لاک ڈاؤن کا کڑوا گھونٹ حکومت پینا چاہتی ہے، نہ عوام

June 28, 2020

6جون 2020ء کوخبر آئی کہ’’لاک ڈائون میں نرمی کے بعد بھارت کورونا کیسز میں اٹلی سے بھی آگے نکل گیا۔ صرف ایک دن میں ایک ہزار سے زاید کیسز رپورٹ ہوئے، جس کے بعد مجموعی تعداد اٹلی سے بڑھ گئی۔وہ دولاکھ، 36ہزار کیسز اور 7000اموات کےساتھ دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ طبّی ماہرین لاک ڈائون میں نرمی، عبادت گاہوں اور دفاتر کھولنے پر حیران تھے کہ جب لاک ڈائون کے سبب کیسز میں کمی ہو رہی تھی، تو پھر اس میں نرمی کیوں کی گئی؟

سرکاری حلقوں نے اس اقدام کی یہ توجیہہ پیش کی کہ’’حکومت کے پاس اس کے سِوا اور کوئی راستہ نہیں تھا، کیوں کہ ایک خاص حد کے بعد اقتصادی، سماجی اور نفسیاتی طور پر لاک ڈائون ممکن نہیں۔‘‘قبل ازیں، 10مئی کو جرمنی سے متعلق ایک خبر اس سُرخی کے ساتھ شایع ہوئی’’ قومی لاک ڈائون میں نرمی کے بعد چند دنوں ہی میں کورونا مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی۔‘‘خبر میں جرمن چانسلر کا بیان بھی شامل تھا کہ’’ اگر لاک ڈائون میں نرمی کے دَوران مرض میں اضافہ ہوا، تو دوبارہ سختی کرنی پڑے گی۔‘‘ 8جون کو نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم، جسینڈا آرڈرن نے تمام پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا’’ اب نیوزی لینڈ میں کورونا کا کوئی مریض نہیں ۔

عوامی اجتماعات، سوشل ڈسٹیسننگ سے متعلق پابندیاں ختم کر دی گئیں، البتہ غیر ملکیوں کے لیے سرحدیں بدستور بند رہیں گی۔‘‘ واضح رہے، نیوزی لینڈنے 25مارچ کو چار مراحل پر مشتمل لاک ڈائون کا اعلان کیا تھا۔ پہلے مرحلے میں تمام کاروباری مراکز، اسکولز، ریسٹورنٹس اور دفاتر وغیرہ بند کیےگئے، جب کہ عوام کو سختی سے گھروں میں رہنے کا پابند کیا گیا۔ 5ہفتوں کے بعد لاک ڈائون لیول 3پر آ گیا، جب چند کاروباری مراکز کھول دئیے گئے۔ مئی کے وسط میں لیول 2اور پھر لیول وَن کا مرحلہ مقرّرہ مدّت(22جون) سے پہلے آ گیا، کیوں کہ مسلسل 17دنوں تک کورونا کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم لاک ڈائون کے خاتمے پر خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھیں۔ ماہرین نے اس کام یابی کو لاک ڈائون کا صبر آزما مرحلہ قرار دیا، جو عوام کے لیے خاصا مشکل تھا ۔

تین خبریں ....ایک کہانی

بھارت، جرمنی اور نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والی یہ خبریں بظاہر تین مختلف ممالک کی کہانیاں ہیں، لیکن بین السطور ایک ہی سبق کارفرما ہے اور وہ یہ کہ اگر کورونا پر قابو پانا ہے، تو لاک ڈائون کا کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ اگر ان خبروں کے تناظر میں پاکستان میں کورونا کی سنگین صُورتِ حال کا جائزہ لیا جائے، تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ وہ کڑوا گھونٹ ہے، جسے حکومت پینا چاہتی ہے اور نہ ہی عوام ۔ ایک معروف نجی یونی ورسٹی کے مائیکرو بائیولوجسٹ، محمّد عرفان کا کہنا ہے کہ’’ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ کورونا پوری دنیا کی طرح ہم پر بھی اُس وقت حملہ آور ہوا، جب ہم اس کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن ہم بعد میں بھی کوئی ٹھوس، نتیجہ خیز اور مربوط پالیسی اختیار نہ کرسکے اور اب جب کہ روزانہ 5ہزار سے زاید کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، تب بھی حکومت کنفیوژن کا شکار ہے۔

