کورونا نے فٹبال نارملائزیشن کمیٹی کو نئی زندگی بخش دی

June 23, 2020

پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے تمام اسٹیک ہولڈرزپاکستان فٹ بال فیڈریشن نارملائزیشن کمیٹی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں؟ لیکن این سی سی اے کے سربراہ حمزہ خان تو اس بات پر خوشیکےشادیانے بجا رہے ہیں کہ انہیں پاکستان فٹ بال فیڈریشن پرقبضہ رواں سال کے آخر تک حاصل ہوگیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ نارملائزیشن کمیٹی کو فٹ بال کی عالمی تنظیم (فیفا) اور ایشین فٹ بال کنفیڈریشن(اے ایف سی)کے اعتماد کو پورا کرتے ہوئے مقررہ وقت میں پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے معاملات کو سلجھا کر الیکشن سمیت دیگر ا مور کو نمٹانے کی راہ آسان کرنی چاہئے تھی لیکن اس ملک کی روایت ہے کہ جب کسی کو ایک بار اقتدار مل جائے تو پھر جانے کا راستہ کس نے دیکھا ہےکہ مصداق این سی اے کے سربراہ حمزہ خان نے غیرسنجیدہ رویہ اختیار کرتے ہوئے پاکستانی فٹ بال کے معاملات کو حل کرنے کیلئے مزید وقت لے لیا۔

پاکستان فٹ بال فیڈریشن نارملائزیشن کمیٹی، فیفا کی جانب سے مینڈیٹ دیئے جانے کے پہلے روز سے ہی سست رفتاری سے پی ایف یف کے معاملات نمٹا رہی تھی اور اگر یہ کہا جائے کہ جان بوجھ کر پی ایف ایف کے انتخابات میں تاخیر کر رہی تھی تو بے جا نہ ہوگا اور پھر اس کے بعد دنیا پر نازل ہونے والے کورونا وائرس کے عذاب نے اس کو فیفا اور اے ایف سی سے مزید وقت لینے کا موقع فراہم کردیااور اب کورونا کاعذرنارملائزیشن کمیٹی کو مزید وقت کا تحفہ کے طور پر مل گیا۔

پاکستانی فٹ با ل کے معاملات کو حل کرنے کیلئےفیفا نے اس سے پہلے ہی این سی کو پی ایف ایف کےتمام معاملات سلجھانے کے ساتھ انتخابات کیلئے سات ماہ کا وقت دیا گیا تھا لیکن حیران کن طور پر فیفا نارملائزیشن کمیٹی نے سوائے فیفا کی جانب سے ملنے والے کروڑوں روپے کے فنڈز کو غیرضروری کاموں میں خرچ کرنے کے اورکچھ نہیں کیااورگزشتہ سات ماہ کے دوران نارملائزیشن کمیٹی نے کوئی بھی قابل ذکر کام نہیں کیا اور نہ ہی اسے عوامی حلقوں اور میڈیا کے سامنے اس کی رپورٹ پیش کرنے کی زحمت کی۔

پی ایف ایف نارملائزیشن کمیٹی کے سست روی کے باعث جہاں پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے معاملات ٹھپ پڑے ہیں وہاں پاکستان کی بڑی بڑی ٹیمیں بھی پاکستانی فٹ بال کی بے حسی کارونا ہوتی نظر آرہی ہیں اور فٹ بال کی غیریقینی صورتحال سے پریشان ہیں۔ پاکستانی فٹ بال کے بحران سے قبل ملک کے بڑے بڑے ایونٹس میں حصہ لینے والی کئی ٹیموں نے اپنی اپنی ٹیموں کیلئے گراس روٹ پر کھلاڑیوں کو شامل کرنے کا پروگرام بنایا تھا اور نوجوانوں کھلاڑیوں کو اپنی ٹیموں کا حصہ بنایا تھا اور مستقبل میں انہیں گروم کرکے اپنی ٹیموں کے مستقبل کا حصہ بنانا تھا لیکن اب یہ ٹیمیں نوجوانوں کھلاڑیوں کےمستقبل سے پریشان ہیں۔

کے الیکٹرک کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے گراس روٹ لیول پر مختلف ایونٹس کراکے ملک کی مختلف ٹیموںکو نوجوان اور ابھرتے ہوئے کھلاڑی فراہم کئے۔ کے الیکٹرک کے ہیڈ آف اسپورٹس ریاض محمود اور کے الیکٹرک کے کوچ اکبر علی کے الیکٹرک کے ذریعے باصلاحیت کھلاڑیوں کو آگے لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ کے الیکٹرک نے ملک کی سب سے بڑی چیمپئن شپ پریمیئر لیگ جیتنے کا بھی اعزاز حاصل کیا ہے اس کے علاوہ پریمیئر لیگ میں دوسری اور تیسری پوزیشن بھی حاصل کی۔ کے الیکٹرک نے U15اورU16 سمیت گراس روٹ لیول پر کئی ایونٹس کا انعقاد کا اعزاز حاصل کیا اور ان کھلاڑیوں کو مختلف ڈپارٹمنٹس نے اپنی ٹیموں میں لیا اور پھر اس کے بعد ان کھلاڑیوں نے قومی ٹیم کا حصہ بن کر مختلف انٹرنیشنل ایونٹس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

کے الیکٹرک کے کوچ اکبر علی کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کے زیراہتمام ہونے والے گراس روٹس لیول پر جتنے بھی ایونٹس ہوئے ہیں ان میں بے شمار باصلاحیت کھلاڑی ہمیں ملے جنہیں آگے بڑھنے میں بھی کے الیکٹرک نے بھرپور مدد و معاونت فراہم کی۔ باصلاحیت کھلاڑیوں کی تلاش کیلئے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور پی ایف ایف اکیڈمیاں نچلی سطح پر یہ کام کرسکتی ہیں۔

اکبر علی کا کے الیکٹرک کی ٹیم کی کامیابی اور اسے مستقبل میں برقرار رکھنے کے سوال پر کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کے ہیڈ آف اسپورٹس محمود ریاض اور ٹیم مینجمنٹ کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر ٹیم کے تمام معاملات پر مکمل ہم آہنگی ہے اور ہم سب ملک کراپنی ٹیم اور ادارے کی ترقی کیلئے متفقہ فیصلہ کرتے ہیں۔ ڈائریکٹر ای ایس جی اینڈ اسپورٹس زہرا مہدی انیق کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ہماری ٹیم نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی کامیابیاں حاصل کیں تھیں اور ان شا ء اللہ مستقبل میں بھی ہم کامیابی کا سلسلہ جاری رکھیں۔