پاکستان کرکٹ میں کوئی بڑی تبدیلی نہ آسکی

June 09, 2020

تبدیلی ،تبدیلی اور تبدیلی، پاکستان کرکٹ میں شائد کو ئی بڑی انقلابی تبدیلی نہ آسکی۔پی سی بی حکام تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ لیکن احسان مانی نے چیئرمین بنتے ہی غریب ملازمین کو فارغ کرنے کا عمل شروع کردیا۔آفس بوائے،ہیلپر ۔پلمبر، لیبر اور خاکروب کی حیثیت سے کام کرنے والے وہ ملازمین جن کی تنخواہ چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہےانہیں فارغ کردیا گیا۔ٹھنڈے کمروں اور لگژری مکانوں میں رہنے والےپی سی بی افسران نے عید کے ایک ہفتے بعد غریبوں کے گھروں کے چولہے بجھا دیئے۔غریب ملازمین آنسووں کے ساتھ بتارہے تھے کہ عید کی خوشیاں غم میں بدل گئی ہیں ہمیں گھر بھیجنے کا پروانہ مل گیا ہے۔ پھر جب میڈیا اور سوشل میڈیا میں شور ہوا تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے کراچی کے برطرف کئے جانے والے ملازمین کو چند گھنٹے بعد بحال کردیا۔

نیشنل اسٹیڈیم سے دس چھوٹے ملازمین کو فارغ کردیا گیا تھا ۔دعوی کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس میں موجودہ حالات کی وجہ سے پی سی بی کو فیصلہ فی الحال روکنا پڑاہے۔پی سی بی کا کہنا ہے کہ جن 70سرپلس ملازمین کو فارغ کیا جانا تھا ان میںسے 22 ملازمین مستقل بنیادوں کام کر رہے تھے۔ 33 کنٹریکٹ ملازمین کی مدت ملازمت تیس جون کو ختم ہو رہی تھی ۔کنٹریکٹ ملازمین کے معاہدوں میں 31 اکتوبر تک توسیع کر دی گئی ہے۔مستقل ملازمین معمول کے مطابق کام جاری رکھیں گے تاہم اضافی اور غیر فعال اسٹاف کو فارغ کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد ہو گا ۔

عمران خان جب ملک کے وزیر اعظم بنے تھے تو انہوں نے لاکھوں لوگوں کو ملازمت دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ کیا ہوا کہ کورونا کے بحران میں ان لوگوں کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا پھر میڈیا کی تنقید پر احسان مانی نے یوٹرن لے لیا۔ حالانکہ لاکھوں روپے تنخواہ لینے والوں کی مراعات اور تنخواہوں میں کوئی کمی نہیں کی گئی ہے ۔وزیر اعظم نے کورونا کے دوران کسی کو ملازمت سے رخصت نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔احسان مانی نے چیئرمین بننے کے بعداپنی تقریبا پوری انتظامی ٹیم کو تبدیل کردیا۔

سبحان احمد ہوں یا بدر منظور ہوں ،مدثر نذر ہوں یا ہارون رشید ایک ایک کرکے سب گھروں کو جاچکے ہیں ہم خیال گروپ اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے۔من پسند انتظامی ٹیم سے احسان مانی پاکستان کرکٹ کو بلندیوں پر لے جاسکیں گے۔بھاری تنخواہوں کے ساتھ نئے نئے اور من پسند چہرے لاکر کیا پاکستان کرکٹ کا شمار آسٹریلیا انگلینڈ کی طرح ٹیسٹ کھیلنے والے بڑے ملکوں میں ہوسکے گا اور پاکستان ٹیم دنیا کی مضبوط بن سکے گی۔

اس وقت بحرانی صورتحال میںدنیا کے متعدد ممالک میں سرکردہ فٹبال کلبوں کو مالی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے ان کلبوں نے اپنے آفیشلز اور کھلاڑیوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی تنخواہوں اور معاوضوں میں کٹوتی کو قبول کرلیں۔لیکن احسان مانی نے کہا تھا کہ ہمارے پاس تین سال کے لئے پیسہ موجود ہے۔یہ بات بہت پرانی نہیں ہے ۔پندرہ اپریل کوپاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے پاکستانی کرکٹرز کویقین دلایا تھاکہ ان کے مالی مفادات کا ہرممکن خیال رکھا جائے گا اور کسی قسم کی غیرمعمولی کٹوتی نہیں ہوگی۔پاکستانی کرکٹ میں کھلاڑی سب سے بڑےا سٹیک ہولڈرز ہیں اور وہ انہیں یقین دلاتے ہیں کہ جتنا بھی ممکن ہوا پاکستان کرکٹ بورڈ ان کا خیال رکھے گا اور کسی طرح کی غیرمعمولی کٹوتی نہیں کی جائے گی۔

