ری اسٹرکچرنگ کے سبب طویل رفاقت ختم، تین سابق ٹیسٹ کرکٹرز چپ چاپ پی سی بی سے رخصت

June 01, 2020

کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان کرکٹ بورڈ میں ری اسٹرکچرنگ کے نام پر تین ٹیسٹ کرکٹرز سمیت چار بڑے افسران اتوار کو بورڈ کے ساتھ طویل رفاقت کے بعد اتوار کو خاموشی سے گھر چلے گئے۔ ان میں وزیر اعظم عمران خان کے قریبی دوست مدثر نذر بھی شامل ہیں۔ قومی کرکٹ اکیڈمی کے ڈائریکٹر مدثر نذر اتوار کو اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوگئے۔ انہوں نے اپنے معاہدے میں توسیع نہیں لی ۔ وہ کورونا کےدوران گذشتہ تین ماہ سے انگلینڈ میں ہیں۔ جبکہ ڈائریکٹر ڈومیسٹک کرکٹ ہارون رشید کے معاہدے میں پی سی بی نے توسیع دینے سے انکارکردیا۔ مدثر نذر اور ہارون رشید کے علاوہ چیف کیو ریٹر آغا زاہد اور سینئر جنرل منیجر آپریشنز مشتاق احمدکو بھی ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے۔1970کی دہائی کے کرکٹرز کی جگہ 1990میں کھیلنے والے ندیم خان، ثقلین مشتاق اور گرانٹ بریڈ برن اب پی سی بی کا حصہ بن گئے ہیں۔ مدثر نذر کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سے دوستی کا کبھی فائدہ اٹھایا ہے نہ کبھی اٹھاؤں گا، 4سالہ دور ملازمت میں جس طرح ڈویلپمنٹ کا کام کرنا چاہتا تھا ویسا نہیں کر سکا۔ لوگ کہتے تھے وزیرا عظم عمران خان آپ کے بڑے معترف ہیں، بڑی عزت کرتے ہیں، کرکٹ کیریئر سے گہری دوستی ہے، ان سے رابطہ کرِیں اور پاورفل ہوں لیکن میں کہتا تھا کہ میرا اپنا مزاج ہے، میں نے اپنے مزاج کے مطابق زندگی گزارنی ہے جب کہ وزیر اعظم عمران خان کا اپنا کام ہے۔ جیو نیوز کو انٹر ویو میں مدثر نذر نے کہا کہ وزیرا عظم عمران خان کا ڈومیسٹک کرکٹ میں ویژن صرف ٹیمیں بنانا نہیں ہے، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک نچلی سطح کام نہیں ہو گا ڈومیسٹک کرکٹ اسٹرکچر کامیاب نہیں ہو سکتا، کلب کی سطح سے کام کا آغاز کرنا ہو گا، اسکولز اور ضلعی کرکٹ پر کام کرنا ہو گا اس سے ہی پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہو گا، اس کے لیے پی سی بی کو اسپانسرز کی ضرورت ہے جوکہ اس وقت مل نہیں رہے ۔وہ 4 برسوں میں وہ کچھ نہیں کر سکے جو کرنا چاہتے تھے، ملتان اور کراچی میں سینٹرز نے کام تو شروع کر دیا لیکن ان کا ٹارگٹ تھا کہ وہ مزید سینٹر بناتے لیکن وہ اپنے ٹارگٹ میں کامیاب نہ وہ سکے اور شاید اس کی وجہ بورڈ کے پاس وسائل کی کمی رہی ہو۔ اگر میں 4 برسوں کی مدت پر نظر ڈالوں تو جب میں نے عہدہ سنبھالا تو اس وقت اکیڈمیز کے پروگرامز نہیں تھے، اکیڈمیز کے پروگرامز شروع کیے اور اس کے ثمرات بھی آنا شروع ہو گئے۔ نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی اور محمد حسنین کو اکیڈمیز سے فائدہ ہوا، اور آج قومی ٹیم کا حصہ ہیں، محمد موسیٰ، روحیل نزیر اور حیدر علی قومی ٹیم کے دروازے پر پہنچ چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں انڈر 13 پروگرام کا ضرور کریڈٹ لوں گا، یہ میرے دل کے بہت قریب رہا ہے، میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ پروگرام کامیاب ہوگا اور اس قدر ٹیلنٹ سامنے آئے گا، اس ایج گروپ کا پروگرام اگر جاری رہتا ہے تو یہ سنگ میل ثابت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اکیڈمیز کے پروگرامز کی اس طرح تعریف نہیں کی جاتی جس طرح کی جانی چاہیے تھی، ہمیشہ تنقید ہوئی کیونکہ یہ ایک آسان ہدف ہے، بورڈ پر جب بھی تنقید کرنا ہو سب سے پہلے نیشنل کرکٹ اکیڈمی کی طرف توپوں کا رخ ہوتا تھا، جس پر مجھے ہمیشہ حیرت ہوئی۔