جامعہ بنوریہ عالمیہ کے رئیس و شیخ الحدیث ’مفتی محمد نعیم ؒ ‘

June 26, 2020

ممتاز عالم دین، عظیم مذہبی اسکالر، جید حافظ و قاری، قرآن کریم سے حد درجہ شغف رکھنے والے ، علوم نبویہ کے امین، مشفق و مہربان انسان، تواضع و انکساری کے پیکر، سیکڑوں مساجد و مدارس کے سرپرست، غمزدہ دلوں کے درد کا درماں، بے کس و بے سہارا لوگوں کا مددگار، جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مؤسس و بانی، جامعہ کے رئیس و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد نعیم رحمۃ اللہ علیہ 20؍ جون 2020ء بروز ہفتہ رات نو بجے کے قریب اس دنیا سے منہ موڑ کر راہی عالم آخرت ہوگئے اور ایک دنیا کو حیران و سرگردان اور روتا ہوا چھوڑ کر زبان حال سے بتاگئے کہ میں تمہاری اس دنیا کی صحبت کا مزید حریص نہیں ہوں۔

موت کوئی اچھنبا نہیں اور نہ ہی یہ کوئی نئی چیز ہے، اس دنیا میں میں جو بھی آیا اس نے موت کا مزا چکھنا ہے، بلکہ اس دنیا میں آنا درحقیقت جانے کی تمہید ہے، جب کسی کا وقت موعود آجائے تو پھر نہ ایک لمحے کی تاخیر ہوسکتی ہے اور نہ تقدیم۔لیکن بہت سے جانے والے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے جانے سے ایک جہان تاریک ہوجاتا ہے، زمین وآسمان ان پر نوحہ کرتے ہیں، ہر سو صف ماتم بچھ جاتی ہے۔

مفتی محمد نعیم صاحبؒ چلے گئے، مگر اپنے پیچھے انہوں نے صرف اپنی اولاد کو ہی یتیم نہیں چھوڑا،بلکہ ہزاروں شاگرد اور لاکھوں عقیدت مندوں کو یتیم کرگئے، آج جامعہ بنوریہ کے در و دیوار افسردہ ہیں کہ ان کے بانی چلے گئے، اساتذہ ، طلبہ ماتم کناں ہیں کہ ان کے مربی، ان کے سرپرست چلے گئے۔

حضرت مفتی محمد نعیم صاحب ان لوگوں میں سے تھے جن سے علم اور اہل علم کا وقار قائم ہوتاہے، جن کے دم قدم سے علم کی شمعیں روشن رہتی ہیں، جو شمع کی مانند خود جلتے ہیں مگر دوسروں کو ضیاء بخشتے ہیں۔ مفتی محمد نعیم صاحبؒ نے پاکیزہ زندگی گزاری اور موت بھی اس طرح آئی کہ نہ وہ کسی کے محتاج ہوئے، نہ معذور ، چارپائی اور آدمی کی احتیاجی سے اللہ نے انہیں محفوظ رکھا اور چلتے ہاتھ پائوں دیکھتے ہی دیکھتے اس دنیا کو خیر باد کہہ دیا اور بتا گئے کہ اللہ والوں کے لیے اس دنیا کو چھوڑنا کتنا آسان اور سہل ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ سے تقریباً ہر روز کسی عالم، کسی بزرگ، کسی شیخ کے اس دنیا سے جانے کی خبریں تسلسل سے آرہی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس عالم کی بساط لپیٹنے کا وقت قریب آرہا ہے، حضور اکرمﷺ نے فرمایا:’’نیک لوگ یکے بعد دیگرے اٹھتے جائیں گے اور انسانیت کی تلچھٹ پیچھے رہ جائے گی جیسا کہ ردی کھجور اور ردی جو رہ جاتے ہیں ، حق تعالیٰ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔‘‘

اور ایک اور حدیث میں ہے:’’بے شک اللہ تعالیٰ اس علم کو اس طرح قبض نہیں کرے گاکہ انسانوں کے دلوں سے علم چھین لے گا بلکہ قبض علم کی یہ صورت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ علماء کو اٹھاتا رہے گا ،یہاں تک کہ ایک عالم بھی باقی نہیں رہے گا ، لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے، ان سے سوالات ہوں گے، وہ بغیر علم کے مشورے دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ علم صحیح اور عمل صالح پر انسانیت کی بقاء کا مدار ہے، ان دونوں کی موت انسانیت کی موت ہے، علماء کے اٹھتے چلے جانے سے یہ دونوں چیزیں اٹھتی جارہی ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ مفتی نعیم صاحبؒ کا یوں اچانک اس دنیا سے منہ موڑ کر جانا بھی اسی کا تسلسل نظر آرہا ہے۔

