کورونا کے ساتھ جینے کی حکمت عملی

June 05, 2020

میں نے سوچا چونکہ موضوع انتہائی سنجیدہ ہے اس لئے کالم کا عنوان بھی بہت سنجیدہ ہونا چاہئے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارا ماحول سنجیدہ ہے نہ ہمارے حکمران اور عوام۔ کسی درجے میں بھی یہ محسوس نہیں ہو رہا کہ ہمیں ایک انجان اور حد درجہ خطرناک عالمی وبا کا سامنا ہے جس نے پوری دنیا ہی بدل ڈالی ہے اور اب ایک ایسا عالم وجود میں آنے والا ہے جسے قیامت کی نشانیوں کا گہرا ادراک ہوگا۔ قرآن حکیم نے سورہ زلزال میں آنے والی قیامت کا دل دہلا دینے والا نقشہ کھینچا ہے: ’’جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا دی جائے گی اور وہ اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہو رہا ہے؟ اس روز وہ (اپنے اوپر گزرے ہوئے) حالات بیان کرے گی کیونکہ اسے (ایسا کرنے کا) حکم دیا ہوگا۔ اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں۔ پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا‘‘ (ترجمہ سیدابوالاعلیٰ مودودی)

چند ماہ پہلے مشرق و مغرب میں جو کورونا کی وبا پھوٹی ہے، وہ اسی پُراسرار سفر کا ایک مرحلہ ہے جو اقوامِ عالم سے زبردست احساسِ جواب دہی اور طمانیتِ قلب کا تقاضا کر رہا ہے۔ پاکستان جو مشیتِ ایزدی کا ایک پُرکشش استعارہ ہے، اسے اس جانکاہ بیماری کے تقاضوں کو پوری کاوش کے ساتھ درست انداز میں سمجھ کر اپنے روز و شب ان کے مطابق ڈھال لینا ہوں گے، مگر بدقسمتی سے ہم تو ٹھٹھے مذاق کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ سیاسی زعما جو آزمائش کی گھڑی میں اپنی قوم کی رہنمائی کرتے اور انہونیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے اس کے اندر یکسوئی اور یکجہتی کی روح پھونکتے ہیں، بدقسمتی سے ان کے دل پھٹے ہوئے اور ذہن انتشار کا شکار ہیں۔ حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ لوگ کورونا کا عذاب جھیل رہے ہیں، ایڑیاں رگڑتے ہوئے موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور آبرومندانہ تجہیز و تکفین سے بھی محروم ہیں، لیکن وہ ان کے گمبھیر معاملات پر پوری توجہ دینے کے بجائے اختلاف کی آواز دبانے میں شبانہ روز مصروف ہیں۔

ہمارے وزیراعظم نہایت کھرے اور صاف گو انسان ہیں۔ انہوں نے پچھلے دنوں قوم کو مژدہ سنایا ہے کہ آنے والے دنوں میں وائرس مزید پھیلے گا اور مریضوں اور اموات کی تعداد بہت بڑھ جائے گی۔ مستقبل قریب میں اس کے خاتمے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی ویکسین کی دریافت میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں چنانچہ ہمیں اس کے ساتھ ہی گزر بسر کرنا ہوگی۔ اس بنا پر ہم نے چند بڑے بڑے کاروبار کے سوا باقی ساری معاشی سرگرمیاں کھول دی ہیں اور اب تمام ذمہ داری عوام کی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر پر پوری سختی سے عمل کریں۔ انہوں نے یہ مژدہ بھی سنایا کہ ہم ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کے تمام افراد کی ضرورتوں کا پورا پورا خیال رکھیں گے کیونکہ وہ ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ وہ اپنے خطاب میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ لاک ڈاؤن مسئلے کا حل ہے نہ ہمیں کورونا کے بارے میں بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت۔

سنجیدہ قومی حلقے وزیراعظم کی اس سوچ پر شدید پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ملک میں وبا بڑے پیمانے پر اگر خدانخوستہ پھیل گئی تو ایک ایسی افراتفری اور بدنظمی وجود میں آئے گی جس میں کوئی کاروبار کیا جا سکے گا نہ سرکاری انتظامیہ امن و امان قائم رکھ سکے گی۔ حالات کی سنگینی کا اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے جو پنجاب کی وزارتِ صحت نے رینڈم سیمپلنگ کے ذریعے مئی کے وسط میں لاہور کے بارے میں تیار کی تھی۔ اس کے مطابق وزیراعلیٰ کے لیے ایک سمری تیار کی گئی تھی کہ صرف لاہور شہر میں تقریباً سات لاکھ کورونا کے متاثرین موجود ہیں۔ ایک ٹی وی چینل نے سمری نشر بھی کر دی تھی مگر وہ دبا لی گئی کہ اس میں سخت لاک ڈاؤن کی سفارش کی گئی تھی۔ اپوزیشن کے پیہم اصرار کے باوجود قومی سطح پر کورونا وائرس سے نبرد آزما ہونے کے لئے کوئی واضح حکمت عملی وضع نہیں کی گئی، چنانچہ طاقتور لابیاں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے حکمرانوں سے فیصلے کرا رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کاروبار کھل جانے کے نتیجے میں وائرس کی ہلاکت خیزیوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ اب اراکینِ اسمبلی، صوبائی وزیر، پولیس کے اعلیٰ حکام، ڈاکٹرز اور نرسوں کی خاصی بڑی تعداد لقمۂ اجل بنتی جا رہی ہے۔ مریض قرنطینہ مراکز کی ویرانیوں سے تنگ آکر پولیس محافظوں کو رشوت دے کر باہر آرہے ہیں۔ کسی بڑے سیاسی، معاشی اور انتظامی حادثے سے پہلے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینا اور اپوزیشن کے ساتھ ایک آبرومندانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کے علاوہ انسانی جان کے تحفظ کو اولین اہمیت دینا ہوگی۔ اس وقت ایک ایک لمحہ بیش قیمت ہے جسے بیان بازیوں اور بہتان طرازیوں میں ضائع کر دینا خلافِ انسانیت ہوگا۔

حالات میں شدید ابتری اس لیے پیدا ہو رہی ہے کہ حکومت اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ عوام اس کے احکامات کی برسر عام خلاف ورزی کر رہے ہیں اور مختلف انداز کے پروپیگنڈے کے زیراثر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ کورونا محض طبی برادری کی من گھڑت کہانی ہے۔ اس تناظر میں پہلا کام عوام کو بیماری کے خطرناک اثرات کا بھرپور احساس دلانا ہوگا۔ ریاست پر دوسری ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کے جملہ افراد کی سیکورٹی کے ساتھ ساتھ انہیں حفاظتی ملبوسات، آلات اور بڑی تعداد میں وینٹی لیٹرز فراہم کرنے کو فوقیت دے اور معاشرے کے مختلف طبقات کو کورونا سے مقابلہ کرنےکے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرے۔ عوام کو احتیاطی تدابیر کا پابند بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر بیداری کی مہم چلانا ہوگی۔ میڈیا، علماء اور متحرک سول سوسائٹی اسے منظم کر سکتے ہیں جبکہ قانون کی طاقت کا مناسب استعمال مطلوبہ نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں قیامت کی نشانیوں کا بغور مشاہدہ کرتے رہنا ہوگا۔