جہاں تک پرفارمنس کی بنیاد پر جو کنٹریکٹ تبدیل ہوتے ہیں وہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔احسان مانی نے کہا کہ کرکٹرز کی طرح پاکستان کرکٹ بورڈ کے عملے کا بھی خیال رکھا جائے گا اور معمول کے مطابق ہونے والی تبدیلیوں کے علاوہ کسی کو ملازمت سے علیحدہ نہیں کیا جائے گا۔پھر ایسا کیا ہوا کہ 70ملازمین کو فارغ کر نے کافیصلہ کر لیا گیا۔پھر جب دباو وآیا تو طوفان وقتی طور پر تھم گیا۔احسان مانی نے کہا تھا کہ جہاں تک معمول کی تبدیلیوں کا تعلق ہے تو وہ جاری ہیں کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے انتظامی ڈھانچے کو ازسرنو استوار کیا جارہا ہے۔

احسان مانی نے کہا تھا کہ اگر اخراجات میں کٹوتی کرنی پڑی تو وہ ضرور کی جائے گی۔لیکن ایسا کیا ہوا کہ پی سی بی سب سے پہلے غریب اور کم تنخواہوں والوں پر چھری چلا تے چلاتے رہ گیا۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے ری اسٹرکچرنگ کے نام پرتقریبا70ملازمین کو سرپلس قرار دے دیا ہے ۔پی سی بی کا کہنا ہے کہ ان بر طر فیوں کا کووڈ 19سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی پی سی بی کے مالی مسائل کی وجہ سے ان ملازمین کو فارغ کیا گیا ہے۔ موجودہ افسران اورملازمین کی تنخواہوں اورمراعات میں کٹوتی کی کوئی تجویز نہیں ہے۔پی سی بی سے اسٹنٹ منیجر کی پوسٹ بھی ختم کردی گئی ہے۔پی سی بی کا شعبہ ایچ آر اس سلسلے میں متحرک ہے۔پی سی بی ملک بھر میں اپنے آٹھ سو ملازمین سے بڑی تعداد میں ایسے ملازمین کو فارغ کررہا ہے جنہیں سرپلس قرار دیا جارہا ہے۔

فالتو ملازمین کی وجہ سے اضافی اخراجات ہورہے ہیں۔پی سی بی کا دعوی ہے کہ یکم جولائی کو نئے مالی سال کے موقع پر ان ملازمین کو فارغ کیا جارہا ہے جو فالتو تھے کوئی نئی تقرری نہیں کی جارہی ہے بعض ملازمین کو ان ہاوس ترقی دی جارہی ہے۔پی سی بی ترجمان کا کہنا ہے کہ ملازمین میں سے ایسے ملازمین بھی شامل ہیں جن میں سے کئی ایک ایک پوسٹ پر تین تین لوگ کام کررہے تھے۔ترجمان کا کہنا ہے کہ چیف فنانشل آفیسر کی پوسٹ کا اشتہار دے دیا گیا ہے۔ان کے علاوہ کوئی نئی تقرری نہیں کی جائے گی۔کسی ملازم سے نا انصافی نہیں کی جائے گی۔فیلڈنگ کوچ کا تقرر مصباح الحق کریں گے لیکن اگر ضرورت نہ پڑی تو پی سی بی سے کسی فیلڈنگ کوچ کا تقرر کیا جائے گا۔حیران کن بات یہ ہے کہ نچلے اسٹاف کو فارغ کیا جارہا ہے ،

حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان ٹیم میں شامل فیلڈنگ کوچ گرانٹ بریڈ برن اور بولنگ کوچ وقار یونس ڈھائی ماہ سے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بیٹھ کر ڈالرز میں بھاری تنخواہ لے رہے ہیں کیوں کہ فلائٹس بند ہیں۔ترجمان کا کہنا ہے کہ پی سی بی کا پیسہ کرکٹ پر خرچ کیا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ دو ڈائریکٹرزمدثر نذر اور ہارون رشید کی جگہ ایک ڈائریکٹر ندیم خان کو رکھا گیا ہے۔۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے حال ہی میں ہائی پرفارمنس سینٹر میں چار بڑی تنخواہوں والے افسران کا تقرر کیا ہے لیکن پہلے مرحلے میں جن ملازمین کو خط بھیجے گئے ہیں ان میں اکثر چھوٹے ملازمین شامل ہیں تاہم پی سی بی ترجمان کا کہنا ہے کہ صرف چھوٹے ملازمین کو خطوط ملے ہیں ہر سطح پر فالتو ملازمین کو فارغ کیا جارہا ہے۔ایسے ملازمین کو فارغ کیا جارہا ہے جن کام نہیں کررہے تھے اور ادارے پر بوجھ تھے۔

