نیب کا مسلسل دباؤ: شہباز شریف کیا حکمت عملی بنائیں گے

June 04, 2020

کرونا وائرس اتنا پھیلنا نہیں تھا جتنا ناقص منصوبہ بندیوں اور بے احتیاطی سے پھیلا دیا گیا ہے ۔حکومت کی حکمت عملی اور نظریہ ابتداء سے ہی لاک ڈائون مخالف رہا عمران خان اب تک لاک ڈائون کے نفاذ کو برا سمجھتے ہیں اور اسے اشرافیہ کی شرارت مانتے ہیں ان کے اس نظریے نے ابتدا سے ہی لاک ڈائون کی افادیت اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے مقاصد کو فوت کر دیا۔ لاک ڈ ائون تو تھا اس کے معاشی اقتصادی نقصانات موجود تھے دیہاڑی دار طبقہ اور مزدور اپنی روزی سے بھی محروم تھا لیکن لاک ڈاؤن کے جو طبی فوائد اور مقاصد حاصل ہوئے تھے وہ ناپید تھے کہیں بھی اس حوالے سے کوئی سختی یا قانون کے نفاذ کی صورت نظر نہ آتی تھی اس طرح دوہرا نقصان ہوا، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ،کے مصداق تمام پالیسی کنفیوژن کا شکار رہی اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے طے کیا ہے کہ جو ہونا ہے وہ خدا پر چھوڑ دیا جائے جس کو کرونا ہونا ہے ہو جائے جس نے ٹھیک ہونا ہے ہو جائے یعنی حکومت HERD IMMUNITY کی راہ پر چل نکلی ہے یہ پالیسی خطرناک ہے ہمارا صحت کا سسٹم اس کو برداشت نہ کر سکے گا ابھی سے ڈاکٹر،پیرا میڈیکل سٹاف، نرسیں بڑی تعداد میں مکمل میڈیکل حفاظتی کٹس نہ ملنے کی وجہ سے کرونا کا شکار ہو رہے ہیں۔

بہتر ہوتا ہے کہ سمارٹ لاک ڈائون اس انداز میں ہوتا کہ ہفتے میں ہر روز کسی ایک شعبے کی دکانوں، مارکیٹوں کو کھولا جاتا۔ عید کے دنوں میں تو عوام نے بھی بے احتیاطی کی تمام حدود کو پار کر لیا۔ اب اس بے احتیاطی کے نتائج سامنے آرہے ہیں مگر اس تمام صورتحال میں طب سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کی تعریف کرنا بے جا نہ ہوگا ۔ ڈاکٹر یاسمین خود ڈاکٹر ہیں وہ پیشہ ورانہ انداز میں صحیح صورتحال بیان کرتی ہیں،پی آئی اے طیارے کا سانحہ بھی دلوں کو پریشانی اور دکھ میں مبتلا کئے ہوئے تھا۔ پی آئی اے کا بیشتر سٹاف کا تعلق لاہور سے تھا پھر بیوروکریسی کا چمکتا ستارہ خالد شیر دل سب کو دکھی کرگیا۔

اس سارے عرصے میں حکومت سیاست سے باز نہ رہی ،کرونا جیسی مہلک وباء سے نمٹنے کیلئے جس قومی یکجہتی اور یکسوئی کی ضرورت تھی وہ مفقود تھی حکومت اپوزیشن سے مسلسل چھیڑ چھاڑ کر رہی ہے۔ بقول شیخ رشید اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے لندن سے آکر غلطی کی۔ شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ وہ جو امیدوار جس سہارے پر آئے تھے وہ نہ سہارا ملا نہ امید برآئی ۔اب یہ تو شہباز شریف ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ کن مقاصد کو لیکر وطن آئے تھے ان کا تو یہ کہنا ہے کہ وہ کرونا وباء کی تباہ کاریوں سے عوام کو بچانے کی نیت سے آئے تھے ان کا ڈینگی کے حوالے سے ریکارڈ لاجواب ہے۔مجموعی قومی پیداوار مسلم لیگ (ن) کے زمانے میں جو 5.6فیصد تھی صرف ڈیڑھ فیصد پر آگئی مہنگائی کا گراف انتہائی تکلیف دہ ہو گیا مگر کرونا نے حکومت کو جواز فراہم کر دیا۔ کرونا سے پہلے خرابیاں اور ناقص پالیسیاں اپنا رنگ دکھا رہی تھی لیکن اب حکومت نے سب کچھ کرونا پر ڈال دیا۔

