کورونا اور معیشت کا چیلنج: حکومت جامع حکمتِ عملی بنانے میں مصروف

June 04, 2020

قومی اسمبلی اور سینٹ کے ہنگامہ خیز اجلاس کل سے شروع ہو رہے ہیں۔ اجلاس میں کرونا وائرس کی صورتحال اور ملکی معیشت پر گرما کرم بحث ہوگی ۔ اگلے مالی سال کیلئے بجٹ 12جون کو پیش کئے جا نے کا امکان ہے۔موجودہ حکومت جب سے بر سر اقتدار آئی ہے اسے مسلسل چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج کرونا وائرس کا چیلنج ہے۔

دوسرا بڑ اچیلنج معیشت کے استحکام کا چیلنج ہے۔ جہاں تک کرونا وائرس کی وبا کا تعلق ہے تو اس کی شدت میںمسلسل ا ضافہ ہو رہا ہے ۔ پا کستان میں کرونا کیسز کی تعداد اب 77ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ اموات کی شرح بڑھ رہی ہے اور یومیہ 80 تک چلی گئی ہے ۔ ٹیسٹ کے نتیجے میں پازٹیو کیسز کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ہسپتالوں میں اب بیڈ کم پڑ رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ کسی بھی وقت ہیلتھ انفرا سٹرکچر جواب دے سکتا ہے۔ اسلام آ باد کے سرکاری دفاتر میںپازیٹو کیسز آنے سے خوف وہراس کی فضا ہے۔ مجموعی طور پر بھی عوام میں اب خوف پھیلنے لگا ہے ۔

اپوزیشن کا الزام ہے کہ وزیر اعظم عمرانخان کی لاک ڈائون کے بارے میں نرم پا لیسی کا نتیجہ ہے کہ صورتحال خراب ہوئی ہے۔ بہر حال یہ ایک عالمی وبا ہے جس نے دنیا کی طاقت ور معیشتوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے اِس لئے ہماری حکومت بھی اِس حوالے سے جامع حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے۔ پاکستان سمیت ترقی پذیر ملکوں کی معیشت کو زیادہ دباؤ کا سامنا ہے۔

کرونا وائرس کی وجہ سے نئے بجٹ کی تیاری ایک مشکل کام ہے اور اگر موجودہ بجٹکو کرونا بجٹ بھی کہا جا ئے تو بے جا نہ ہوگا۔ معاشی صورتحال یہ ہے کہ ملک کی جی ڈی پی گروتھ کا ریٹ 68سال کے بعد 0.38فیصد یعنی منفی گروتھ پر چلی گئی ہےحالا نکہ حکومت کا رواں سال کیلئے جی ڈی پی گروتھ ریٹ کا ہدف 4فی صد تھا۔

رواں سال کیلئے ریونیو کی وصولی کا ہدف 5500ارب روپے مقرر کیا گیا تھا۔ اس ہدف کو کم کرکے 5238ارب روپے کیا گیا اور اب اسے 3900ارب کر دیا گیا ہے۔کرونا وائرس کی وبا چونکہ جاری ہے اسلئے اگلے سال بھی ر یو نیو کا ہدف زیادہ رکھنا مشکل ہو جا ئے گا کیونکہ بزنس اور صنعت کی سر گر میاں کم ہوگئی ہیں ۔ بیرون ملک سے بڑی تعداد میں پا کستانی واپس آ رہے ہیں اسلئے اب تر سیلات زر میں بھی کمی واقع ہوگی۔ بیروزگاری کی شرح میں بھی ا ضافہ ہو رہا ہے۔کرونا کی وجہ سے اب حکومت کو صحت کیلئے زیادہ بجٹ رکھنا پڑے گا۔ اگلے بجٹ میں پی ایس ڈی پی یعنی ترقیاتی پروگرام کیلئے بھی کٹوتی کا ا مکان ہے ۔ زرعی شعبہ بھی دباؤ کا شکار ہے ۔ ٹڈی دل کی وجہ سے بھی فصلوں کو نقصان ہو رہا ہے۔

