آپ کا صفحہ: دل میں ترازو ہوگیا....

June 28, 2020

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

نوک پلک سنوارلیں

نرجس ملک کے الفاظ گویا نایاب خوشبوئوں کی طرح دل و دماغ کو معطّر کرتے ہیں۔ ہرتحریر سیدھی دل میں اُتر جاتی ہے۔ ہماری اونگی بونگی تحریروں کی بھی نوک پلک سنوار لیاکریں، پلیز۔ (حمیدہ گل، حمیرا گل بنتِ سومر خانگل، کوئٹہ)

ج: وقتاً فوقتاً یہ پریکٹس کر تو رہے ہیں۔

بہت خُوب انٹرویو

اس دفعہ کا شمارہ لاجواب تھا، سرِورق پر ’’افطار پارٹی‘‘ دیکھ کر دل خوش ہوگیا، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ہمیشہ کی طرح زبردست، بہت اچھے موضوع پر ڈاکٹر حافظ ثانی نے بہت عُمدہ لکھا۔ اللہ ذخیرہ اندوزوں کو ہدایت دے۔ ماہِ رمضان میں بھی باز نہیں آئے، منور راجپوت نے بھی بہت سنجیدہ مسئلہ اٹھایا، ہمارے تمام معالجین اور طبّی عملہ اپنی مکمل صلاحیتوں کےساتھ اس وبا سے لڑ رہا ہے، جب کہ حکومت صرف سیاسی بیانات داغ رہی ہے۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل نے رمضان کے حوالے سے بہترین لکھا۔ سنڈے اسپیشل بھی زبردست رہا۔ رائو شاہد نے ٹیکنالوجی کی مدد سے مشکلات کا آسان حل بتایا۔ انصار برنی کا انٹرویو بہت ہی خُوب تھا۔ مدیرہ کی تحریر نے بھی ہمیشہ کی طرح الفاظ کے اُجلے موتی بکھیرے۔ عرفان جاوید کے ’’درخت آدمی ہیں‘‘ کی آخری قسط لا جواب تھی۔ اور ڈائجسٹ اور ہمارا صفحہ (آپ کا صفحہ) کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ (نام نہیں لکھا)

ج:سب کچھ اچھا، بہت خُوب ہوگا، مگر اپنا خُوب صورت نامِ نامی لکھنے کا تردّد کیوں نہ کیا۔ کچھ باتوں سے لگا کہ تحریر کسی صاحب کی ہے، تو ہینڈ رائٹنگ کسی صاحبہ کا معلوم ہوا۔ کیا ہمارا امتحان لینا مقصود تھا یا نام لکھنا یاد ہی نہ رہا۔

خوشبو لگا کے…

پہلی دفعہ خط لکھ رہا ہوں، خوشبو لگا کے… رسالہ ہاتھ میں لیا، تو حسبِ معمول محمود میاں موجود تھے۔ انہوں نے کورونا وائرس کے حوالے سے علمی و تحقیقی مضمون لکھا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل کا مضمون بھی جگمگارہاتھا۔ بالکل صحیح مثال دی کہ ہم مچھلی کے پیٹ میں جی رہے ہیں اور اس کا حل یہی ہےکہ آیت کریمہ کثرت سے پڑھیں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں نیا چہرہ سامنے آیا۔ خلیل الرحمٰن نے بہترین مضمون تحریر فرمایا۔ رئوف ظفر نے جیّد علما کی مدلّل گفتگو نقل کی، ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات میں حسینہ سادگی کا پیکر نظر ائیں خوشبو لگا کے، تو نسرین جبیں کی نوشہرہ کے حوالے سے تحریر افسردہ کر گئی۔ اس دفعہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں تین واقعات تھے اور تینوں عبرت انگیز تھے۔ خیر سے پوری دنیا میں کورونا وائرس ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے، خوشبو لگا کے… اب کیا کہیں، آفت کہہ لیں، آزمائش کہہ لیں یا عذاب، جو بھی کہیں، یہ تو طے ہے کہ بہرحال، توبہ، استغفار کا موقع ہے۔ مَیں ایک عرصے سے خاموش تھا، مگر اِک اِک بات نوٹ کرتا ہوں۔ خادم ملک کی بونگیاں، حمّاد شورانی کی دھمکیاں، پروفیسر منصور علی کی سنجیدگیاں، پروفیسر مجیب ظفر کی قلابازیاں اور لال کوٹھی والے راجا صاحب کی لن ترانیاں۔ تو سوچا کہ کیوں نہ ہم بھی اپنے قلم کی جولانیاں دکھائیں۔ جب ان سب کی تحاریر شایع ہوسکتی ہیں، تو ہماری کیوں نہیں اور بس، اندر کا لکھاری جاگ اٹھا۔ اب نہ جانے یہ کس کس کی نیندیں حرام کرے گا، خوشبو لگا کے…(نیمروز خان مہمند، گودھرا کالونی، کراچی)

