پروفیسر انوار احمد زئی

June 06, 2020

تحریر: ڈاکٹر عزیز الرحمٰن۔۔کراچی
2005ءمیں اکادمی ادبیات کراچی کی جانب سے معروف محقق، نقاد، اقبال شناس، صوفی بزرگ استاد الاساتذہ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں کا تعزیتی پروگرام سٹی کلب خالد بن ولید روڈ کراچی میں ہوا، ڈاکٹر جمیل جالبی اور سرشار صدیقی جیسے ادیب اور شاعر اسٹیج پر موجودتھے، میں بھی سامع کی حیثیت سے اسٹیج کے قریب ہیتھا، مقررین میں پروفیسر انوار احمد زئی بھی تھے،۔ پروفیسرانوار احمد زئی کی باری آئی، بولنا شروع کیاتو بولتے ہی چلے گئے، ان کی خطابت سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔پروفیسر انوار احمد زئی انڈیا کے شہر جے پور میں18 ستمبر 1944ءکو پیدا ہوئے۔ ہجرت کے بعد حیدرآباد ان کا مستقر ٹھہرا، اس لیے ان کی ابتدائی تعلیم کا بڑا حصہ حیدرآباد میں ہی مکمل ہوا۔ انوار احمد زئی نے انگلش اردو اور فارسی میں ماسٹر کیا۔ اس کے علاوہ تعلیم اور قانون کی اسناد کے بھی حامل تھے۔ یوں ان کے موضوعات کا تنوع حیران کن ہے، پھر اپنے وسعت مطالعہ کے سبب مذہب اور متعلقات مذہب کے بارے میں اس قدر مہارت کے حامل تھے کہ ہر ایک موضوع پر بے تکان بولتے۔پروفیسر انوار احمد زئی نے اسّی کی دہائی میں شعبہ تعلیم سے وابستگی کے ساتھ اپنا سلسلہ ملازمت شروع کیا، اور تھرپارکر میں تعینات ہوئے۔ 1984ءمیں کراچی منتقل ہوگئے۔ کراچی میں شعبہ تعلیم سے وابستہ رہتے ہوئے مختلف ذمے داریوں پر فائز رہے، نوے کی دہائی میں ایڈیشنل پلاننگ اینڈ کوآرڈی نیشن سکریٹری مقرر ہوئے، مقامی حکومتوں کے نظام متعارف ہونے کے بعد2000ءکی دہائی کی ابتدا میں ڈی ای او مقرر ہوگئے۔ 2003ء میں آپ میرپور خاص تعلیمی بورڈ کے بانی چیئرمین کی حیثیت سے میرپورخاص منتقل ہوگئے۔ 2007ء میں آپ کو اعلیٰ تعلیمی ثانوی بورڈ کراچی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ اس منصب پر آپ 2015ء تک فائز رہے۔ اس کے بعد مختصر عرصے کے لیے میٹرک بورڈ کراچی کے چیئرمین بھی رہے۔گزشتہ چند برس سے وہ ڈاکٹر ضیاءالدین تعلیمی بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے مصروفِ عمل تھے۔ یہ بورڈ بھی آپ ہی کی کاوشوں سے منظور اور فعال ہوا۔ گویا اس کے بھی بانی ڈائریکٹر کی حیثیت آپ کو حاصل ہے۔2009ءمیں جب راقم ریجنل دعو ۃ سینٹر کراچی (دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی، اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد) سے منسلک ہوا تو پروفیسر انوار احمد زئی سے رابطے مزید بڑھ گئے، ہمیں ایسے افراد کی تلاش تھی جو اچھی تعمیری اور معلوماتی گفت گو بھی کرتے ہوں اور اچھی گفتگو کا سلیقہ بھی رکھتے ہوں۔ اس سے قبل ہم 2007ءمیں دارالعلم والتحقیق کا بھی آغاز کرچکے تھے، اس کے بنیادی مقاصد میں بھی تربیت (Training) شامل تھی، اس لیے ہمارے لیے پروفیسر انوار احمد زئی بہترین انتخاب تھے، یوں گزشتہ کم و بیش گیارہ برس میں ایسے مواقع سو سے زائد ہوںگے، جب ہم نے کسی بھی جگہ انہیں بلایا اور انہوں نے ہمارے کسی بھی پروگرام میں گفتگو فرمائی۔ صرف یہی نہیں ان کے ساتھ دوسرے اداروں میں بھی پروگرام کیے اور بیرون شہر سفر بھی۔ خاص طور پر سندھ یونیورسٹی حیدرآباد اور گورنمنٹ کالج میرپورخاص کے پروگرام یادگار رہیں گے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پروفیسر انوار احمد زئی کی گفتگو بھی مربوط، موضوع کے مطابق اور دلچسپ ہوتی ور انہیں بلانے میں بھی ہمیں کوئی دقت پیش نہ آتی۔ اگر وہ کراچی میں موجود ہوتے تو پھر انہیں مدعو کرنا ایک ایس ایم ایس یا واٹس اپ کے فاصلے پر