نئے بجٹ میں حکومت کے پاس نئے ٹیکس لگانے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ عوام کی قوتِ خرید پہلے ہی بہت متاثر ہوچکی ہے۔موجودہ حکومت کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم ملک کی معیشت کو مستحکم بنائیں گے ۔ کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور ریونیو ہدف کو دس ہزار ارب روپے تک لے کر جائیں گے ۔اب اپو زیشن کو بجٹ سیشن میںحکومت پر تنقید کا موقع مل جا ئے گا ۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ حکومت معاشی محاذ پر مکمل طوپر پر ناکام ہوچکی ہے۔کرپشن کے خاتمہ کے بارے میں بھی حکومت کوئی قابلِ ذکر پراگرس نہیں دکھا سکی ۔ اب البتہ نیب دو بارہ سے متحرک ہوا ہے ۔

اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ یکطرفہ احتساب نہ کیا جا ئے بلکہ حکومتی شخصیات کا بھی احتساب کیا جا ئے۔امکان یہ ہے کہ اب نیب بعض حکومتی شخصیات کے گرد بھی گھیرا تنگ کرنے والا ہے۔ ایف آئی اے کے ڈی جی واجد ضیاء کی سر بر اہی میںقائم کمیشن نے چینی کی جو فرانزک رپورٹ جاری کی ہے اس پر بھی بحث جاری ہے۔ معاون خصوصی مرزا شہزاد اکبر اس رپورٹ کو سابق وزیر اعظم شاہد خا قان عبا سی کے خلاف چارج شیٹ قرار دے رہے ہیں۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ خسرو بختیار اور عثمان بزدار کے خلاف بھی کارروائی کی جا ئے۔ بہر حال اس رپورٹ کو حکومت اور اپوزیشن دو نوں اپنے اپنے حق میں اور دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

اس رپورٹ نے پی ٹی آئی حکومت کیلئے بعض سیا سی مشکلات کو بھی جنم دیا ہے۔جہانگیر خان ترین اس رپورٹ کے آنے کے بعد وزیر اعظم سے ناراض ہیں اور سیا سی ذ رائع کے مطابق جہانگیر خان ترین مناسب ہوم ورک کے بعد اپنا ردعمل ظاہر کریں گے۔جہا نگیر ترین نے چوہدری پرویزالٰہی اور شہباز شریف سے رابطے کئے ہیں۔اگر وہ ن لیگ اور ق لیگ کو ملانے میں کا میاب ہوگئے تو پھر پی ٹی آئی کو وفاق اور پنجاب میں حکومت بر قرار رکھنے میں مشکلات کا سا منا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ بجٹ کو منظور کرانے میں بھی مشکل پیش آسکتی ہے۔اس طرحپی ٹی آئی کی حکومت کو کرونا وائرس ، ٹڈی دل اور معیشت کے استحکام کے چیلنجز کے ساتھ ساتھ سیا سی استحکام کا چیلنج بھی درپیش ہے۔

وزیر اعظم عمران خان بے لچک سیا ستدان ہیں۔ بے شک اس وقت ملک کو اہم قومی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اندرونی مسائل کے علاوہ بھارت کی جانب سے بھی ممکنہ جارحیت کا چیلنج درپیش ہے۔ ان حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک میں قومی یکجہتی اور اتحاد کی فضا ہو ۔ سیاسی قیادت ایک پیچ پر ہو مگر ابھی تک اس کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا کیونکہ عمران خان شہباز شریف سے ہاتھ نہیں ملائیں گے خواہ اس کی انہیںکوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔مقتدر حلقوں کو بھی یہ پریشانی ہے کہ ملک میں سیا سی ہم آہنگی یا قومی یکجہتی اور اتحاد کی فضا کیسے پیدا کی جا ئے جو وقت کا تقا ضا ہے۔

بہر حال اپوزیشن کی سیا سی جماعتیں بھی عوام میں اثر و رسوخ رکھتی ہیں ۔ ان کا بھی ووٹ بنک ہے۔وہ بھی ملک کو درپیش چیلنجز کیلئے فکر مند ہیں ۔ بطور اسٹیک ہولڈر ان کی رائے کا بھی احترام کیا جا نا چاہئے۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں۔ فہم و فراست اور حکمت و دانائی کا تقاضا یہی ہے کہ ملک کو درپیش بنیادی چیلنجز پر متفقہ قومی حکومت عملی اختیار کی جا ئے اور مل کر ملک کو بحران سے نکالا جائے۔