یکتائے زمانہ، قاری الشیخ عبدالباسط محمد عبدالصمد

June 28, 2020

قرونِ اُولیٰ ہی سے عرب اپنی فصاحت و بلاغت اور لحن وترنم میں کسی غیر عرب کو اپنا ہم سَر تسلیم نہیں کرتے تھے۔ وہ اُس دَور میں بھی کلام کرتے ہوئےحروف و کلمات کے اتار چڑھائو پر نہ صرف خصوصی توجّہ دیتے، بلکہ انہیںصحیح مخارج، عمدگی اور صفات کے ساتھ ادا بھی کرتے تھے۔ جب کہ دنیائے عرب میں مصریوں کی فکر یہ رہی کہ عربی لغت و لسانیات میں وہ پہلے نمبر پر ہیں۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ مصر دینی و تہذیبی علوم اور عرب ثقافت کا اہم مرکز رہا ہے۔ سرزمینِ مصر، علومِ قرآنی اور فنِ قرأت، تجوید، ترتیل اور تخصیص کا مرکز رہی ۔ اس نے شیخ مصطفیٰ اسمٰعیل، شیخ محمود علی البنّاء، شَیخ محمد خلیل الحُسری، شیخ محمد صدیق المشاری اور شیخ قاری عبدالباسط محمد عبدالصّمد جیسے نام وَر اور بلند پایہ قراء کرام کو جنم دیا، جنہوں نے قرأتِ قرآن میں کمال حاصل کیا۔ تاہم، قاری عبدالباسط عبدالصّمد کا مصر سمیت دنیابھر میں کوئی ثانی نہیں ملتا ۔ انہوں نے مصر کی حدود سے باہر نکل کر عالم اسلام سمیت دنیابھر میں کلامِ الٰہی کا علَم اورمصر کا نام بلند کیا ۔ قدرت نے انہیں بے مثال آواز اور قرآن کو سمجھنے کی بے پناہ صلاحیت سے نوازا تھا، مگر ان صلاحیتوں کو بام ِعروج تک پہنچانے میں ا ن کی جستجو اور جہدِ مسلسل کا بھی بڑا حصّہ تھا۔

اس حوالے سے عالمی سطح پر انہیں جو پذیرائی ملی، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ انہیں ’’سفیرِقرآن، صوت المکّہ، صَوت الجنّتہ‘‘ اور ’’لحنِ طلائی‘‘ (گولڈن تھروٹ( کے خطابات سے نواز ا گیا ۔ 1970ء کی دہائی میں انہوں نے تین عالمی مقابلوں میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ جس کے بعد ان کی آواز دنیا بھر میں گونجنے لگی۔ عالمِ اسلام سمیت شمالی امریکا، جنوبی امریکا، کینیڈا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی وغیرہ، کہاں کہاں انہوںنے اپنی پُرسوز اور گمبھیر آواز میں کلام اﷲ کی تلاوت سے لوگوں کے ذہن وقلب کو متاثر نہیں کیا۔ ان کی تلاوت سن کر نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوجاتے تھے۔

وجد طاری کردینے والی ان کی تلاوت میں ایک ایسی تاثیر ہے کہ جس کے اثر سے بہت سے غیر مسلم اسلام قبول کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ ان کی قرأت سے بے حد متاثر تھیں۔ انہیں جب بھی موقع ملتا، فرمائش کرکے ان سے تلاوت سنتیں۔ اس حوالے سے قاری عبدالباسط نے اپنے ایک انٹرویو میں ایک واقعہ بیان کرتےہوئے اسے ’’معجزہِ قرآن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مصر کے صدر جمال عبدالناصر کا جھکائو بائیں بازو کی طرف تھا، تاہم وہ عرب اتحاد کے علَم بردار تھے اور اُن کی خواہش ہمیشہ یہ رہی کہ وہ خود کو عرب دنیا کے لیڈر کے طور پر پیش کریں۔ روس سے اُن کے اچھے تعلقات تھے۔ ایک بار جب وہ روس کے دورے پر تھے، وہاں کی کچھ مقتدر شخصیات نے ایک غیر رسمی ملاقات کے دوران ان سے کہا کہ وہ اسلام چھوڑ کر پوری طرح کمیونزم کو اپنالیں، تو روس، مصر کوایک ترقی یافتہ ملک بنا دے گا۔ جمال ناصر کو یہ بات پسند نہ آئی اور دل میں کھٹکتی رہی۔ کچھ عرصے بعد صدر ناصر کو پھر روس جانا تھا۔ انہوںنے مجھے (قاری عبدالباسط) خط لکھا کہ آپ کو میرے ساتھ روس جانا ہے۔ میںحیران ہوگیا کہ اگر یہ دورہ کسی اسلامی ملک کا ہوتا، تو بات سمجھ میں آتی تھی، لیکن روس میں میرا کیا کام۔