ہوتا۔پروفیسر انوار احمد زئی کی نشست میں ہم ایسوں کو اس لیے بھی لطف آتا کہ وہ اچھے جملے باز اور جملہ شناس بھی تھے۔ یہ صفت اب خال خال ہی دکھائی دیتی ہے، یوں بھی بارہا ہوا کہ آپ نے کسی پر جملہ چست کیا، پھر ہماری جانب دیکھا، ہم دونوں مسکرادیے، یا ہم نے اس پر گروہ لگادی اور صاحب معاملہ میں ہلکی جنبش تک نہ ہوئی۔ اس صورت حال سے ہم مزید لطف لیتے۔ افسوس اب یہ محفل ہمیشہ کے لیے اجڑ گئی۔پروفیسر صاحب انٹر بورڈ کمیٹی آئی بی سی کے چیئرمین بھی کئی بار ہوئے، اس دوران ان سے طویل طویل مشاورت ہوتی رہی۔ اب یہ بات کہنے میں شاید مضائقہ نہ ہو کہ اس دوران میں نے انہیں توجہ دلائی کہ مدارس کی اسناد کا معاملہ محض ایم اے تک محدود ہے، ثانویہ عامہ اور ثانویہ خاصہ کا معادلہ اس کمیٹی کے تحت بالترتیب میٹرک اور انٹر سے ہوجائے تو طلبہ کے لیے نہایت مفید ہوگا، اصولی طور پر وہ آمادہ ہوگئے، پھر یہ طے پایا کہ کمیٹی کے کسی میٹنگ میں، میں بھی شرکت کروں اور تمام ارکان کو اس موضوع کو حساسیت اور اہمیت پر بریفنگ دوں۔ مجھے کیا اشکال ہوتا، چناں چہ 2015ءکے غالباً ستمبر اکتوبر یا اس سے قبل کا ذکر ہے کہ بھوربن میں ایک میٹنگ طے ہوئی، مجھے بہ طور مبصر اس میں شرکت کرنی تھی۔ مگر اس سے قبل کوئی دشواری پیش آئی۔ پہلے یہ اجلاس ملتوی ہوا، پھر پروفیسر انوار احمد زئی کا دورانیہ صدارت ہی ختم ہوگیا، وہ بات جہاں تھی وہیں رہ گئی۔دوسری بار ایک اور مشورہ ہوا، جب وہ ضیاءالدین بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور اسے فعال کرنے کے لیے انہوں نے مختلف اقدامات اٹھائے، تو ان کے سامنے راقم نے ایک بار پھر مدارس کا مقدمہ پیش کیا اور عرض کیا کہ اب جب کہ مدرسے کے ہر طالب علم کے لیے میٹرک لازم ہوگیا ہے، تو ان کے لیے درمیانی راہ نکالی جائے، اور انہیں کوئی معقول پیکیج آفر کیا جائے، بہت سی تجاویز ذہن میں تھیں، وہ ان کے سامنے رکھیں، اکثر کے بدلے میں ان کا رویہ ہم دردانہ اور پسندیدگی کا تھا، انہوں نے ایک بار تو اپنی ٹیم کو بلاکر انہیں بھی مشاورت میں شریک کیا، مزید ملاقاتیں طے تھیں، مگر کچھ عرصے وہ مصروف رہے، پھر کچھ مدت تک میں ان کی طرف نہ جاسکا، پھر کرونا اور اس کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک آگیا، اور پھر عید کرتے ہی پروفیسر انوار احمد زئی اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے۔31مارچ کی صبح برادرم نور الرحمٰن صدیقی کے فون سے علم ہوا کہ آپ دنیا سے رخصت ہوچکے، افسوس یہ کہ عرصے سے روزانہ کا تعلق ہونے کے باوجود رمضان المبارک کی مصروفیات اور پھر وسط رمضان سے اپنی قدرے طویل ہوجانے والی علالت کے سبب ان سے کیا بہت سوں سے رابطے میں نہیں رہا، اور پروفیسر صاحب کی کئی روز سے جاری علالت کے باوجود یہ خبر میرے لیے اچانک تھی اور سب کی طرح انتہائی دکھ بھری بھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور سیئات کو حسنات سے تبدیل فرمادے۔