حضرت مفتی محمد نعیم صاحبؒ اگست 1958ء میں قاری عبد الحلیم کے گھر میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد محترم قاری عبد الحلیم صاحب عمدہ مجود اور جید قاری تھے، قاری عبد الحلیم صاحب کا پورا گھرانہ پارسی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے والد کو اسلام کی نعمت سے سرفراز فرمایا ، قاری صاحب کے والد کس طرح مسلمان ہوئے اور ان پر کیا بیتی اس سلسلہ میں خود قاری صاحب کے بیان کردہ گفتگو کا خلاصہ پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے:’’میرے والد کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا اور مذہباً وہ پارسی تھے، غربت کے زمانے میں محنت اور دل جمعی کے ساتھ اعلیٰ عصری تعلیم حاصل کی ، پھر انگریز حکومت کے تحت ملازمت اختیار کرلی۔

آپ کی فرض شناسی اور محنت کے وصف کے باعث آپ کا انگریز آفیسر آپ سے بہت متاثر تھا۔ چنانچہ جب اس کا تبادلہ ہندوستان سے عرب ریاست میں کردیا گیا تو والد صاحب کو بھی اپنے ہمراہ لے گیا۔ وہاں کچھ مقامی عرب بھی اسی آفیسر کے ماتحت تھے ،ایک دن اس عملے کے ایک عرب نوجوان نے والد صاحب سے پوچھا کہ آپ کس کی عبادت کرتے ہیں؟ تو والد صاحب نے کہا ’’آگ کی‘‘۔ یہ سن کو وہ عرب بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ تمہارا کیسا خدا ہے کہ جسے تم اپنے ہاتھ سے زندہ کرتے ہو اور پھر وہ پانی کے چند قطروں سے مر بھی جاتا ہے۔پھر اس نے پوچھا کہ ’’تم اپنے مُردوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہو؟ والد صاحب نے کہا کہ ہم انہیں پرندوں کو کھلادیتے ہیں! اس پر وہ مزید حیران ہوا ،پھر اس نے اسلام کا نظریہ اس بارے میں بیان کیا۔ تو والد صاحب بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ تمہارے پاس اپنے مذہب کی کوئی کتاب ہو تو مجھے دے دو! چنانچہ ایک دن وہ کتابیں لے آیا اور والد صاحب کو دیں اور ساتھ والد صاحب کو مسلمان ہونے کا کہا، والد صاحب نے جواب دیا کہ میں ان کتابوں کا مطالعہ کرکے ایک مہینہ بعد جواب دوں گا۔

اس پر وہ کہنے لگا کہ کیا آپ ایک ماہ تک زندہ رہنے کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ والد صاحب نے نفی میں جواب دیا تو وہ کہنے لگا بہتر ہے کہ آپ ابھی کلمہ پڑھ لیں اور مسلمان ہوجائیں! چنانچہ والد صاحب نے کلمہ توحید پڑھا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔چھٹیوں میں والد صاحب ہندوستان تشریف لائے تو والدہ کو مسلمان ہونے کی ترغیب دی ،مگر خاندان والوں کی شدید مخالفت کے باعث وہ اس وقت مسلمان نہ ہوئیں۔اسی دوران میری (قاری صاحب) کی ولادت ہوئی۔ اس طرح کئی سال تک والد صاحب چھٹیوں میں آتے رہے اور والدہ کو سمجھاتے رہے ،مگر کامیاب نہ ہورہے تھے۔ بالآخر والد صاحب نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لی اور مستقل ہندوستان چلے آئے۔

