مریض رل گئے: پختونخوا کے سرکاری اسپتالوں کے انتظامات کب بہتر ہونگے؟

June 04, 2020

خیبرپختونخوا میں کورونا سے صورت حال روز بروز ابتر ہوتی جارہی ہےلیکن حکومت مسلسل کنفوژن کا شکار ہےصوبے میں وزارت صحت کااضافی قلمدان وزیر خزانہ تیمورسلیم جھگڑاکے پاس ہے۔ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہےکہ شہرام تراکئی سے وزارت لینے کے بعد اب تک کسی کو وزیر صحت مقرر نہیں کیا گیا جس کے باعث تیمور سلیم جھگڑا وزارت صحت کے معاملات پر مکمل توجہ نہیں دے پا رہے ۔تیمورپہلی مرتبہ ایم پی اے اور پھر وزیر بنے ہیںاور اوپر سےدودو انتہائی اہم محکمے ان کے سپرد کردئیے گئے ہیں اسی بنا پر تیمور سلیم جھگڑ ا صرف سوشل میڈیا تک محدود ہوچکے ہیں۔صوبے میں پچھلے سات سالوںسے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے لیکن صحت کے شعبے میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آرہی ۔

سات سالوں کے دوران سرکاری ہسپتالوں کو خودمختاری دیکر حکومتی کنٹرول سے نکال دیا گیا جس کے باعث سرکاری ہسپتالوں کی انتظامیہ حکومت کو جواب دہ نہیں ۔تحریک انصاف کے تجربات کے باعث سینئر ڈاکٹرمستعفی ہونے پر مجبور ہوگئے۔صوبے میں ڈاکٹروںکی بے توقیری کا تجربہ انتہائی احمقانہ فیصلہ تھا جس پر پنجاب میں شدید ردعمل سامنےآیا اور اب تک وہاں کے پی کا ایم ٹی آئی نظام نافذنہیں ہوسکا۔تحریک انصاف نے صحت کے شعبے کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا لیکن صوبے میںآبادی بڑھنے کے باوجود ایک بھی نیا ہسپتال قائم نہیں کیا گیا ۔پشاور کے تین بڑے ہسپتال میںمریضوں کا رش تھا لیکن تحریک انصاف نے اس پر توجہ نہیں دی اور اب کورونا کے باعث عام مریض رل رہے ہیں ۔

ہسپتالوں میں گنجائش کم ہورہی ہے لیکن حکومت کے پاس کوئی متبادل آپشن نہیں ۔وفاق لاک ڈائون کا مخالف ہے جبکہ صوبائی حکومت لاک ڈائون کی حامی ہے ۔عوام صورت حال کی سنگینی کا احساس نہیں کررہے اور کورونا کا اپنے گھروں تک لے جارہے ہیں جس کے باعث صوبے میں صحت کا نظا م مفلوج ہوچکا ہے ۔ہسپتالوں میں مریضوں کی بھرمار سے گنجائش ختم ہورہی ہے جبکہ ڈاکٹروں ،نرسز اور پیرا میڈیکس کی زندگیوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں ۔صوبے میں اب تک ایک سو کے قریب ڈاکٹر اور پیرامیڈیکس کورونا سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ دو ڈاکٹر شہید ہو چکے ہیں اسی طرح صوبے میں 138 نرسز کورونا کی وباء سے متاثر ہوئی ہیں جن میں سے ایک شہید ہوچکی ہے ۔بازار اور دکانیں کھلنے پر عوام نے سماجی فاصلوں کی اپیلوں کی دھجیاں بکھیر دیںجس کےاثرات سامنےآنا شروع ہوچکے ہیں۔

تحریک انصاف حکومت نے صوبے میں کورونا کے 200 وارڈز قائم کررکھے ہیں جن میں 5598 بستروں کی گنجائش ہے ۔ حکومت نے صوبہ بھر میں 359 قرنطینہ مراکز بھی قائم ہیں جبکہ 550وینٹی لیٹرز بھی مریضوں کے لئے موجود ہیں۔صوبائی حکومت نے قرنطینہ کے حوالے سے اپنی سابقہ پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے صرف ان افراد کو قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جن میں کوورنا کی ابتدائی اعلامات موجود تھیں اور انھیں دو رروز کے بعد گھر بھیج دیا جاتا ہے ۔قرنطینہ مراکز میں سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث بیرون ملک سے آنے والے مسافروں نے ان مراکز میں رہائش سے انکار کردیا تھا ۔پشاورمیں صحافی بھی کورونا کے باعث شہید ہوچکا ہے جس کو پلازمہ بھی دیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا ۔

اس صورت حال میں ڈاکٹر وں،نرسز ،پیرا میڈیکس اور ریسکیو سٹاف کے ساتھ ساتھ پولیس اور صحافی بھی فرنٹ لائن پر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔صوبے کے چیف سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز اور انسپکٹر جنرل اف پولیس ثناء اللہ عباسی بھی خاصے متحرک اور فعال نظر آرہے ہیں جس کے باعث کاظم نیاز کورونا کی وباء کی لپیٹ میں آچکے ہیں اور اپنے گھر پر قرنطینہ ہیں۔آئی جی اب تک کورونا سے محفوظ ہیں لیکن صوبے کے مختلف اضلاع میں معاملات کا جائزہ لینے کے خود پہنچ رہے ہیں ۔خیبرپختونخوا پولیس دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بھی فرنٹ لائن پر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی رہی اور صوبے میں دہشتگردوں او رخودکش حملہ اوروں کو گلے لگا کر جام شہادت نوش کرتی رہی ۔صوبے میںدہشتگردوں کے خلاف جنگ کے دوران سپاہی سے لیکر ڈی ائی جی کے عہدے تک کے چار ہزار افسر شہید اور زخمی ہوئے ۔

کورونا کے خلاف جنگ میں بھی پولیس کے سپاہی اور افسر فرنٹ لائن پر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔کورونا مریضوں کے ساتھ ڈیوٹی دینے کے ساتھ پولیس کے اہلکاروں نے گھروںکے باہر بھی ڈیوٹیاں دیں تاکہ کوئی کورونا مریض سے ملاقات نہ کرسکے اس دوران صوبے کے تقریبا تمام اضلاع میں اب تک 95کے قریب پولیس کے اہلکار کورونا کے موذی مرض میں مبتلا ہوچکے ہیںجن کو انکے گھروں پر قنرنطینہ کردیا گیا ہے جبکہ جن اہلکاروں کے گھروں میں گنجائش نہیں انھیں پولیس لائنز میں قائم قرنطینہ مرکز منتقل کردیا گیا ہے۔

خیبرپختونخوا پولیس نے حکومتی احکامات کی روشنی میں سماجی دوری، لاک ڈاؤن، کاروباری و تجارتی مراکز اور عبادت گاہوں میں قوائد وضوابط پرعملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے تمام امور خوش اسلوبی اور کامیابی کے ساتھ انجام دئیے ۔ پولیس نے کورونا وائرس سے متعلق عوام کی آگاہی کے لئے بھرپور بھی مہم چلائی اور موزوں پولیس چوکیوں میں قرنطینہ مراکز بھی قائم کئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبے میں شعبہ صحت اور پولیس کے اہلکاروں کی حفاظت کے لئے تما م وسائل فراہم کئے جائیں اور عوام میں آگاہی مہم کو مزید موثر بنایا جائے تاکہ کورونا کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کیا جاسکے۔