ہم خیال لوگوں کو اہم عہدوں پر لانے کے لئےپاکستان کرکٹ بورڈ میں ری اسٹرکچرنگ کے نام پر تین ٹیسٹ کرکٹرز سمیت چار بڑے افسران کو بورڈ کے ساتھ طویل رفاقت کے بعد خاموشی سے گھر چلے گئے۔پی سی بی کا دعوی ہے کہ دو ڈائریکٹرز کی جگہ ایک ڈائریکٹر ندیم خان کا تقرر کیا گیا ہے۔سبکدوش ہونے والوں میں وزیر اعظم عمران خان کے قریبی دوست مدثر نذر بھی شامل ہیں۔قومی کرکٹ اکیڈمی کے ڈائریکٹر مدثر نذر اتوار کو اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوگئے۔انہوں نے اپنے معاہدے میں توسیع نہیں لی ۔وہ کورونا کےدوران گذشتہ تین ماہ سے انگلینڈ میں ہیں۔

جبکہ ڈائریکٹر ڈومیسٹک کرکٹ ہارون رشید کے معاہدے میں پی سی بی نے توسیع دینے سے انکارکردیا۔مدثر نذر اور ہارون رشید کے علاوہ چیف کیو ریٹر آغا زاہد اور سنیئر جنرل منیجر آپریشنز مشتاق احمدکو بھی ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے۔1970کی دہائی کے کرکٹرز کی جگہ 1990میں کھیلنے والے ندیم خان،ثقلین مشتا ق اور گرانٹ بریڈ برن اب پی سی بی کا حصہ بن گئے ہیں۔مدثر نذر کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سے دوستی کا کبھی فائدہ اٹھایا ہے نہ کبھی اٹھاؤں گا، 4 سالہ دور ملازمت میں جس طرح ڈویلپمنٹ کا کام کرنا چاہتا تھا ویسا نہیں کر سکا۔مجھے لوگ کہتے تھے وزیرا عظم عمران خان آپ کے بڑے معترف ہیں، بڑی عزت کرتے ہیں، کرکٹ کیرئیر سے گہری دوستی ہے، ان سے رابطہ کرِیں اور پاورفل ہوں لیکن میں کہتا تھا کہ میرا اپنا مزاج ہے، میں نے اپنے مزاج کے مطابق زندگی گزارنی ہے جب کہ وزیر اعظم عمران خان کا اپنا کام ہے۔ مدثر نذر نے کہا کہ وزیرا عظم عمران خان کا ڈومیسٹک کرکٹ میں ویژن صرف ٹیمیں بنانا نہیں ہے، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک نچلی سطح کام نہیں ہو گا ڈومیسٹک کرکٹ اسٹرکچر کامیاب نہیں ہو سکتا، کلب کی سطح سے کام کا آغاز کرنا ہو گا۔

اسکول کرکٹ اور ضلعی کرکٹ پر کام کرنا ہو گا اس سے ہی پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہو گا، اس کے لیے پی سی بی کو اسپانسرز کی ضرورت ہے جوکہ اس وقت مل نہیں رہے اور یہ سب کچھ کرنے میں پی سی بی کو مشکلات کا سامنا ہے۔وہ 4 برسوں میں وہ کچھ نہیں کر سکے جو کرنا چاہتے تھے، ملتان اور کراچی میں سینٹرز نے کام تو شروع کر دیا لیکن ان کا ٹارگٹ تھا کہ وہ مزید سینٹر بناتے لیکن وہ اپنے ٹارگٹ میں کامیاب نہ وہ سکے اور شاید اس کی وجہ بورڈ کے پاس وسائل کی کمی رہی ہو۔

چیئرمین احسان مانی نے ایک جانب پی سی بی انتظامیہ کو تبدیل کردیا ہے پھرٹیم انتظامیہ میں بھی مکی آرتھر، سرفراز احمد سمیتجھاڑو پھیر دی۔اب چھوٹے ملازمین کو برطرف کرناکسی بھی طرح دانشمندی نہیں ہے۔ایسے میں شکیل شیخ اور دیگر محاظوں پر جاری جنگ میں وکلاء کی فیس پر لاکھوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کرکے پہلے سینکڑوں کھلاڑیوں کو بے روز گار کردیا گیا ہے۔اتنے بڑے اقدامات کے بعد اگر پاکستان کرکٹ ٹیم دنیا کی مضبوط ٹیم نہ بن سکی تو پھر احسان مانی اور وسیم خان کو بھی جوابدے ہوکر گھر رخصت ہونا ہوگا لیکن دونوں انگلینڈ سے آئے ہیں فلائٹ پکڑ کر چلے جائیں گے لیکن پاکستان کرکٹ کو جو نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا اس کا ازالہ کون کرے گا۔

پی سی بی سے فالتو ملازمین کو ضرور نکالا جائے لیکن چند ہزار والے لوگوں کے نکالنے سے کام نہیں چلے گا۔پی سی بی نے کورونا وائرس کے موجودہ حالات کی وجہ سے ملازمین کو فارغ کرنے کا سلسلہ فی الحال روک دیا ہے۔پی سی بی کے حکام اگر اپنی توانائیاں کرکٹ کے معاملات پر صرف کریں اسی میں ان کی بہتری ہے۔تنازعات میں الجھ کر کسی کو کچھ نہیں ملے گا بدنامی کھیل ہی کی ہوگی۔