اس دفعہ جب والد صاحب آئے تو والدہ کو ہمراہ لیا اور چپکے سے ’’حیدر آباد دکن‘‘ کی طرف ہجرت کرلی۔ وہاں والدہ کو مسلمان کیا اور ان کا اعتقاد پختہ کیا! بعد ازاں یہاں بھی خاندان والوں کا آنا جانا ہوگیا ،مگر وہ والدہ کو متزلزل نہ کرسکے۔ پھر معاشی عسرت کے باعث ہم لوگ ایک دیہات میں رہائش پذیر ہوگئے۔ ڈابھیل نامی اس بستی میں مولانا انور شاہ کشمیریؒ صاحب نے ’’الملک‘‘ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی تھی، یہیں سے میں نے ناظرہ قرآن پڑھا اور تیرہ پارے حفظ کیے، بعد ازاں ہم بمبئی منتقل ہوگئے ،جہاں ’’جونا پٹی‘‘ کے مدرسے میں (یہ اب تبلیغی مرکز ہے) میں نے حفظ قرآن مکمل کیا۔ 1944ء میں ، میں نے تکمیل حفظ کی۔

اسی سال والد صاحب نے مدینۃ المنورہ کے لیے رخت سفر باندھا اور پھر مستقل طور وہیں سکونت اختیار کرلی، ہر سال باقاعدگی سے حج کے لیے جاتے تھے، اسی طرح کئی سال گزر گئے ،مگر وہ ہندوستان نہ آئے۔ 1948ء کو ہم دو بھائی والدہ سمیت کراچی منتقل ہوگئے، بڑے بھائی تو بعد ازاں ہندوستان واپس لوٹ گئے، مگر ہم لوگ یہیں کے ہوکر رہ گئے۔

والد صاحب سے ہندوستان آنے کے لیے کہتے تو وہ جواب میں لکھتے کہ میں تو یہاں مرنے کے لیے آیا ہوں اور کسی صورت میں یہاں سے نہیں جائوں گا۔

والد صاحب کی اس پختگی کی وجہ یہ تھی کہ وہاں مدینہ منورہ میں ان کے ساتھ گجرات کے ایک صاحب بھی تھے جو اپنی اولاد کے اصرار پر ان سے ملنے ہندوستان آئے تو یہیں پر ان کا انتقال ہوگیا جس کا والد صاحب کو شدید رنج تھا۔ چنانچہ وہ حجاز مقدس سے قدم بھی باہر نہ نکالتے تھے۔1956ء میں بیمار ہوئے تو والدہ اور ہمشیرہ ان سے ملنے کے لیے گئیں۔ کچھ دن ہسپتال میں رہے مگر جانبر نہ ہوسکے اور انتقال کرگئے اور جنت المعلیٰ میں مدفون ہوئے۔

والدہ واپس کراچی آگئیں اور جمشید کوارٹر میں رہائش اختیار کی بعد ازاں گارڈن ویسٹ میں منتقل ہوگئے ۔

پاکستان آنے کے بعد قاری عبد الحلیم صاحب نے باقاعدہ حضرت قاری فتح محمد رحمہ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا اور تجوید و قرأت کے علوم سیکھے۔تکمیل کے بعد قاری صاحب نے مختلف مساجد و مدارس میں امامت اور تدریس قرآن کے فرائض انجام دئیے۔ یہ قاری صاحب کی انتہائی ، تنگدستی کا زمانہ تھا، آٹھ سال آپ سعودی عرب ، طائف میں رہے، اس کے بعد واپس پاکستان آگئے۔ سائٹ ایریا میں اسٹار کالونی میں آپ کو رہائش کے لیے ایک کوارٹر دیا گیا، اسی کالونی میں ایک ہال نما کمرہ تھا جس میں آپ بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم سے آراستہ کرتے تھے، اسٹا ر کالونی کے سامنے ہی نشاط مل کی مسجد تھی ’’مسجد نور جہاں‘‘ کے نام سے اس میں آپ امامت کراتے تھے۔ قاری عبد الحلیم صاحب کو قرآن کریم سے بڑی عقیدت تھی اور بہت عمدہ تلاوت قرآن کیا کرتے تھے، قرآن کریم سے خاص قلبی لگائو تھا، دس پارے تلاوت کرنا تو آپ کا عام معمول تھا، قاری صاحب نے اپنے تمام بیٹوں کو قرآن کریم حفظ کرایا۔

