تعلیمی اداروں میں کھیلوں کا رجحان نہ ہونے کے برابر

June 09, 2020

تعلیم کے ساتھ کھیل بھی انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں جو کسی بھی معاشرے اور نوجوانوں کی نشو نما میں اہم کردارا ادا کرتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف کھیلوں میں حصہ لینے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ نوجوان تعلیم اور کھیل میں ملک کی نیک نامی کا سبب بنتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان میں اسکول کی سطح سے طالب علموں کو مختلف کھیلوں میں حصہ لینے کیلئے بھرپور مواقع فراہم کئے جاتے تھے۔ ہر اسکول میں گرائونڈز اور بڑی بڑی جگہ ہوتیں تھیں جہاں بیڈمنٹن، ہاکی، ٹینس، کرکٹ، والی بال اور دیگر کئی کھیلوں کے مواقع ملتے تھے۔

مہمان خصوصی پروفیسر اعجاز فاروقی سر سید یونیورسٹی میں کر کٹ مقابلوں کے انعامات تقسیم کرتے ہوئے

پاکستان کی موجودہ صورتحال یہ ہے گراس روٹ لیول (نچلی سطح) پر اسکولوں میں کھیلوں کی سرگرمیاں تقریباً ختم ہوچکی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بلڈنگوں اور آبادیوں میں پیسہ کمانے کیلئے بے تحاشہ میں اسکول کھول لئے گئے ہیں جہاں بچوں کو کھیلوں کی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے کا رجحان نہیں ہے البتہ چند بڑے اسکول جن میں بیکن ہاؤٍس، جنریش اسکول، سٹی اسکول، ہیپی پیلس گروپ آف اسکولز اور دیگر اسکولوں کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کے چند اسکولوں میں کھیلوں کا سلسلہ جاری ہے جہاں کم عمر بچوں کو کھیلوں سے آگاہی کیلئے باقاعدہ پی ٹی اور ڈی پیز ہوتے ہیں جو انہیں کھیلوں سے آگاہ فراہم کرتے ہیں اور ان کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔

میٹرک کے بعد انٹر اور پھر یونیورسٹیز میں طلبا و طالبات کو کھیلوں کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں لیکنیہاںں بھی کھیلوں کا وہ معیار نہیں ہے جو دنیا کے دیگر تعلیمی اداروں حکومت فراہم کرتی ہے۔ کھیلوں کی سرگرمیاں لازمی ہونے کے باوجود کئی یونیورسٹیز باقاعدہ مقابلوں کا انعقاد نہیں کرتیں اور نہ ہی اس میں حصہ لیتی ہیں حالانکہ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کے حوالے سے باقاعدہ فیس بھی لی جاتی ہے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں اس وقت کھیلوں کے حوالے سے سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کا شمار کراچی کی ان بڑی یونیورسٹیز میں ہوتا ہے جہاں کھیلوں کی سرگرمیاں باقاعدگی سے جاری ہے یہ یونیورسٹی نہ صرف ایچ ای سی ٹورنامنٹس میں باقاعدگی سے حصہ لیتی ہے بلکہ اپنی یونیورسٹی میں مختلف کھیلوں کے ایونٹس بھی تواتر کے ساتھ منعقد کرتی اور تمام طلبا و طالبات کو اس میں شرکت کا موقع فراہم کرتی ہے۔

حال ہی میں ہونے والا سرسید یونیورسٹی انٹر ہا ئوس کرکٹ ٹورنامنٹ محمد علی جناح ہائؤس اے نے جیت لیا۔ ناظم آباد جیم خانہ کرکٹ گرائؤنڈ پر یہ ٹورنامنٹ تین ہفتوں تک جاری رہا۔ ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز لیاقت علی خان ہائؤس بی کے کپتان حمزہ صدیقی کو ان کی آل رائؤنڈ کارکردگی پر دیا گیا۔ شامق ٹورنامنٹ کے بہترین بولر, محمد علی جناح ہائوس اے کے علی کامل بہترین وکٹ کیپر اور محمد علی ،اے کے دانیال آصف بہترین بیٹسمین قرار پائے۔ ٹورنامنٹ کی اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی ٹیسٹ کرکٹر جلال الدین تھے۔ انہوں نے کھیلوں کے فروغ کے سلسلے میں سرسید یونیورسٹی کے اقدامات کو سراہا اور اپنی اکیڈمی میں سرسید یونیورسٹی کے کھلاڑیوں کے لئے تربیتی کیمپ کے انعقاد کا اعلان بھی کیا۔

اختتامی تقریب میں شرکت کرنے والے دیگر معزز مہمانوں میں رجسٹرار سرسید یونیورسٹی سیدسرفرازعلی, سراج الاسلام بخاری, شفیق کاظمی، ریاض صدیقی، قاضی نصر عباس, پرویز عالم, آصف احمد خان,ایس اے فہیم,بشر مختار, ندیم اقبال جاوید اقبال بیگ اور طارق خان شامل شامل تھے۔ فائنل میں محمد علی جناح ہائؤس اے نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد لیاقت علی خان ہائؤس بی کو 9 رنز سے شکست دی.۔ لیگ کی بنیاد پر کھیلے جانے والے اس ٹورنامنٹ میں آٹھ ٹیموں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

ٹورنامنٹ کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر پروفیسر اعجاز فاروقی تھے۔ انہوں نے نوجوان کھلاڑیوں سے کہا کہ ماضی میں کراچی کے کھلاڑیوں پاکستانی کرکٹ پر چھائے ہوئے تھے کیونکہ وہ اپنے کھیل پر بھرپور توجہ دیا کرتے تھے۔ آپ بھی اگر محنت اور لگن سے کھیل کے تمام شعبوں پر توجہ دیں گے تو آگے بڑھ کر کراچی اور ملک کا نام روشن کرسکتے ہیںاس موقع پر سندھ اولمپک ایسوسی ایشن کے نائب صدر انجینئر محفوظ الحق, ایکٹنگ کنوینر اسپورٹس قاضی نصر عباس, ایس اے فہیم, مبشر مختار, جاوید اقبال بیگ, نعمان الدین, جہانزیب خان, فرحان حیدر, اقبال شیخ اور طارق خان بھی موجود تھے۔