تنخواہوں میں اضافہ:حکومتی ٹھوس موقف

June 06, 2020

آئندہ مالی سال (2020-21) کا وفاقی بجٹ ان حالات میں تیار کیا جا رہا ہے جب کورونا وائرس کے پیش نظر حکومت کو ملکی تاریخ کے شدید ترین مالی بحران کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت اپنے دو گزشتہ بجٹوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس سال سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں پندرہ تا بیس فیصد اضافے کا ارادہ رکھتی ہے جس کا اس نے گزشتہ برس وعدہ بھی کیا تھا تاہم کورونا کے اثرات کے باعث گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے اور بجٹ کے ممکنہ شدید ترین خسارے سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ کے حصول کے لیے بات چیت چل رہی ہے اس ضمن میں آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ کورونا کے باعث معیشت پر رونما ہونے والے منفی اثرات کے پیش نظر تمام غیر اہم ترقیاتی اور دفاعی اخراجات کو منجمد کرتے ہوئے آنے والے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافہ نہ کرے۔ دوسری جانب حکومتی موقف بجا ہے کہ ملک میں مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا تنخواہ دار طبقہ ہے جس کی تنخواہوں اور پنشن میں دس سے پندرہ فیصد اضافہ ناگزیر ہے۔ ذرائع کے مطابق ملازمین کی ایک فیصد تنخواہوں میں اضافے سے دس ارب روپے کا بوجھ آئے گا اور اس میں زیادہ تر حصہ گریڈ 17سے 22تک کے افسران کی تنخواہوں کا ہوگا۔ اس وقت سرکاری تنخواہوں کا بل 485ارب اور پنشن 470ارب روپے ہے۔ آئی ایم ایف نے یہ دلیل دی ہے کہ کورونا وائرس کے باعث معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات اور دبائو کے باعث جی 20ممالک نے اپنے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایک فیصد کمی کی ہے۔ پاکستان کا شمار کم ترین فی کس آمدنی والے ملکوں میں ہوتا ہے جس کے باعث نجی و سرکاری ملازمین اور پنشنروں کو وفاقی بجٹ کا انتظار رہتا ہے۔ اسی کے ساتھ روزانہ اجرت والا طبقہ بھی از خود اپنی اجرت بڑھا دیتا ہے دوسری طرف حکومت کو جن مالی مسائل کا سامنا ہے ان میں 42820ارب کے غیر ملکی قرضے، درآمدات و برآمدات میں غیر معمولی عدم توازن، کورونا وائرس سے پیدا شدہ حالات کے تناظر میں محصولات و زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی کا رجحان ایسے حقائق ہیں جن کا اثر 12جون کو پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ پر پڑنا منطقی بات ہے۔ کورونا وبا دائمی بنتی جا رہی ہے جس سے بیروزگاری میں ہونے والا مسلسل اضافہ بھوک و افلاس میں اضافے کا موجب بنے گا۔ اس صورتحال کے تناظر میں ملک کو ایسے بجٹ کی ضرورت ہے جس سے معاشی حالات بے قابو نہ ہونے پائیں۔ وزارت خزانہ اس ضمن میں مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے جن میں خالی اسامیوں پر بھرتی پر پابندی برقرار رکھنا اور گاڑیوں و دیگر سامان کی خریداری پر پابندی شامل ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے پر زور دیا ہے۔ مشیر خزانہ پہلے ہی ٹیکس فری بجٹ کا عندیہ دے چکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ کا بنیادی خسارہ اس طرح آسانی سے کم نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس میں بتدریج کمی کی جائے گی۔ یہ بات بھی بجا ہے کہ دفاعی بجٹ اور قرضوں کی ادائیگی میں نہ ہی کمی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی انہیں منجمد کیا جا سکتا ہے۔ اقتصادی ماہرین کی طرف سے وزارتیں اور محکموں کو کم کرنے کا بھی مشورہ ہے۔ قطرہ قطرہ کرکے دریا بنتا ہے، اس وقت ایسے حالات ہیں کہ جہاں جہاں ہو سکے اخراجات پر کٹ لگایا جائے۔ عالمی مالیاتی ادارے اور حکومت پاکستان کو صورتحال کا ایسا حل تلاش کرنا چاہئے جس سے عام آدمی، اس کے روزگار اور بنیادی ضروریات کی فراہمی پر زد نہ پڑتی ہو۔