مفتی محمد نعیم صاحبؒ کو آپ نے حفظ قرآن کی تعلیم دی، کچھ قاری صاحب اور کچھ نانک واڑہ اور مکی مسجد کے اساتذہ سے حفظ قرآن کی تعلیم مکمل کی۔ قاری فتح محمد صاحب رحمہ اللہ سے باقاعدہ پڑھا تو نہیں لیکن قاری صاحب کو قرآن کریم سنایا ہے اور قاری صاحب کو قرآن کریم سنانا آسان کام نہیں ۔ اسی محنت کا نتیجہ تھا کہ مفتی صاحب کو شروع سے قرآن کریم بہت پختہ یاد تھا او راپنے والد صاحب کی محنت کی بدولت خود مفتی صاحب کو قرآن کریم کا خوب ذوق و شوق تھا۔ خود بھی کئی پارے روزانہ تلاوت قرآن کریم کا معمول تھا اور جب حرمین تشریف لے جاتے تو وہاں دیگر ضروری معمولات کے بعد اکثر تلاوت قرآن کریم فرمایا کرتے تھے۔

مفتی نعیم صاحب کی تکمیل حفظ کے بعد آپ کو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون میں داخل کرادیا گیا اور اول تا آخر درسِ نظامی کی تعلیم جامعہ میں ہی ہوئی ہے۔ مفتی صاحب شروع سے بہت محنتی تھے ، پڑھنا اور تعلیم حاصل کرنا ہی آپ کا مشغلہ تھا یا پھر اساتذہ کی خدمت کرنا، ہم نے زمانہ طالب علمی میں انہیں اساتذہ کی خدمت کرتے ہوئے خود دیکھا ہے۔ خصوصاً دوپہر کے وقفہ میں اساتذہ کے لیے کھانا لانا ، دستر خوان لگانا، کھانا کھلانا اور برتن دھونا یہ مفتی صاحب کا روز کا معمول تھا، کیوں کہ مولانا اسید مصباح اللہ شاہ ، مفتی ولی حسن صاحب تو اکثر اور مفتی شاہد صاحب، مولانا ضیاء الحق صاحب بھی دارالافتاء میں دوپہر کے وقت قیام کرتے تھے اور مفتی صاحب ان کے کھانے کا بندوبست کرتے تھے، اس کے علاوہ ان کے گھروں کا سودا سلف لانا ، مولانا ادریس ، مفتی ولی حسن صاحب کے پان وغیرہ کا بندوبست کرنا بھی مفتی صاحب کے ہی ذمہ تھا۔

مفتی صاحب نے بڑی محنت سے تعلیم حاصل کی اس لیے ہمیشہ امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کرتے تھے ، اسی محنت و لیاقت اور خدمت کے جذبے نے انہیں اپنے اساتذہ کا منظور نظر بنادیا تھا۔۱۹۷۹ء میں آپ نے جامعہ سے سند فراغت حاصل کی۔

یہی وجہ تھی کہ جب مفتی صاحب نے دورۂ حدیث کا امتحان دیدیا، ابھی نتیجہ نہیں آیا تھا کہ اساتذہ نے جامعہ میں بحیثیت استاد آپ کا تقرر کردیا۔ یہ مفتی صاحب پر اساتذہ کا اعتماد تھا اور مفتی صاحب بھی اپنے اساتذہ کے اعتماد پر پورے اترے اور چھوٹے درجات سے لے کر بڑے درجات کی کتابیں آپ کے زیر تدریس رہیں۔ مقامات حریری اور مختصر المعانی کے سبق نے تو خاص شہرت حاصل کی اور کئی سال آپ نے مسلسل ان دو کتابوں کا درس دیا۔

جیسا کہ پہلے تذکرہ آچکا ہے کہ اسٹار کالونی میں ایک ہال نما کمرہ قاری عبدالحلیم صاحب کو بچوں کے قرآن کریم کی تعلیم کے لیے دیا گیا تھا۔ قاری صاحب وہاں قرآن کریم کی تعلیم دیا کرتے تھے، رات کو مفتی نعیم صاحب بھی اس تعلیم میں اپنے والد صاحب کی معاونت کرتے۔ جب مفتی نعیم صاحب فارغ التحصیل ہوگئے تو کالونی کے انہی بچوں کو جن میں کئی حافظ ہوچکے تھے ان سے درس نظامی کی تعلیم کا آغاز کیا ۔

ابتدائی دو درجے اعدادیہ اور اولی شروع کیا۔ صبح مفتی صاحب جامعہ علوم اسلامیہ تدریس کے لیے جایا کرتے تھے۔ وہاں سے آنے کے بعد ان طلباء کو پڑھایا کرتے تھے۔ ایک سال کے بعد مولانا عبدالحمید صاحب، جو ان کے دورے کے ساتھی تھے۔ مفتی احمد الرحمن ؒ کے توسط سے ان کو اپنے مدرسہ میں لے آئے۔ شروع کے دو سال تو اسی اسٹار کالونی کے کمرے اور سامنے مسجد نور جہاں میں کلاسیں لگتی رہیں۔