وزیرِ اعظم اب بھی مکمل لاک ڈائون کے حق میں نہیں اور وہ اِس ضمن میں یورپی ممالک کی مثالیں دیتے ہیں، جہاں پابندیاں نرم ہو رہی ہیں، لیکن اُنہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ وہ ممالک لاک ڈائون کے سخت مراحل کے بعد ہی موجودہ پوزیشن تک پہنچے ہیں، جب کہ ہم نے صرف ایک ماہ ہی میں لاک ڈائون کا بھاری پتھر چوم کر رکھ دیا۔ یہ بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ لاک ڈائون کے دنوں میں یومیہ پانچ، چھے سو کیسز رپورٹ ہو رہے تھے اور اب اس میں نرمی کے بعد کیسز کی یومیہ تعداد پانچ چھے ہزار تک جا پہنچی ہے۔

اس تعداد نے عوام کو خوف زدہ کردیا ہے، اوپر سے وزیرِ اعظم کے اِس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ’’ جولائی اور اگست میں کورونا مرض اپنی انتہا پر جا پہنچے گا۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا’’ عمران خان کی یہ سوچ تو درست ہے کہ دہاڑی دار مزدوروں اور چھوٹے تاجروں کا بھی سوچنا چاہیے، لیکن اگر گزشتہ دنوں تقسیم کی گئی خطیر رقم درست طریقے سے عوام تک پہنچ جاتی، تو اُنھیں فاقہ کشی سے بچایا جا سکتا تھا۔‘‘لاک ڈائون ہونا چاہیے یا نہیں؟ پاکستان میں اِس سوال پر بحث مباحثے کے دَوران بعض ایسی رپورٹس منظرِ عام پر آئیں، جنہوں نے لاک ڈائون کی افادیت پر مُہرِتصدیق مثبت کر دی۔

ایمپیریل کالج آف لندن کی رپورٹ میں لاک ڈائون کی اہمیت واضح کرتے ہوئے لکھا گیا’’ اگر یورپ کے 5ممالک میں لاک ڈائون کے تحت حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جاتیں، تو کم از کم چالیس لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے اور اگر پوری دنیا میں ان تدابیر کو نظرانداز کیا جاتا، تو کم از کم 6کروڑ افراد کی ہلاکت کا خطرہ تھا۔‘‘رپورٹ میں احتیاطی تدابیر کے فقدان کے ممکنہ نتائج انتہائی خوف ناک بیان کیے گئے ہیں اور اسے اُن ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا گیا ہے، جو اب تک اس مرض کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔نیز، عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان کے لیے جو ہدایات اور سفارشات جاری کی ہیں، وہ بھی ہماری ناقص حکمتِ عملی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

پاکستان کو وارننگ دی گئی ہے کہ اگر مکمل لاک ڈائون کے ساتھ مقرّرہ حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں، تو صُورتِ حال انتہائی خوف ناک ہوسکتی ہے۔ ابھی ان سفارشات کی بازگشت سُنائی دے رہی تھی کہ اس خبر نے مزید سنسنی پھیلا دی کہ’’ پاکستان کو کورونا کے حوالے سے دنیا کا چوتھا خطرناک ترین مُلک قرار دے دیا گیا۔‘‘ ہانگ کانگ اسٹڈی گروپ کی ایک رپورٹ میں کورونا کے علاج میں ناکامی پر پاکستان کو ایشیا اور بحرالکاہل میں چوتھا خطرناک مُلک قرار دیا گیا۔اس رپورٹ میں طبّی وسائل کے استعمال، قرنطینہ کی سہولتوں، وائرس کی تشخیص کی صلاحیت اور معاشی نقصان کی رفتار کو معیار بنایا گیا۔ کم نقصان والے ممالک میں سوئٹزر لینڈ، جرمنی اور اسرائیل شامل ہیں۔