ظاہر ہے کہ سالانہ بجٹ میں اس کا اظہار ہو گا غربت اور مایوسی اور بڑھے گی فی الحال تو IMFنے دسمبر تک قرضے موخر کر رکھے ہیں دسمبر کے بعد کیا صورت ہو گی بس اللہ رحم کرے۔ شہباز شریف کی پرواسٹیبلشمنٹ پالیسی ان کی اپنی پارٹی میں بھی کوئی خاص مقبول اور کشش کا باعث نہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ پارٹی میں ازحد مقبول ہے ۔ ایک تو اس بات کا ثبوت 2018ء کی کسی انتخابی سرگرمی سے قطعی طور پر ملتا نہیں کسی پرواسٹیبلشمنٹ امیدوار کو اس کی اس شناخت کی بنیاد پر ٹکٹ نہیں ملا بلکہ الٹا اس وقت تو جیتنے والے روایتی گھوڑوں کو تحریک انصاف میں چاروں طرف سے دھڑا دھڑ شامل کیا جا رہا تھا ویسے بھی شہباز شریف کا یہ نظریہ جمہوری حوالوں سے پسندیدہ اور قابل رشک نہیں ہے ان کے عام کارکن بھی ان سے بجا طور پر سوال کر سکتے ہیں کہ آپ کو اس اسٹیبلشمنٹ پسندیدگی کا کب اور کتنا فائدہ ہوا؟

چینی سکینڈل اور کمیشن رپورٹ کا بھی بڑا چرچہ ہے ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کرنا ہی بڑا کارنامہ ہے ۔سزا وغیرہ کسی کو نہیں ملی ابتدا میں تو حکومتی نام سامنے آئے اور ایسا تاثر ملا کہ ملک میں بے لاگ احتساب کا عمل شروع ہونے جا رہا ہے لیکن اب پراپیگنڈہ صرف اپوزیشن اور شہباز شریف، زرداری کے خلاف کیا جا رہا ہے نہ معلوم انصاف کا بول بالا کب ہو گا۔ جہانگیر ترین اپنی ناراضگی کا اظہار محتاط انداز میں کر رہے ہیں وہ دراصل حکومت کے بالکل مخالف بھی نہیں جانا چاہتے وہ اس کے رویے اور اقدامات کو بغور دیکھ رہے ہیں اور جانچ پڑتال بھی کر رہے ہیں۔ ادھر چودھری بھی انتہائی سیاسی اور مناسبب انداز میں حالات اور واقعات کو دیکھ رہے ہیں لیکن اندرون خانہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔

جہانگیر ترین ارکان اسمبلی کے ایک وسیع حلقے میں اثرورسوخ رکھتے ہیں ان کی ملاقاتیں جاری ہیں ابھی انہوں نے کھل کر اپنے عزائم اور لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا اندرخانے ان کو بہت سے ارکان کی تائیدوحمایت حاصل ہے ۔ چودھری برادران بھی ہوم ورک کر رہے ہیں دیکھیں کیا کوئی پارٹی میں گروپ بنتا ہے یا مسلم لیگ (ن) سے کوئی جوڑ توڑ ہوتا ہے۔ چینی کا کاروبار کرنے والے سیاست دان کی جو سبکی اور بدنامی ہوئی ہے اس پر بھی وہ کافی نالاں ہیں بہتر ہوتا کہ حکومت تمام غلط اور غیر قانونی کاروبار کے ذریعے دولت کے انبار لگانے اور عوام کو لوٹنے والوں کے خلاف قواعدوضوابط مرتب کرے اور درست انداز میں قانون سازی کرے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا نام بھی کمیشن کی رپورٹ میں شامل ہے۔ انہوں نے اپنی مرضی سے سبسڈی دی لیکن ان کے خلاف کارروائی عمران خان کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ اگر ان کو ہٹایا جاتا ہے تو آئندہ وزیراعلیٰ کے انتخاب میں جو پنڈورا بکس کھلے گا اعداد و شمار اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