے صرف پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ موجودہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب انڈیا نے اس سڑک سے ملحق ایک اور سڑک کی تعمیر شروع کر دی۔ اقصائے چن تک پہنچنے کا دوسرا راستہ جنوب سے دریائے chang chenmo کی وادی سے ہوتا ہے۔بھارت نے یہاں بھی دریائے chang chenmoکے ساتھ ساتھ ایک سڑک کی تعمیر کی ہے اور اس سڑک کے ساتھ ملحقہ دیگر سڑکیں تعمیر کی ہیں۔ اس تعمیر کے ذریعے بھارت pangong ندی، سریجاپ اور کھرناک کے ذریعے چینی آفوج کی پشت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

ویسے تو چین اور بھارت کی فوجی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ چین کا پلہ کس حد تک بھاری ہے لیکن اگر ہم چین کی فوجی تیاریوں کو مدنظر رکھنا چاہیں تو سب سے پہلے ہماری نظر آج سے پندرہ برس قبل کی ان فوجی مشقوں پر جاتی ہے جو چین نے کی تھیں۔ ان فوجی مشقوں میں چین نے اقصائے چن اور سب سیکٹر نارتھ پر بھارت کی طرف حملہ کرنے کی مشقیں کی تھیں کہ ایک ڈویژن فوج اور میکانائزڈ فورس کے ساتھ وہ اس علاقے میں بھارت پر کیسے حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اس تمام صورتحال کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ آزادی کے دوسرے عشرے کے وقت سے بھارت اس علاقے میں مسائل پیدا کر رہا ہے مگر ہر بار وہ چین کی فوجی طاقت کے سبب سے شکست سے دوچار ہوا۔ گزشتہ دو عشروں میں بھارت نے اقتصادی طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ وطنِ عزیز کو پہلے آمریت اور پھر جمہوریت کیخلاف سازشوں نے گھیرے رکھا۔ نتیجتاً تقریباً چھ فیصد گروتھ ریٹ اب منفی میں جانے کی حالت میں آ گئی ہے۔ ان حالات میں بھارت کو دوبارہ پاؤں پسارنے کا موقع مل گیا ہے اور اپنے اسی زعم میں وہ چین کے بی آر آئی کے اہم ترین حصے سی پیک کو خطروں کی زد میں لانا چاہتا ہے اور جب چین محض ایک فوجی طاقت تھا تو اس وقت وہ بھارت کو اس کی اوقات میں واپس لے آیا تھا اور اب تو چین ایک اقتصادی طاقت بھی بن چکا ہے۔