آج کل جہاں جامعہ بنوریہ قائم ہے یہ درحقیقت نشاط ملز کی لیبر کالونی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے دور میں ہر ایک بڑی فیکٹری اور مل کے لیے لازمی کیا تھا کہ وہ اپنے مزدوروں کی رہائش کے لیے کالونیاں بنائے۔ اس کے لیے حکومت نے انہیں جگہیں مہیا کی تھیں۔ اس شرط پر کہ مل مالکان یہ جگہ فروخت نہیں کریں گے۔ یہ ایک اچھی بڑی کالونی تھی۔ یہاں کے رہائش پذیر مزدوروں نے نماز کے لیے ایک چھوٹی سے مسجد خود ہی بنا لی تھی۔نشاط مل تقریباً بند ہوچکی تھی۔ بہت سے کوارٹرز خالی تھے۔کچھ مزدوروں کا قبضہ تھا۔ قاری صاحب اور ان کے رفقاء تبلیغی گشت کے لیے کبھی کبھی یہاں آیا کرتے تھے۔ مفتی نعیم صاحب نے جب اس مسجد کی خستہ حالی اور ویرانی دیکھی تو ان کے مالکان سے بات کرکے یہ جگہ حاصل کرلی۔ مسجد کی چار دیواری نہیں تھی۔ خستہ حال تھی۔ اس کی صفائی کروائی اسے نماز کے قابل بنایا۔ سامنے تھوڑی جگہ تھی جہاں آج کل دفاتر ہیں۔ وہاں دو کمروں کی بنیاد ڈالی اور اس طرح یہاں جامعہ بنوریہ کی بنیاد رکھی گئی ۔ یہ غالباً۱۹۸۰ء کا زمانہ ہے۔ اور اس طرح اسٹار کالونی کا مدرسہ یہاں منتقل کردیا گیا۔

اس مدرسہ کی بنیاد رکھنے، اس کو چلانے اور قائم کرنے او رقائم رکھنے میں مفتی صاحب کو اپنے اساتذہ خصوصاً حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی، امام اہلسنت مفتی احمد الرحمن، حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید کی مکمل سر پرستی اور تعاون حاصل رہا ہے۔انہی اساتذہ نے آکر اس مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ ایک طویل عرصہ تک اساتذہ کا تقرر بھی مفتی احمد الرحمن کی تصدیق و توثیق سے ہوا کرتا۔ ہر سال کے آغاز میں مفتی احمد الرحمن صاحب دیگر اساتذہ کے ساتھ آکر افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے اور اساتذہ و طلبہ کو نصیحت فرماتے تھے۔رفتہ رفتہ مفتی نعیم صاحب کالونی کی جگہ حاصل کرتے رہے۔ اس کے حصول میں مشکلات بھی بہت پیش آئیں۔

جگہ خالی کرانے میں بھی دقت پیش آئی۔ شروع میں علاقے کے لوگوں اور سرکاری اہلکاروں کی مخالفت کا سامنا بھی رہا۔ پانی کی شدید قلت تھی۔ بجلی اکثر غائب رہتی اور اگر ہوتی تو وولٹیج بہت کم، فور سیٹر (کالے رکشے) کے علاوہ کو ئی سواری نہیں چلتی تھی۔ نہ کوئی دکان، نہ مارکیٹ ، ضرورت کی معمولی سی چیز کے لیے یا ناظم آباد جانا پڑتا یا لیبر اسکوائر، صرف ایک حضرت ہوٹل تھا جس پر کچھ کھانے پینے کا سامان مل جایا کرتا تھا۔ ان سخت اور مشکل حالات میں مفتی صاحب نے اپنا سفر شروع کیا اور بڑی ہمت و استقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا، کسی موقع پر مفتی صاحب کے قدم نہیں ڈگمگائے اور مفتی صاحب کا ہر دوسرا قدم کامیابی کی طرف اٹھتا رہا۔ رفتہ رفتہ بارہ ایکٹر زمین مفتی صاحب نے حاصل کی یہ ایک دن میں نہیں ہوا اس پر مسلسل محنت ہوئی ہے۔

(…جاری ہے…)