بہرحال، صدر کا حکم تھا، چناںچہ مجھے ان کے وفد میںشامل ہونا پڑا۔ روس میں ایجنڈے کی ملاقات کے بعد انہی حکّام کے ساتھ ایک غیر رسمی اجلاس میں صدر ناصر نے میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ’’یہ میرے دوست اور وفد کے رکن ہیں، آپ کو کچھ سنائیں گے۔‘‘ میں نے سورئہ طحٰہ کی تلاوت شروع کی۔ (یہی وہ سورۃ ہے، جس کی آیات سن کر حضرت عمر فاروقؓ کا دل موم ہوگیا تھا اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا) جب میں نے تلاوت مکمل کرکے اپنی آنکھیں کھولیں، تو سامنے بیٹھے ہوئے روسی حکّام میں شامل کئی اراکین کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ جمال ناصر نے ان سے وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا کہ’’مفہوم تو ہمیں نہیں معلوم، لیکن یہ اس قدر متاثر کن ہے کہ ہم اپنے آنسو نہ روک پائے۔‘‘

قاری عبدالباسط اس لحاظ سے یکتائے زمانہ اور نابغہِ روزگار شخصیت کے حامل تھے کہ 32 بر س پہلے اس دنیاسے رخصت ہوجانے کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان روزانہ ان کی ریکارڈ شدہ تلاوت سُنتے ہیں۔ خصوصاً ان کی آواز میں سورئہ رحمٰن، سورۃ والضحیٰ، سورۃ والشمس اور سورئہ الم نشرح کی تلاوت سن کر اپنی روح کو تازگی اور قلب و ذہن کو سوزو گداز سے معمور کرتے ہیں۔ الشیخ قاری عبدالباسط بن محمد عبدالصمد بن سلیم 1927ء میں جنوبی مصر کے ایک قصبے ’’ارمانت‘‘ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد عبدالصمد ایک دینی شخصیت تھے۔ ان کی خاندانی روایت کے مطابق لڑکوں کو تعلیم و تربیت کے لیے مصر کی عظیم دینی درس گاہ جامعتہ الازہر (قاہرہ)بھیجا جاتا تھا، چناںچہ قاری عبدالباسط کے دونوں بڑے بھائیوں، محمود عبدالحامد اورعبدالحامد عبدالصمد نے بھی تعلیم کے حصول کے لیے جامعتہ الازہرجانے کی خواہش کا اظہار کیا۔

تاہم، قاری عبدالباسط کو قدرتی طور پر بچپن ہی سے قرآن کریم سے والہانہ عشق تھا۔ وہ روزانہ تین کلومیٹر پیدل چل کر ایک دوسرے قصبے میں واقع مقہیٰ (چائے خانہ) جاتے، جہاں بیٹھ کر ریڈیو سے نشر ہونے والی تلاوتِ قرآن سنتے اور اس میں کھوجاتے تھے۔ وہ اُس دور کے مقبول ترین قاری شیخ محمد رفاض کی تلاوت سے بے حد متاثر تھے۔ انہوں نے دل میں عہد کرلیا تھاکہ وہ اپنی زندگی تلاوتِ قرآن اور فنِ قرأتِ قرآن کی ترویج و مقبولیت کے لیے وقف کردیں گے۔ لہٰذا انہوں نے بھائیوں کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے والد سے اِس عزم کا اظہار کیا کہ وہ حفظِ قرآن ِکریم اور فن ِ قرأ ت سیکھ کر قاری بننا چاہتے ہیں۔

ان کے اس عزمِ صمیم کو دیکھتے ہوئے والد نے بخوشی رضامندی ظاہر کردی۔ قاری عبدالباسط نے محض 10 برس کی عُمر میں قرآنِ کریم حفظ کرلیا اور علوم قرآنی اور فن ِ قرأت و تجوید میں مہارت حاصل کرنا شروع کردی۔ واضح رہے کہ قرأتِ قرآن کے 10 مختلف اسلوب ہیں۔ انہوں نے12 سال کی عمر میں 7اور 14 سال کی عمر میں مکمل 10 اسلوب پر عبور حاصل کرلیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اندرونِ مصر قاری عبدالباسط کی مقبولیت بڑھنے لگی۔ 14سال کی عمر میں انہیں رمضان المبارک میں بڑی مساجد میں تراویح کے لیے بلایا جانے لگا۔ اس دوران ان کے استاد اور سرپرست، شیخ محمد سالم نے اُن کی تربیت اور حوصلہ افزائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