ذمّے دار کون…؟

پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا مریض 26فروری 2020ء کوسامنے آیا، جب ایران سے آنے والے کراچی کے ایک طالبِ علم میں اس کی علامات پائی گئیں۔ پھر 18مارچ تک دیگر صوبوں سے بھی کیسز رپورٹ ہونے لگے۔ اُس وقت سے لے کر اب تک سوشل میڈیا، طبّی ماہرین، سائنس دانوں، حکم رانوں، سیاست دانوں، الیکٹرانک میڈیا اور نجی محفلوں میں اس موضوع پر اتنی زیادہ بحث ہو چُکی ہے کہ یہ الجھا ہوا دھاگا بن کے رہ گیا ہے، جس کا سِرا کسی کے ہاتھ نہیں آ رہا۔

حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے کسی مشترکہ حکمتِ عملی کی تشکیل کی بجائے الزام تراشیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اور صُورتِ حال یہ ہے کہ’’مرض بڑھتا گیا ،جُوں جُوں دوا کی۔‘‘ تاہم اکثر حلقوں کی طرف سے انگلیاں حکومتی پالیسیز ہی کی طرف اُٹھ رہی ہیں، جس میں لاک ڈائون میں نرمی سرِفہرست ہے۔ اس صُورتِ حال کا انور شعور نے اپنے قطعے میں کچھ یوں نقشہ کھینچا ہے: ؎کورونا کے دنوں میں شاید اربابِ حکومت نے…دکانیں کھول دی ہیں اور آنکھیں بند کرلی ہیں۔‘‘

خوف کا خاتمہ کیسے ہو ؟

اگر موجودہ صُورتِ حال پر مختلف حلقوں سے بات کی جائے تو’’جتنے منہ، اُتنی باتیں ‘‘ والی کیفیت سامنے آتی ہے۔ ہر ایک کی رائے ایک مخصوص نقطۂ نظر کی حامل ہے۔پاکستان سائنٹیفک ریسرچ کاؤنسل، لاہور کے سائنٹیفک افسر، ڈاکٹر خالد رشید کا کہنا ہے کہ’’ موجودہ صُورتِ حال کا بنیادی سبب ناقص، غیر مربوط اور کنفیوزڈ پالیسیز ہیں۔ حل مکمل لاک ڈائون نہیں، بلکہ سماجی فاصلہ ہے، کیوں کہ شہروں میں چھوٹے چھوٹے گھروں میں درجن، درجن بھر لوگ رہتے ہیں اور یہی مرض پھیلنے کا بنیادی سبب ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ لوگوں کو کب تک گھروں میں بند کرسکتے ہیں؟

اِس لیے لوگوں کا گھروں سے باہر نکل کر مصروف رہنا ضروری ہے، لیکن بار بار ہاتھ دھونے اور ایک دوسرے سے فاصلہ برقرار رکھنے کی شرط کے ساتھ۔ اب اس پابندی پر سختی سے کیسے عمل کروانا ہے، یہ حکومت کا کام ہے۔‘‘ اُن کا مزید کہنا ہے کہ’’حکومت معاشرے میں پھیلے خوف کی فضا بھی ختم کرے، جو لوگوں کے امیون سسٹم کو متاثر کر رہی ہے۔میری یہ بھی تجویز ہے کہ کاروباری مراکز کے اوقات ِکار بڑھائے جائیں، کیوں کہ محدودد وقت میں دکانیں، بینکس اور دفاتر بند ہو جانے کے خوف سے لوگ باہر نکل پڑتے ہیں، جس سے رش ہو جاتا ہے۔ اوقات میں توسیع اور نرمی ہو، تو لوگوں کا رش نہیں ہوگا اور سماجی فاصلہ خود بخود پیدا ہو جائے گا۔‘‘

