برسلز، کشمیر کونسل ای یو نے کارکردگی رپورٹ جاری کردی

June 05, 2020

یورپین دارالحکومت برسلز میں قائم کشمیر کونسل ای یو نے 40 صفحات پر مشتمل اپنی کارکردگی رپورٹ جاری کردی، رپورٹ کی رونمائی کشمیر کونسل ای یو کے چئیرمین علی رضا سید نے پریس کلب برسلز میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کی جہاں ان کے ہمراہ ورلڈ کشمیر ڈائس پورہ الائنس کے چوہدری خالد جوشی اور سماجی و سیاسی راہنما سردار صدیق خان بھی موجود تھے۔

رپورٹ میں کشمیر کونسل ای یو کی جانب سے ہر سال یورپین پارلیمنٹ میں منعقد ہونے والے ای یو ویک، یورپین قیادت کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور مسلسل آگاہی کے لیے لکھے جانے والے خطوط و معاون دستاویزات، مسئلہ کشمیر کو باقاعدہ اور قانونی طور پر اٹھانے کی غرض سے یورپ کے 8 ممالک میں شروع کی گئی ایک ملین سگنیچر کمپین اور اس کی جانب سے سارا سال منعقد ہونے والی دیگر سرگرمیاں شامل ہیں ۔

اس موقع پر موجود صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین کشمیرکونسل ای یو علی رضا سید نے کہا ہے کہ عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ بھارتی حکام کے متعصبانہ رویئے کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔

انہوں نے امریکہ میں سیاہ فام باشندے جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں دردناک قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی گفتگو مقتول جارج فلائیڈ کے خاندان کے ساتھ تعزیت سے شروع کرتا ہوں اور یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا کو اسی طرح مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ بھارتی حکام کے ظالمانہ رویئے اور بھارت میں اقلیتوں اور پس ماندہ طبقات کے ساتھ حکومتی تعصبات و زیادتیوں کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔

چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے کہا کہ جس طرح جارج فلائیڈ کے آخری الفاظ کہ ’میں سانس نہیں لے سکتا‘ آج دنیا میں جاری اس کی دردناک موت کے خلاف احتجاج کا نعرہ بن چکا ہے، اس طرح دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر کے ستم زدہ عوام کے لیے بھارتی مظالم کی وجہ سے پچھلی سات دہائیوں سے سکھ کا سانس لینا دشوار ہوگیا ہے۔

اب تک تین سو پانچ دن ہوگئے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارت کی طرف سے مسلط کردہ لاک ڈاؤن کا سامنا کررہے ہیں، مودی حکومت نے پچھلے سال پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے وہاں کرفیو لگا دیا اور وہاں کے لوگوں کے بنیادی شہری حقوق تک سلب کر دیے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظالمانہ تسلط اور متعصبانہ طرز عمل کو سات عشرے گزر گئے ہیں اور کشمیری عوام کے پاس پرامن احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں، میں کشمیری عوام کو سلام پیش کرتا ہوں جو پچھلی سات دہائیوں سے مظالم کا شکار ہیں اور اپنی پرامن اور غیرمتشدد جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف بھارت کے بھیانک مظالم کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ پچھلے ماہ کی انیس تاریخ کو بھارتی فوجیوں نے سری نگر میں نواکدل کے علاقے میں فوجی آپریشن کی آڑ میں پندرہ رہائشی مکانات کو تباہ و بربارد اور ان کے مکینوں کو بے گھر کردیا۔

ایک دوسرے تازہ واقعے میں ایک حازم بٹ نامی چودہ سالہ لڑکے جو ذہنی پس ماندگی کے عارضے میں مبتلا تھا، کی لاش ہندورا میں اس جگہ سے برآمد ہوئی جہاں بھارتی فوجیوں نے اپنے تین فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے کاروائی کی۔

پچھلے ہی ماہ ایک اور بائیس سالہ نوجوان پیر معراج الدین کو بھارتی فوجیوں نے بڈگام کے علاقے نارابل میں ایک چیک پوسٹ پر نہ رکنے کا الزام لگا کر قتل کردیا۔ مئی میں ایک دوسری کارروائی میں بھارتی فوجیوں نے بڈگام کے علاقے نصراللّٰہ پورہ میں بہت سے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کی املاک کو تباہ کر دیا۔

چیئرمین کشمیر کونسل ای یو علی رضا سید نے کہا کہ یہ بہت اچھی بات ہے کہ یورپی یونین کے وزیرخارجہ جوزف بوریل نے امریکی سیاہ فام جارج فلائیڈ کے مرنے پر افسوس کے لیے بیان جاری کیا ہے لیکن جب اس طرح کی متعصبانہ کارروائیاں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہوتی ہیں اور بھارت میں اقلیتوں پر مظالم رونما ہوتے ہیں تو پھر یورپی وزیرخارجہ کیوں خاموش رہتے ہیں؟ جوزف بوریل نے ابھی تک بھارتی فوجیوں کی سفاکانہ کارروائیوں پر کوئی بیان کیوں نہیں جاری کیا۔

علی رضا سید نے کہا کہ ہم یورپی یونین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیرکے عوام اور بھارت میں پس ماندہ طبقات اور اقلیتوں کے خلاف مودی حکومت کے فاشزم کے خلاف آواز بلند کرے۔

چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے حالیہ دنوں یورپی پارلیمنٹ کی انسانی حقوق کی ذیلی کمیٹی کی چیئرپرسن کی طرف سے بھارتی وزیرداخلہ کو لکھ گئے خط کا خیر قدم کیا جس میں انہوں نے بھارت میں انسانی حقوق کی گھمبیر صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے۔

علی رضا سید نے پندرہ اراکین یورپی پارلیمنٹ کے خط کو بھی سراہا جس میں انہوں نے یورپی کمیشن کی صدر اور یورپی وزیرخارجہ سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں بھارتی حکام سے بات کریں۔

اس موقع پر موجود ورلڈ ڈائس پورہ الائنس کے چوہدری خالد جوشی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست کے بعد جتنے افراد انڈین فورسز کے مظالم سے ہلاک ہوئے اتنے افراد کرونا وائرس سے متاثر ہو کر ہلاک نہیں ہوئے ۔

انہوں نے اس موقع پر ہندوستانی خواتین کی تنظیم کی اس رپورٹ کا حوالہ بھی دیا جس میں بتایا گیا ہے انڈین فورسز نے 5 اگست کے بعد مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو دبانے کی غرض سے معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا اور 13000 سے زائد بچوں کو حراست میں لیا ۔

سردار صدیق خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے عزم و حوصلے کی داد دیتے ہیں جو انڈین مظالم کے سخت ترین جسمانی اور ذہنی دباؤ اور تشدد کے باوجود سینہ سپر ہیں ۔

دوسری جانب یہاں جاری کی جانے والی بہت سی رپورٹس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کے باعث معاشی نقصان ہی نہیں بلکہ عوام سخت ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہیں ۔

انہوں نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی انڈیا میں اقلیتوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے۔