جب مختلف علاقوں میں دینی تقریبات میں قاری عبدالباسط کو مدعو کیا جاتا، تو وہ خود اُن کے ساتھ جاتے تاکہ اُن کا حوصلہ بلند رہے۔ مختلف علاقوں میں ان مجالس اور محافل میں حصّہ لینے کے باعث اُن کے جوہر مزید کُھلنے لگے۔ 1950ء میں قاری عبدالباسط کی عُمر صرف 23 برس تھی کہ اُن کے استاد اور ساتھیوں نے انہیں ترغیت دی کہ وہ دارالحکومت قاہرہ چلیں اور وہاں کی مرکزی مساجد میں ہونے والی محافلِ ِ قرأت میں حصّہ لیں۔ چوںکہ ان محافل میں اُس دور کے نام وَر اور کہنہ مشق قاری حصّہ لیتے تھے، اس لیے ابتدا میں کچھ جھجک محسوس ہوئی، لیکن پھر ہمّت کی اور قاہرہ آگئے۔ مسجدِ سیّدہ زینبؓ میں منعقدہ ایک بڑی محفلِ قرأت میں بہت سے نام وَر، سینئر قاری حصّہ لے رہے تھے، اُن کی موجودگی میں قاری عبدالباسط کی ان کی کم عمری کے باعث صرف تین منٹ کا وقت دیا گیا۔ انہوں نے سورئہ غاشیہ کی تلاوت کی، جسے سُنتے ہی حاضرینِ محفل میں ایک تلاطم سا بپا ہوگیا۔ وہاں موجود تمام لوگ دم بخود تھے۔ ان پر جیسے ایک سحرطاری ہوگیا۔ محبت و عقیدت کے جذبات سے مجمع اٹھ کھڑا ہوااور پھر مجمعے کے اصرار پر منتظمین نے قاری عبدالباسط کو مزید دس منٹ دیئے۔ یوں قاہرہ کی مسجد سیّدہ زینب ؓسے قاری عبدالباسط کی کام یابیوں اور مقبولیت کا ایک نیا دَور شروع ہوا۔

قاری عبدالباسط کو مسجدِ سیّدہ زینبؓ سے اس حد تک عقیدت تھی کہ انہوں نے مسجد کے قریب ہی پہلے ایک ہوٹل میں کمرا حاصل کیا، بعدازاں اسی مسجد کے سامنے ایک اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ہوگئے۔ اب قاری عبدالباسط کی مقبولیت مصر کی سرحدوں سے باہر نکلنے لگی۔1951ء میں ریڈیو سے اُن کی قرأت نشر ہونا شروع ہوئی۔ پہلی بار اُن کی ریکارڈ شدہ تلاوت جدّہ کے ایک ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوئی۔ 1952ء میں انہیں قاہرہ کی جامع مسجدامام الشافعیؒ کا سرکاری قاری مقرر کیا گیا، پھر 1985ء میں انہیں عظیم المرتبت قاری شیخ محمود علی البنّا کی جگہ جامع مسجد امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آفیشل قاری مقرر کیا گیا۔ اس دوران عرب ممالک سے دعوتیں آنا شروع ہوگئیں، 1951ء میں سعودی عرب گئے اور فریضہِ حج ادا کیا۔ مسجد الحرام اورمسجد نبویؐ میں تلاوت کا شرف حاصل ہوا۔ سعودی حکومت نے انہیں ’’صوت المکّہ‘‘ کا خطاب دیا۔

واپسی پر ماہِ رمضان میں انہوں نے شام کا دورہ کیا اور دمشق میں مسجدِ بنو امیّہ کے علاوہ انطاکیہ، طرطوس بھی گئے۔ لبنان، بیروت، اردن سمیت دیگر ممالک میں اپنی باکمال قرأتِ قرآن پیش کی، جہاں انہیں اعزازات سے نواز اگیا۔ انہوں نے دوبار رمضان کے مبارک مہینے فلسطین میں مسجد اقصیٰ (مسلمانوں کے پہلے قبلہ اوّل) میں گزارے، جہاں اکثر ’’سورئہ اسریٰ‘‘ کی تلاوت کرتے۔ (اس وقت مسجد ِاقصیٰ پر یہودیوں کا قبضہ نہیں ہوا تھا)۔ قاری عبدالباسط نے نہ صرف اپنیِ قرأت کے ذریعے قرآن کی ترویج و اشاعت کا فریضہ انجام دیا، بلکہ منظّم طور پر فنِ قرأت و تجوید کے فروغ کےلیے مصر میں قراء کرام کی نیشنل یونین بھی قائم کی اور اتفاق رائے سے اس کے بلا مقابلہ چیئرمین اور صدر مقرر ہوئے۔

