بی آر ٹی: وزیر اعلیٰ سمیت کوئی بھی وزیر منصوبے کی تکمیل کی حتمی تاریخ دینے کو تیار نہیں

June 18, 2020

وفاقی بجٹ پیش ہوچکا ہے اور صوبائی بجٹ پیش ہونے کی تیاریا ں عروج پر ہیں۔ وفاق کی طرح صوبائی حکومت بھی اس وقت دو محاذوں پر لڑرہی ہے ایک طرف کورونا سے نمبرد آزما ہے تودوسری طرف حکومت کو بجٹ کا غم کھائے جارہی ہے کیونکہ وفاقی سطح پر جس انداز میں بجٹ پیش کیا گیا جس طرح آئی ایم ایف کا بنا بنایا تیار دستاویز لا کر ایوان میں صرف پڑھا گیا ہے اور نئے مالی سال کے لئے جو اہداف مقرر کئے گئے ہیں صوبوں کو بجٹ تیار کرتے وقت وفاقی حکومت کے مقرر کردہ اہداف کومدنظر رکھ اپنا بجٹ تیار کرنا ہوگاخصوصا ً خیبرپختونخوا اس حوالے سے زیادہ مشکلات درپیش ہیں کیونکہ خیبرپختونخوا کے بجٹ کا 90فیصد حصہ وفاق سے آتا ہے۔

جبکہ اس وقت ملک میں کورونا وباسے پیدا شدہ صورت حال اور حکومت کی ناکام معاشی پالیسوں کے باعث ملک کو جس صورت حال کا سامنا ہے ،دوسرے صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا بھی ان اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتاتاہم جہاں تک کورونا وبا کے متاثریں اور حکومتی ایس او پیز کا تعلق ہے تو اس حوالے سے صوبائی حکومت مکمل طورپر ناکام نظر آرہی ہے ان کے جاری کردہ ایس او پیز اور احتیاطی تدابیر پر عوام کسی طرح عمل کرتےنظر نہیں آرہے ہیں اگرچہ اس حوالے سے صوبائی حکومت کے مشیر برائے اطلاعات اجمل وزیر متحرک نظر آتے ہیں وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنی معمول کی پریس بریفنگ میں دوسرے ایشوزپر بات کرنے کےعلاوہ کورونا وبا سے متعلق اعداد و شمار میڈیا کےساتھ شیئر کرتے وقت عوام کورونا سے بچائو کے لئے حکومتی ایس او پیز پر بار بار سختی کےساتھ عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور ساتھ وارننگ بھی دیتے ہیں کہ ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کی صورت میں حکومت دوبارہ لاک ڈائون اور سختی کی طرف جاسکتی ہے مگراس سے بھی عوام کے کانون پر جون تک نہیں رینگتی۔

دوسری طرف چیف سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیا ز بھی اس حوالے سے خاصے متحر ک نظر آتے ہیں جنہوں نے پورے صوبے کی سرکاری انتظامی مشینر ی کو متحر ک کر رکھا جو شہریوں میں کورونا سے بچائو کے لئے حکومتی ایس او پیز اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ،ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والے دکانداروں مسافر گاڑی مالکان گرفتار رکرتے ہیں ان پر جرمانے بھی عائد کئے جارہے ہیں مگر اس کے باوجو د صوبے میں کورونا مریضوں اور اس سے جان بحق ہونے والوں کی تعداد جس رفتار سے بڑھ رہی اس سے یہ آنے والے دنوں کے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔

صوبائی حکومت کو صوبائی بجٹ کی تیار ی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔کورونا وبا کی صورت حال کے باعث وفاقی محصولات میں کمی اور اس کے نتیجے میںصوبوں کے حصے میں کمی سے خیبرپختونخوا حکومت کو نئے مالی سال 2020-21کا بجٹ تیار کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔بدقسمتی خیبرپختونخوا کے بجٹکا 90فیصد حصہ فیڈرل ڈویژبل پول،این ایف سی میں صوبے کے حصہ،بجلی کے خالص منافع اور صوبے میں پیدا ہونے والے تیل و گیس کی رائلٹی پر مشتمل ہے جو کہ وفاق سے آتا ہے۔

رواںسال کوروناوبا سے پیداشدہ صورت حال کے باعث جہاں وفاقی محصولات میں کمی واقع ہوئی جس سے صوبوں کے ادائیگی پر بھی اثر پڑا، اس کے علاوہ بجلی کے خالص منافع کی مد میں بھی وعدے کے مطابق صوبے کو اس کا حق نہیں دیا گیا جبکہ صوبائی محاصل میں بھی صوبے کو دس ارب روپے کے خطیر کمی سامنا ہے جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کو نئےمالی سال کے بجٹ2020-21کے بجٹ میں مجموعی طورپرپچاس سے ساٹھ ارب روپے کے درمیاں ریکارڈ خسارے کا سامنا ہے جس نے صوبائی حکومت کو پریشان کررکھا ہے اور ابھی تک صوبائی حکومت سرجوڑ کر بیٹھی ہوئی ہے کہ اس خسارےکو کہا ں اور کس طرح پورا کیا جائے اگرچہ حکومت کو دعوی کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام اور دیگر غیرترقیاتی اور غیر ضروری اخراجات پر کٹ لگا کر خسارےپر قابو پالیا جائے گا۔

مگرایسا ہوتا نظرنہیں آرہاہے ہرسال حکومت اس قسم کے اخراجا ت میں کمی کرنے کے دعوے تو کرتی ہے مگر بعد میں اس قسم کےتمام دعوے سرخ فیتے کی نظر ہوجاتے ہیں۔خود وزیر خزانہ نے جو ہروقت غیرضروری اخراجات پر کٹ لگاتے اور کفایت شعاری کا درس دیتے ہیں نے نہ صرف اپنے سرکاری آفس کی تنزئین و آرائش پر لاکھوں روپے کے خرچ کئے ہیں بلکہ محکمہ خزانہ بھی سیکڑوں ملازمین کے ہوتے ہوئے بھی بجٹ سازی کے لئے پراجیکٹ کے نام پر منظورنظر افراد کی ایک الگ فوج بھرتی کررکھی ہے جنہیں ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ تو دی جاتی ہے مگر یہ دلچسپ بات سننے میں آرہی ہے کہ ان میں زیادہ تر لوگ بجٹ سازی سے واقف ہی نہیں ۔

صوبائی حکومت کو اس وقت جس مالی خسارے کا سامنا ہے اس میں 60ارب وفاقی محاصل کے ہیں جس میں کورونا وبا کے باعث کمی ہوئی جبکہ تیس ارب پن بجلی منافع کے ہیں جوصوبے کو تاحال نہیں ملے ۔ اسی طرح آئندہ مالی سال کے دوران نئی سکیموں کی بجائے جاری ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی اور انہیں مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔دیکھتے ہیں صوبائی حکومت اپنے ان وعدوں پر کس حد تک عمل کرنے میں کامیا ب ہوتی ہے۔

یہ بات صوبے کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کے بعد سامنے آجائے گی تاہم ایک بات واضح ہوچکی ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران خیبرپختونخوا میں کوئی میگا پراجیکٹ مکمل ہوا نہ ہی شروع کیا گیا۔پشاور بی آر ٹی کا منصوبے جس پر پوری تحریک انصاف مونچھوں کو تائو دیتی رہی مگر اس کی حقیقت سامنے آنے کے بعدا ب شرم کے مارے وزیرا علیٰ سمیت کابینہ کا کوئی وزیر تکمیل کی کوئی تاریخ تک کو دینے کو تیار نہیں ۔البتہ وزیر اعلیٰ کی صدارت میں کئی اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوئے جس میں ہونے والے فیصلے اور اعلانات محض دفتری فائلوں سے آگے نہیں جاسکے کیونکہ اس حکومت کے پاس کوئی اختیار ہے نہ یہ وزیر اعلیٰ بااختیار ہے بلکہ ان کی ڈوریں تو کوئی جگہ سے ہلائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے اس بدقسمت صوبے میں ترقی کی رفتار نہ صرف سست بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