تعصب کی بدصورتی

June 05, 2020

امریکہ کو نسل پرستی اور بھارت کو مذہب پرستی نے بےنقاب کر دیا ہے، دونوں جگہ تعصب کی بدصورتی ہے۔ ایک ملک عالمی امن کا ٹھیکیدار بنا ہوا تھا، آزادیٔ اظہارِ رائے، انسانی آزادیوں اور مہذب ہونے کا دعویدار تھا تودوسرے نے خود کو بڑی جمہوریت کے ساتھ سیکولر کہلوانے کے لئے بڑے جتن کیے مگر ناکامی ہوئی۔

کوئی نہ کوئی واقعہ بھارت کا بھیانک چہرہ بےنقاب کر دیتا۔ پچھلے دس مہینوں سے کشمیر میں کرفیو ہے، پورے بھارت میں شہریت ایکٹ کے نام پر آگ اور موت کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سکھ، عیسائی اور دلت بھی اِس تعصب کا شکار ہیں۔

آج پانچ جون کے دن دو شخصیات بڑی شدت سے یاد آ رہی ہیں۔ ایک جارج فلویڈ ہے، جسے حال ہی میں کالا ہونے کے جرم میں زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے، اس کی موت پر پورے امریکہ میں مظاہرے اور ہنگامے اب بھی جاری ہیں۔

جارج فلویڈ کو موت نے ہیرو بنایا، اس کے نام سے پوری دنیا واقف ہو گئی ورنہ موت سے پہلے تو اسے اس کا شہر بھی نہیں جانتا تھا۔ دوسری شخصیت کا نام سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ ہے، غلامی سے نفرت کرنے والا یہ سکھ زندگی میں ہیرو تھا، موت کے بعد بھی ہیرو ہےبلکہ امر ہو گیاہے۔

بھنڈرانوالہ کا تاریخی کردار بعد میں چھیڑتا ہوں پہلے جارج فلویڈ کی بات کر لیں۔ مغربی ملکوں میں کالوں کو دیکھ کر ایک سوچ ڈستی ہے کہ جسمانی طور پر مضبوط انسانوں کی یہ نسل صدیوں سے غلامی میں کیوں ہے؟ حضرت نوح ؑ کے بعد انسانوں میں رنگوں کی بنیاد پر نسلوں کا آغاز حام ، سام اور شیث سے ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ سیاہ فام انسانوں کو جانوروں کے حملوں سے بچانے کے لئے زمین پر اتارے گئے بعد میں محافظوں کو زمین والوں نے غلام بنا لیا، غلامی کا صدیوں پرانا سفر اب بھی جاری ہے۔ جارج فلویڈ کی موت پر اردو کے مقبول ترین شاعر وصی شاہ نے خوبصورت نظم تحریر کی ہے، اس کا عنوان انگریزی میں ہے I Can't Breathe۔ مگر نظم میں بہت کچھ کہہ دیا گیا ہے کہ

خالقِ کُل کی ہوں تخلیق

مرا رنگ، مری نسل، زباں میری، علاقہ میرا

میری مرضی سے کہاں مجھ کو ملا

کچھ نہیں مانگتا ہوں تم سے فقط اس کے سوا

.....میری تعظیم کرو

میں بھی انسان ہوں انسان کی تکریم کرو

کیا کہا! لائقِ تعظیم نہیں میں؟

کہ بہت پست ہوں میں اور بہت ارفع ہو تم

رنگ افضل ہے تمہارا ہے زباں بھی بہتر

سوچ بہتر ہے تمہاری تو شعور اس سے بھی بڑھ کر

نظم دنیا کا ہے قائم تو تمہارے دم سے

ہیں زمیں آسماں روشن تو تمہارے دم سے

نور ہے تم سے، تو ہے اندھیرا مجھ سے

پستیٔ ذہن کا دنیا میں ہے چرچا مجھ سے

میں نہیں لائقِ تعظیم

اگر ہوتا تو

خالقِ کُل بھلا کیوں مجھ میں

سیاہی بھرتا

بحث کچھ لمبی ہوئی جاتی ہے... ٹھہرو

ٹھہرو...ایک لمحے کو میری بات سنو

سن تو لو، پلیز... میری بات سنو

کتنی صدیوں سے ’’BRO‘‘ ....!