قاری عبدالباسط کو سانس کی طوالت میں خاص کمال حاصل تھا۔سانس پر اس قدر کنٹرول تھاکہ اکثر اوقات ایک ہی سانس میں کئی آیات کی قرأت سے سننے والوں پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری کردیتے تھے۔ بہت سےقراء نے ان کا انداز اپنانے کی کوشش کی۔ کچھ حضرات نے کسی حد تک کام یابی بھی حاصل کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی اُن کا ہم سَر نہ ہوسکا۔ اُن کے تین بیٹوں ہشام عبدالصّمد، طارق عبدالصّمد اور یاسر عبدالصّمد میں سے یاسر نے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے فنِ قرأت کو اپناکے2006 ء میں ایک نام وَر قاری کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ اپنے والد سے بہت مشابہ بھی ہیں اور اُن ہی کی طرز پر قرأت کرتے ہیں۔ نیز، سانس کی طوالت پر بھی انہیں خاصا عبور حاصل ہے۔

عمر کے آخری حصّے میں قاری عبدالباسط ذیابطیس اور جگر کے عوارض کے باعث کم زور ہوگئے تھے۔ 30 نومبر 1988ء کو کار کے ایک حادثے میں زخمی ہونے کے بعد لندن کے ایک اسپتال میںزیر علاج رہے۔ تاہم، جاں بر نہ ہوسکے اور 61برس کی عمر میں اپنے کروڑوں معتقدین اور پرستاروں کو غم زدہ چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اُن کے جنازے میں اسلامی ممالک کے سفراء اور اعلیٰ حکومتی عہدے داران سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ جنوبی مصر میں اُن کے آبائی قصبے ’’ارمانت‘‘ میں ایک بڑی مسجد اُن کے نام سے موسوم کی گئی۔ قاری عبدالباسط نے دیگر اسلامی ممالک کی طرح پاکستان، انڈونیشیا اور بنگلادیش کے دورے بھی کیے۔ پہلی بار وہ 1961ء میں پاکستان تشریف لائے اور کراچی میں ’’عالمی محفل حسنِ قرأت‘‘ میں سورئہ رحمٰن کی تلاوت سے ایک سحر طاری کردیا۔ اس کے بعد پاکستان کے عوام میں انہیں جو مقبولیت حاصل ہوئی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ 1988ء میں وفات سے کچھ عرصہ قبل دوسری بار پاکستان آئے اور ناسازئ طبع کے باوجود بادشاہی مسجد لاہور میں سورۃ والضحیٰ اور سورۃ والشمس کی تلاوت سے پاکستانیوں کے دل گرمائے۔

درحقیقت قرآنِ کریم کی ہر سورہ اور ہر آیت میں حکمت اور برکت پوشیدہ ہے، لیکن بعض سورتوں اور آیات کے کمالات اور انسانی زندگی پر اُن کے اثرات کی باربار نشان دہی کی گئی ہے، جیسے سورئہ فاتحہ، سورئہ یٰسین، سورئہ رحمٰن، سورئہ ملک، سورئہ واقعہ، سورئہ کہف اور چاروں قُل شریف۔ سورئہ رحمٰن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی تلاوت سننے سے کینسر اور قلب کے مریضوں کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، لیکن اس میں تخصیص یہ ہےکہ قاری عبدالباسط عبدالصمد کی آواز میں سنی جائے، تو بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔ غالباً 1975-76ء میں پاکستان میں قلب کے مریضوں کو قاری عبدالباسط کی آواز میں سور ئہ رحمٰن کی تلاوت سنوانے کے لیے صفدرعلی بخاری صاحب نے باقاعدہ ایک تحریک شروع کی، جس کے نتیجے میں بے شمار مریضوں کو افاقہ ہوا۔ جس کے بعد پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بخاری صاحب کی اس تحریک کو بہت تیزی سے مقبولیت حاصل ہوتی چلی گئی۔

بخاری صاحب کے انتقال کے بعد شاکر عذیر اور ڈاکٹر محمد جاوید سمیت کئی شخصیات نے اُن کی تحریک کو اپنا مشن بنا لیا اور وہ آج بھی معاشرے کے بیمار اور پریشان حال لوگوں کی جسمانی، ذہنی اور روحانی بہتری و آسودگی کے لیے اس کام کو ایک مشن کے طورپر انجام دیتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد جاوید اور اُن کے ساتھیوں کی کوششوں سے لاہور اور اسلام آباد کے بہت سے بڑے اسپتالوں میں مختلف وارڈز میں اسپیکرز نصب کروائے گئے، جہاں سے مقررہ اوقات میں ہر روز قاری عبدالباسط عبدالصمد کی آواز میں سورئہ رحمٰن تلاوت گونجتی ہے۔ بلاشبہ، قاری عبدالباسط عبدالصمد پر اﷲ پاک کایہ خاص کرم ہے کہ قرآن ِ کریم کی برکت سے اُن کا نام بھی رہتی دنیا تک تابندہ وپائندہ رہے گا۔