ج: غالباً یہ ’’خوشبو لگا کے…‘‘ آپ نے تحریر میں مزاح پیدا کرنے کی کوشش فرمائی، ایک آدھ جگہ تو ٹھیک لگا، مگر کورونا وائرس کی وبا کےساتھ اس کا استعمال، خادم ملک کی بونگیوں کو بھی مات دے گیا۔ ویسے طرزِ تحریر ٹھیک ہے، بغیر خوشبو لگائے بھی کام چلے گا، مگر نیندیں حرام کرنے والی خوش فہمی کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔

آپ کی ہمّت ہے

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ ایک میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا متبرک صفحہ موجود تھا، ایک میں نہیں۔ ندی کی مانند اپنا راستہ خود بناتی چند خواتین کی کہانی پاکستانی عورت کا اصل چہرہ، زبردست تھا۔ کورونا وائرس نے واقعی ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مُوذی مرض سے جلد از جلد چھٹکارا دے۔ ’’عجائب خانہ‘‘ میں خمارِ گندم کی آخری قسط اور خیال کہاں سے آتا ہے کی پہلی قسط بہترین رہیؒں۔ اسٹائل کے صفحات میں آپ کے رائٹ اپ میں جو شاعری کا تڑکا ہوتا ہے، وہ ہم اپنی ڈائری کو لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں معروف نیفرولوجسٹ، ڈاکٹر خرم دانیال نے امراضِ گردہ کے بارے میں مفید بات چیت کی۔ سچ ہے، افغان قیادت کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔ امن یا خانہ جنگی میں سے انتخاب کرنا پڑے گا۔ کمشنر کراچی میٹروپولیٹن، ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن سے ملاقات خُوب رہی۔ ہم تو خود حیران رہ گئے، جب شری مرلی چند نے لکھا کہ کئی ہفتوں کی غیر حاضری کے بعد آئے ہیں، جب کہ ہر شمارے میں ان کا خط موجود ہوتا ہے۔ پھر خادم ملک اور پروفیسر مجیب کی جلی کٹی باتیں۔ واقعی یہ آپ ہی کی ہمّت ہے کہ اتنا کچھ برداشت کرلیتی ہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: جی، جی… وہ پنجابی کی کیا معروف مثل ہے ’’دَھن پربھانیاں نیں، جیہڑیاں سرھانے رکھ کے سوندیاں نیں‘‘ (اب سمجھ لیں، یہ آپ کا اسائنمنٹ ہے، اِس مثال کے معنی اور استعمال سے متعلق ذرا کھوج لگائیں کہ کب، کہاں اور کیوں بولی جاتی ہے) اِس بہانے لاک ڈائون میں کوئی تعمیری کام ہی ہوجائے۔

دل میں ترازو ہوگیا

’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ واقعی ایک خطرناک جملہ ہے، جس کے خوف تلے انسانی احساسات و جذبات تباہ و برباد ہوکر رہ جاتے ہیں۔ پتا نہیں ہم کب تک بنتِ حوّا کو اس جملے کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے۔ بیربل کے متعلق ایک ہندی مثل معتبر ہے اور ہم اپنے بزرگوں سے بھی سُنتے آئے ہیں۔ ’’بھاٹ بھٹیاری بسوا، تینوں جات کجات...... آنے کا آدر کریں، جاتے نہ پوچھیں بات۔‘‘بظاہر نظر نہ آنے والے کورونا نے دنیا کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ احکامِ خداوندی کو پسِ پشت ڈالنے کا یہی تو نتیجہ نکلنا تھا۔ لمبے عرصے سے فلسطینیوں پر اور پھر اگست 2019ءسے کشمیریوں پر لاک ڈائون مسلّط کیا گیا۔ بالآخر یہی ہونا تھا، ’’عدالتِ عظمیٰ کا سوموٹو‘‘ پڑھا۔ دل پذیر انداز، حالات و واقعات، قرآن مجید کے حوالہ جات، دلائل بہت بہترین اور جامع تھے۔ تحریر پڑھتے پڑھتے کئی دفعہ آنکھوں میں آنسو چھلکے۔ تین سالہ زخموں سے چُور چُور شامی بچّے کی آہ و بکا اور آخری الفاظ پڑھ کر روح لرز اٹھی۔ کشمیر کی مجبور و مقہور بیٹی نے روتے بلبلاتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر جو بُددعا دی، پڑھ کر بخدا دل رودیا، آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اور دُکھی دل سے اُن کےلیے دُعا نکلی۔ نمرود کی رعونت ایک نظر نہ آنے والے مچھر نےخاک میں مِلا دی۔ تو ڈرون کے ذریعے حفّاظ و قرآء کو شہید کرنے، شادی کی تقریبات اور دینی محافل کو ماتم کدے میں بدلنے والی سُپر پاورز بھی آج نشانِ عبرت ہیں۔ بلاشبہ یہ صدقہ خیرات کا موقع ہے، کیوں کہ صدقہ بلائوں کا ٹال دیتا ہے، دل میں ایک حشر اُٹھادے، مَیں تیری سُن لوں گا۔ ایک دو صفحات کی تحریر میں آپ نے کیا کیا نہیں سمودیا، قسم خدا کی، پڑھ کے اب تک حیران و پریشان ہوں، اِک اِک لفظ جیسے دل میں ترازو ہوگیا۔ (ایم سلیم رضا چوہان، مبارک پور، احمد پور شرقیہ)