تم سے عزت کا طلبگار رہا ہوں لیکن

اس گھڑی تو ہے فقط اتنی گزارش تم سے

اپنا گھٹنا میری گردن سے اٹھا لو

.......میرا دم گھٹتا ہے

صاحبو! سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ چالیس سال پہلے بھی سکھوں کا ہیرو تھا، آج بھی ہے، کل آزادی کے اس ہیرو کی برسی ہے۔ چھ جون 1984کو دربار صاحب گولڈن ٹیمپل امرتسر میں خالصتان تحریک کے اس عظیم رہنما کو ساتھیوں سمیت ابدی نیند سلا دیا گیا تھا، جان سے جانے والوں میں بھارتی فوج کا ریٹائرڈ جنرل شاہ بیگ سنگھ بھی شامل تھا۔

اس کی لڑائی اسی بھارتی فوج سے ہو رہی تھی جس میں اس نے کئی سال خدمات انجام دی تھیں۔ گولڈن ٹیمپل میں موت پانے والوں کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ہندو نہیں تھے۔

1977کا الیکشن اندرا گاندھی پنجاب سے بری طرح ہار گئی، وزیراعلیٰ بھی اکالی دل کا پرکاش سنگھ بادل بن گیا۔ گیانی ذیل سنگھ اندرا حکومت میں وزیر داخلہ تھے۔ ان کی مشاورت سے اکالی دل کو پچھاڑنے کیلئے دو سکھ نوجوانوں کے انٹرویو ہوئے۔

اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی کو جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ پسند آ گیا، کانگریس نے خفیہ طور پر بھنڈرانوالہ کی سپورٹ کی تو وہ جلد ہی پنجاب کا مقبول ترین رہنما بن گیا مگر وہ کسی سیاسی عہدے کا طلبگار نہیں تھا۔ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ زبردست مقرر تھا، اس کی تقریروں نے سکھ نوجوانوں کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔

وہ اتنا طاقتور تھا کہ سابق وزیر خارجہ سورن سنگھ بھی اس کے سامنے فرش پر بیٹھتے تھے، بھنڈرانوالہ کو پنجابی زبان سے عشق تھا، اس کی کوشش تھی کہ ہندو پنجاب سے نکل جائیں اور تمام سکھ پنجاب میں آباد ہو جائیں۔ اس نے سکھوں کے لئے علیحدہ وطن کی بات شروع کی تو سکھ نوجوان اس کے پیروکار بن گئے۔ اس تحریک نے حالات خراب کر دیے۔

خالصتان تحریک کو کم کرنے کیلئے اندرا گاندھی نے گیانی ذیل سنگھ کو ملک کا صدر بھی بنایا مگر حالات بےقابو ہو گئے۔ چھ اکتوبر 1983میں پنجاب حکومت ختم کرکے صدارتی حکم سے گورنر راج لگا دیا گیا۔ حالات مزید خراب ہو گئے تو یکم جون 1984کو پنجاب فوج کے حوالے کر دیا گیا۔

دو جون کو اندرا گاندھی نے ٹی وی پر آ کر اپیل کی، اس آخری اپیل کے بعد جنرل کلدیپ سنگھ برار کی سربراہی میں آپریشن کا حکم ہوا۔ امرتسر کی تمام ٹیلی فون لائنیں کاٹ کر صحافیوں کو بےدخل کر دیا گیا، پانچ جون کی شام آپریشن شروع ہوا، کئی مرتبہ بھارتی فوج پسپا ہوئی، پھر ٹینک منگوائے گئے، پھر گولے برسائے گئے، بھنڈرانوالہ چلا گیا مگر خالصتان کو ہمیشہ کیلئے زندہ کر گیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)