کورونا بھی نسل پرست نکلا…؟

June 05, 2020

ڈیٹ لائن لندن، آصف ڈار
کورونا وائرس کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ یہ امیر و غریب اور ذات پات کی کوئی تمیز نہیں کرتا اور بلا تخصیص کسی پر بھی حملہ کرسکتا ہے اور اس کا شکار کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ بعض دوسری تھیوریز کی طرح اب کم از کم برطانیہ اور بعض دوسرے یورپی ممال کی حد تک یہ تھیوری بھی غلط ثابت ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ ان ممالک میں کورونا وائرس نے امیروں کے مقابلے میں غریبوں کا زیادہ شکار کیا اور مقامی سفید فام آبادی کے مقابلے میں نسلی اقلیتوں کو دگنا جانی نقصان پہنچایا۔ اس طرح ان ممالک صرف بعض انتہا پسند سفید فام میں نسل پرست نہیں بلکہ حقائق بتا رہے ہیں کہ کورونا وائرس نے بھی بہت زیادہ نسل پرستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گزشتہ روز سامنے آنے والی ایک پورٹ میں یہ تشویشناک حقیقت بیان کی گئی ہے کہ کورونا وائرس نسلی اقلیتوں کو دگنا سے بھی زیادہ شکار کررہا ہے جبکہ یورپ ممالک کے غریب پسماندہ افراد بھی اس کے بڑے نشانے پر ہیں۔ NHS کی طرف سے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں پاکستانی، بنگلہ دیش، انڈین اور چینی نژاد نسلی اقلیتوں کا واضح انداز میں ذکر کیا گیا ہے اور ان کو کورونا کا بڑا نشانہ قرار دیا گیا ہے۔ سیاہ فارم اور کیربین آبادی کی صورتحال بھی انتہائی تشویشناک دکھائی گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس سے چالیس سے سال کی عمر کے افراد کے مقابلے میں معمر افراد کے جہان فانی سے کوچ کرنے کا 70 فیصد سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ کورونا نے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے ساتھ بھی نرم رویہ رکھا ہوا ہے اور یہ وائرس مردوں کیلئے زیادہ جان لیوا ثابت ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ کورونا وائرس سے سیکورٹی گارڈ، ٹیکسی ڈرائیور، بس ڈرائیورز، کنسٹرکشن ورکرز اور اسی طرح کے دوسرے پیشوں کے لوگ زیادہ متاثرہوتے ہیں کیونکہ ان کا براہ راست دوسرے لوگوں خصوصاً اجنبی افراد کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ ا ن میں سے بعض افراد کو پتہ بھی نہ چلے کہ انہیں کورونا ہوا ہے مگر یہ اپنے گھروں میں اپنے بزرگوں اور آس پاس کے لوگوں کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں۔ ان پیشوں میں زیادہ تعداد پاکستانیوں، انڈین، بنگلہ دیش اور سیاہ فام باشندوں کی ہے جبکہ صحت شعبے میں بھی جاں بحق ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق نسلی اقلیتوں کے ساتھ میں ہے۔ نسلی اقلیتوں کے متاثر ہونے کی ایک بڑی وجہ ان کا رہن سہن اور عادات و اطوار بھی ہیں۔ ان میں ورزش اور اپنے جسم کو توانا رکھنے کیلئے ورک آئوٹ کرنے کا زیادہ رواج ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے ان میں بہت سی بیماریاں جنم لے لیتی ہیں۔ ادویات استعمال کرنے سے ان کا مدافعت کا نظام کمزور ہوتا ہے اور ان پر وائرس کا حملہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ان وجوہات کے ساتھ ساتھ ان معاشروں میں نسلی اقلیتوں کے معاشی ناہمواری، بہت سے شعبوں میں عدم مساوات،مواقع کا ایک جیسا نہ ہونا اور کئی دیگر وجوہات بھی ہیں جن کے باعث ان کمیونٹیز کومشکلات اور دکھوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس رپورٹ پر حکومت کی جانب سے تشویش ظاہر کی گئی ہے اور یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ اس کے اسباب کا پتہ چلایا جائے گا جبکہ اپوزیشن اس معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کا مطالبہ کررہی ہے تاکہ سارے عوامل سامنے آسکیں۔ یہ بھی معلوم ہو کہ ایشیائی اور سیاہ فام افراد ایسے علاقوں میں ہی کیوں رہتے ہیں جہاں صحت و تعلیم کی سہولیات ناپید ہیں اور روزگار کے مواقع بھی نہیں۔ ان کو غربت سے نکالنے اور مین سٹریم آبادی کے برابر لانے کیلئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ یہ ساری باتیں کچھ عرصے میں حکومت بھی بھول جائے گی اور اپوزیشن کو بھی یاد نہیں رہیں گی، تاہم برطانیہ کے وہ مسلمان، پاکستانی، بنگلہ دیشی، انڈین اور سیاہ فام باشندے اپنے ان پیاروں کے بچھڑنے کے غم کو کیسے بھلا سکیں گے جو ابھی برس ہا برس زندہ رہ سکتے ہیں تھے مگر چلے گئے۔ ان کمیونٹیز کو نہ صرف اپنے آپ کو مین سٹریم آبادی کے برابر لانے کے اقدامات کرنا ہوں گے بلکہ اپنا احتساب بھی کرنا ہوگا۔