غیر مؤثر حکمتِ عملی

ایک نجی یونی ورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے سابق پروفیسر، محمّد وقار چیمہ کا کورونا کے بڑھتے کیسز کے حوالے سے کہنا ہے کہ’’ حکومت کورونا جیسے اہم ترین ایشو پر بھی مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر مشترکہ حکمتِ عملی بنانے میں ناکام رہی۔ حکومتی کارکردگی صرف ٹویٹس، تقاریر اور پریس کانفرنسز تک محدود ہے۔ بلاشبہ، اقوامِ عالم پر مصائب اور بحران آتے رہتے ہیں، لیکن یہی قیادت کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے، جس میں بعض اقوام سُرخ رُو ہوکر نکلتی ہیں، لیکن افسوس یہ کہ ہماری حکومت اپنی کنفیوزڈ پالیسی، بیڈگورنینس، مشیروں، وزیروں کی نااہلی کے سبب مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ یہ حکومت کسی بھی بحران کو صحیح طور پر ہینڈل نہیں کرسکی۔ آٹا، چینی اور پیٹرول کے بحران سب کے سامنے ہیں۔

منہگائی کا طوفان، کرپشن کی رقم کی واپس، بڑھتی بے روزگاری، تباہ حال معیشت، ان سب مسائل کا حل اب صرف اِس بیان تک محدود ہو کر رہ گیا ہے کہ’’وزیرِ اعظم نے نوٹس لے لیا‘‘ لیکن نتیجہ ہمیشہ صفر ہی نکلا۔ حکم ران ان تمام مسائل کی جڑ مختلف مافیاز کو ٹھہراتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہلِ اقتدار بے بس اور مافیا ز طاقت وَر ہیں۔‘‘ محمّد وقار نے مزید کہا’’ پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اگر ہماری قومی قیادت خدانخواستہ ناکام ہوگئی (جیسا کہ نظر آ رہا ہے )،تو پھر قوم اس مصرعے کی تصویر بن جائے گی: ؎ ’’لمحوں نے خطا کی تھی،صدیوں نے سزا پائی۔‘‘

عام آدمی کیا سوچتا ہے؟

سوال یہ ہے کہ ایک عام آدمی اس صُورتِ حال کا ذمّے دار کسے سمجھتا ہے؟ماہرِ تعلیم، محمّد اعجاز خان کہتے ہیں’’حکومت اپنی ناقص پالیسیز کے باعث پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چُکی ہے۔ مَیں اس بات سے تو متفّق ہوں کہ لاک ڈائون دہاڑی دار مزدوروں، نجی اسکولز کے لاکھوں اساتذہ، مختلف نجی اداروں سے بے روزگار ہونے والوں اور کاروباری افراد کے لیے ڈراؤنا خواب ہے،لیکن ہمارے اربابِ اختیار نے اس گرداب سے نکلنے کا سوچا ہی نہیں اور صرف اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں پر مشتمل پریس کانفرنسز اور ٹویٹس پر اکتفا کیا۔

حکومت ٹائیگر فورس کی بجائے یونین کاؤنسلرز، صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین کے ذریعے، جنہیں اپنے حلقے کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوتا ہے، بے روزگار، دہاڑی دار افراد، بیوائوںاور مالی مشکلات سے دوچار خاندانوں کے گھر ایک ماہ کا راشن ڈال دے، دو ماہ کے بجلی، گیس وغیرہ کے بِل معاف کر دے اور پھر ایک ماہ کا مکمل لاک ڈائون کر دے، تو کورونا کے عذاب سے نجات مل سکتی ہے۔ حکومت اِس بات کو بھی یقینی بنائے کہ مستحق افراد کی مدد میں کرپشن کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی، کیوں کہ بظاہر حکومت نے کھربوں روپے تقسیم کیے ہیں، لیکن ان کی غیر منصفانہ تقسیم کے بارے میں اُٹھنے والے سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

ہماری حالت تو یہ ہے کہ جو لوگ کورونا کی روک تھام کے لیے مقرّر کیے گئے، وہ بھی کرپشن کے سنگین الزامات کی زَد میں ہیں۔میرے نزدیک، حکومت کی کنفیوزڈ پالیسیز اور عوام کے غیر سنجیدہ طرزِ عمل نے ہی ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔حکومت نے اپنی ذمّے داری اپنے کندھوں سے اُتار کر عوام کی طرف منتقل کر دی اور عوام نے اس کا جو حشر کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ حکومتی پالیسی ہے’’جاگتے رہنا،ہم پر نہ رہنا‘‘، لیکن اگر عوام ہی سو جائیں، تو سوچا جاسکتا ہے کہ آگے کیا ہو گا۔‘‘