ج:ہماری اس تحریر سےاگر کسی ایک فرد کی بھی اصلاح ہوگئی، کسی ایک نے بھی نیکی و بھلائی کا کوئی سبق پالیا، تو سمجھیں ہماری محنت وصول ہوگئی۔

جہاد بالقلم کا علَم

دُعا ہے، ربِ کریم آپ پر بزرگوں کا سایہ، دعائیں تادیر قائم رکھے۔ روزنامہ جنگ نے اردو زبان کے لیے ہمیشہ جہاد بالقلم کا علَم بلند رکھا اور اب بھی اصلاحی جدوجہد جاری وساری ہے، لیکن کیا کریں اب ہم بوڑھے طوطے زبان پر رَٹے الفاظ کی اصلاح بمشکل ہی کرپاتے ہیں۔ موجودہ حکومت اور اس کی فوج ظفر موج نے صحافت اور صحافیوں پر جوشب خون مارا ہے، اس پر کیا کہیں۔ بس، دُعا ہی ہے کہ رب آپ پر اور جنگ گروپ کی پوری ٹیم پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین۔ نظر کی کم زوری اور انگلیوں کا قلم پر قابو اب رفتہ رفتہ بےقابو ہوتا جارہا ہے۔ ایڈیٹنگ کو الفاظ کی حُرمت سمجھتا ہوں۔ مَیں اجازت نہ بھی دوں، تو یہ آپ کا فریضہ ہے اور اس سے مجھے اصلاح کی بھی نوید مل جائے گی۔ (جمیل احمد انصاری ، احسن آباد،حیدرآباد)

ج:آپ جیسے بزرگوں کی دعائیں، حوصلہ افزائی شاملِ حال رہیں، تو کوئی فوج ظفر موج لاکھ شب خون مارے، ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔

مسیحاؤں کی خدمات

سنڈےمیگزین کاشمارہ سامنے موجود ہے۔’’مدرزڈے‘‘ کے خصوصی ٹائٹل کے ساتھ مہکتا، چمکتا دمکتا ایڈیشن اپنی مثال آپ ہے۔ شفق رفیع کی تحریر ’’وہ ماں بھی ہے، مسیحا بھی ٹھہری‘‘ بہت ہی شان دار پیش کش تھی۔ مسیحائوں کی خدمات واقعی قابلِ تحسین اور لازوال ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے دلائل کے ساتھ عُمدہ تحریر لکھی۔ عجائب خانہ میں سفید کوّے بہت ہی منفرد موضوع پر ایک شان دار، اچھوتی کاوش ہے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں پروفیسر ڈاکٹر اقبال میمن نے بچّوں کے حوالے سے بہترین معلومات فراہم کیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں او پی بی آئی اسپتال سے متعارف کروا کے آپ نے ایک خدمت انجام دی ہے۔ اور نعت خواں سلمیٰ خان کا خصوصی انٹرویو بھی بہت شان دار رہا۔ اللہ ہماری مائوں کی حفاظت فرمائے۔ ڈاکٹر سعدیہ حسن کی ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ خُوب تھی۔ ڈاکٹر احمد حسن کے افسانے ’’ماں جی‘‘ کا بھی جواب نہ تھا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر ہمیشہ کی طرح لال کوٹھی والی سرکار ہی قابض نظر آئی۔ بہاول نگری حضرات مطلب، بہاول نگر والے کئی ہفتوں سے غائب ہیں، کیوں…؟؟ (جنید علی چشتی، سینٹرل جیل،ملتان)

ایک خداداد صلاحیت

سنڈےمیگزین زیرمطالعہ ہے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں بعنوان ’’عدالتِ عظمیٰ کا سوموٹو‘‘ دل میں اِک حشر اُٹھادے، مَیں تیری سُن لوں گا۔ پڑھ کے زبان گنگ ہے۔ کہاں بندہ، کہاں توصیف رب کی۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کو زیبا ہیں۔ کائنات کی ہر شے سے اس کی قدرت عیاں ہے۔ مدیرہ کا قابلِ تعریف طرزِ تحریر اِک خداداد صلاحیت ہے۔ انہیں دل کش پیرائے میں مضمون نگاری میں کمال حاصل ہے۔ زیرِ مطالعہ مضمون کی شان دار تخلیق پر اللہ کو حاضرو ناظر جان کر مدیرہ کو دلی تحسین پیش کرتا ہوں، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ ( مانی بھائی، اورنگی ٹاون، کراچی)

ج: بہت شکریہ، ذرّہ نوازی ہے آپ کی ۔

فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

سرِورق پر سنہری رنگت کے ساتھ ہاتھ میں سبز نگینے پہنے کچھ شوخی، کچھ سنجیدگی لیے ماڈل موجود تھی، مگر آدھا صفحہ اسی کورونا کے لیے مختص تھا۔ یہ ماڈل اور کورونا کا تال میل کچھ سمجھ نہیں آتا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور مرزا کورونا وائرس سے متعلق امید وبیم کی وعیدونوید سُنارہے تھے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، دنیا بھر کے سائنس دان تحقیق وتفتیش میں جان کھپا رہے ہیں۔ اُمید ہے، جلد خوش خبری ملے گی۔ سنڈے اسپیشل میں راو شاہد اقبال آئے اور خوب آئے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رئوف ظفر لاک ڈائون میں اہل قلم کی مصروفیات کا احوال دیتے نظر آئے۔ عالیہ کاشف ماڈل کے رنگ وخُوشبو کی تعریف کر رہی تھیں، تو ’’انٹرویو‘‘ میں گلزار محمّد خان کی سیّد عاقل شاہ سے بات چیت بھی اچھی رہی۔ ’’عجائب خانہ‘‘ میں عرفان جاوید ’’درخت انسان ہیں‘‘ کی پہلی قسط کے ساتھ موجود تھے۔ پودوں، درختوں کی حسّاسیت کے تو ہم خود چشم دید گواہ ہیں۔ ہماری بیٹی کی شادی ہوئی، تو ہم نے دیکھا گملوں میں لگے پودے کملا سے گئے ہیں۔ پھر ہماری بڑی بہن نے بتایا کہ بیٹی کی رخصتی کے غم میں کملا گئے ہیں کہ وہی ان کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ چند دن میں صحیح ہوجائیں گے۔ اور واقعی وہ چند دن بعد ٹھیک ہوگئے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر امتیاز اطہر کورونا کوانسانی تاریخ کی خطرناک ترین بیماری قرار دے رہے تھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں قیصرہ پروین نے ڈاکٹرز کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتےہوئےانہیں ’’اصل ہیروز‘‘ کے خطاب سے نوازا، واقعی دُکھی انسانیت کی خدمت کرنے والے ہیروز ہی ہیں۔ جب کہ ’’ہمارا صفحہ‘‘ میں شاہدہ ناصر لغات سے پیوند کاری کرکے اور آپ کی مہربانی سے ’’ہفتے کی چٹھی‘‘ کی کرسی پر بیٹھ گئیں، تو ’’ہم بھی تو پڑے تھے راہوں میں…‘‘ (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میرپور خاص)

ج: اگر اب تک آپ کو کورونا اور انسان کا تال میل ہی پتا نہیں چل سکا، تو آفرین ہے آپ پر۔ ویسے تو ہر راہ میں پڑے کو اُٹھایا نہیں جاتا، مگر چلیں خیر، آپ بھی کیا یاد کریں گے۔

گوشہ برقی خُطوط

ج:جی بہتر۔ آپ کا حُکم سر آنکھوں پہ۔

ج:پوری دنیا میں اس وقت کورونا کے علاوہ کوئی اور موضوع زیرِ بحث ہے، تو آپ بتادیں، ہم نے تو پھر بھی رمضان ایڈیشنز، مدرز ڈے اور عید ایڈیشن تیار کرکے آپ کی خدمت میں پیش کیے ہی ہیں۔

ج: آمین۔

ج:جی ضرور، آپ جس موضوع پر بھی لکھنا چاہیں، لکھ کے بھیج سکتے ہیں، تحریر معیاری، معلوماتی ہوگی، تو ترجیحاً شایع کردی جائے گی۔

ج:آپ اپنی آواز ہم تک پہنچائیں تو سہی، اپنے مسائل کے حوالے سے مفصّل تحریر روانہ کریں، ہم نوک پلک سنوار کے شایع کردیں گے۔ ممکن ہے، آپ کے توسّط سے بُہتوں کا بھلا ہوجائے۔

قارئینِ کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk