اسلام میں محنت کی عظمت اور کسبِ حلال کی اہمیت

July 03, 2020

مولانا حافظ عبدالرحمٰن سلفی

ارشادِ ربّانی ہے: اے ایمان والو‘ جمعہ کے دن جب نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف جلدی آیا کروا ورخرید و فروخت چھوڑ دیا کرو‘ یہ تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم سمجھو، پھر جب نماز ادا کر چکو تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو، تاکہ تم فلاح پاجائو۔(سورۃ الجمعہ )

انسان دنیا میں بہتر سے بہتر زندگی گزارنے، ہر طرح کے عیش و آرام اور دنیاوی آسائشوں کے حصول کی خاطر ہمہ وقت مصروف عمل رہتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مادی فوائد حاصل کر لے، تاکہ بیوی بچوں والدین، بہن بھائیوں ،خویش و اقارب وغیرہ بلند معیاری زندگی حاصل کرسکیں۔ ان خواہشات کی تکمیل ظاہری طو ر پرمحنت اور کسب معاش کے بغیر ممکن نہیں ہوتی، چنانچہ ہر شخص کسی نہ کسی انداز میں زندگی گزارنے اورمن چاہی سہولیات کے حصول میں سرگرداں رہتا ہے اور بعض نفس پرست اس سلسلے میں تمام دینی شرعی، اخلاقی ،قانونی حدود بھی پھلانگ کرسب کچھ حاصل کرنے کی سعی و جہد میں جتے رہتے ہیں اور بس دنیا ہی کے ہو کررہ جاتے ہیں ‘ جبکہ سلیم الفطرت بالخصوص اہل ایمان دنیاوی ضروریات کے لئے کسب حلال کو ترجیح د یتے ہیں، وہ ہر حال میں پاکیزہ اور حلال روزی کمانے کو ہی پسند کرتے ہیں اور ایسے پاک باز لوگوں کے مال میں اللہ تعالیٰ خیر و برکت عطا فرماتا اور انہیں اطمینان قلب نصیب فرما دیتاہے۔

جیسا کہ اوپر درج شدہ سورۃالجمعہ کی آیات مبارکہ میں خالق کائنات نے کسب حلال میں بھی اصول و ضوابط بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے اہل ایمان (بالخصوص) جمعہ کے دن جبکہ تم خرید و فروخت یعنی کاروبار یاکسب معاش میں مصروف ہو اور اس دوران مؤذن تمہیں نماز کے لئے صدائیں دینا شروع ہو جائے تو سارے کام سمیٹ کر مسجد کا رخ کر لو یہ عمل تمہارے حق میں خیر و برکت کا باعث ہے ،اگر تم سمجھتے ہو تو یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ حالانکہ اگر خالصتاً مادی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو بظاہر لین دین یا کاروبار بند کرنے سے تو نقصان دکھائی دیتاہے، لیکن رب کائنات نے تمام سرگرمیوں کی موقوفی اور فریضۂ نماز کی ادائیگی کو بہتر قراردیا ہے اوریقیناً اسی میں بھلائی ہے اور بندئہ مومن اس وعدئہ ربانی پر یقین کامل رکھتے ہوئے مسجد کا رخ کرتا ہےتو رب تعالیٰ بھی اپنے ایسے بندوں کو ناکام و نامراد نہیں کرتا بلکہ اپنی اطاعت و فرماںبرداری اور بندہ مومن کی دیانت داری کے ذریعے کسب حلال کے لئے کی جانے والی محنت میں اپنی رحمت سے خیر و برکت کا عنصر شامل فرما دیتا ہے اور ایسے لوگ بظاہر کم مائیگی کے باوجود مطمئن و مسرور زندگی گزارتے ہیں۔

جبکہ کسب حرام سے انسان ڈھیروں روپیہ پیسہ اور دیگر مادی وسائل تو اکٹھے کر لیتاہے، لیکن اسے اطمینان قلب کی دولت میسر نہیں آتی، بلکہ ہر وقت دھڑکا لگارہتاہے کہ حکومت و قانون کی نظر میں نہ آ جائے یا کسی اور مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائے۔اسی طرح آگے فرمایا کہ جب نماز ادا کر لو تو پھر زمین میں پھیل جائو اور رب تعالیٰ کا فضل تلاش کرو یعنی حصول روزی میں مشغول ہو جائو، لیکن یاد رکھو، اس دوران بھی کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہو، تاکہ تم کامیابی حاصل کر لو یعنی دنیاوی و اخروی فوز و فلاح پا جائو۔ مطلب یہ کہ دوران کاروبار یا لین دین اللہ کو یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کا تصور ہر وقت موجود رہے گا تو پھر بندئہ مومن ناجائز منافع خوری نہیں کرے گا، نہ ہی ذخیرہ اندوزی کے ذریعے قیمتیں بڑھانے اور ہوس زر کا شکار ہو گا۔ جب بندۂ مومن کے پیش نظر اپنے خالق و مالک کی ذات ہو تو وہ کسی گاہک کو لاعلم رکھ کر ناقص مال فروخت نہیں کرے گا اور نہ ہی اچھے مال سے ناقص مال کو بدلے گا۔ نہ اپنی ملازمت میں کسی خیانت و بددیانتی کامرتکب ہو گا اور نہ ہی کسی کرپشن چور بازاری یا رشوت وغیرہ جیسی لعنتوں میں مبتلا ہو گا، بلکہ ہر حال میں بندئہ مومن رب تعالیٰ کی خشیت کی بدولت اپنے تمام تر معاملات میں درستی کا پہلو ملحوظ رکھتاہے۔

قرآن مجید میں اس مسئلے کو انتہائی وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے کہ تم تو انسان ہو تمہیں تو رب تعالیٰ روزی دے گا ہی وہ تو رب العالمین ہے تمہیںہی نہیں بلکہ دیگر مخلوقات کو بھی روزی پہنچاتاہے جسے تم روزی نہیں دیتے ،بلکہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ ہی رزق فراہم کرتاہے ۔ چنانچہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا: اور ہم نے اسی زمین میںتمہارے لئے روزی کے سامان بنائے ہیں اور ان کے لئے بھی جن کو تم روزی نہیں دیتے ہو (بلکہ ہم ہی انہیں روزی دیتے ہیں) (سورۃ الحجر)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہر جاندار کی روزی رزق اللہ تعالیٰ ہی دینے ولا ہے۔ غور کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کس کس اندازمیں اپنی مخلوقات کی روزی کا بندوبست کرتا ہے۔ چرند پرند کو دیکھیں کہ رب تعالیٰ کس طرح انہیں رزق پہنچاتا ہے چوپایوں کو دیکھیں جو ہمارے لیے پیدا کئے گئے انہیں بھی اللہ ہی رزق دیتا ہے اسی طرح جنگلی درندے اور کیڑے مکوڑے حشرات الارض ہیں وہ کہاں سے اپنی روزی حاصل کرتے ہیں سب کے سب اللہ ہی سے رزق پاتے اور زندہ رہتے ہیں۔ تو پھرکیا اللہ تعالیٰ اپنی حسین ترین مخلوق جسے اس نے اشرف المخلوقات بنایا ‘اسے بے یار و مددگار چھوڑ دے گا ۔نہیں ! ہر گز نہیں بلکہ انسان کے لئے بھی اس نے بے پناہ ذرائع وسائل تخلیق فرمائے ہیں، البتہ ان کے حصول کے لئے پاکیزہ و حلال طریقوں کا حکم دیا اور حرام سے بچنے کی تلقین فرمائی۔

اس کے لیے محنت اورکسب حلال کی تعلیم دی ،جسے اسلامی شریعت میں ایک بنیادی فریضہ قرار دیا گیا ہے۔یہ اسلام کا وہ اصول ہے جس کےلیے قرآن و سنت میں بنیادی قوانین جائز و ناجائز اور حلال و حرام کے حوالے سے بیان کیے گئے۔حقیقت یہ ہے کہ کسب حلال کے لیے ان بنیادی اصولوں اور شریعت کی تعلیمات پر عمل کے بغیر کسب حلال کا تصور بھی محال ہے۔

حلال کمائی کمانا اور اس میں سے انفاق فی سبیل اللہ کرنا اللہ کو محبوب ہے جبکہ حرام کمائی کرنا اور اس میں صدقہ خیرات یا کوئی نیک کام کرنا اللہ کو ہر گز منظور نہیں، بلکہ وہ سب کا سب ضائع و برباد ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے غضب کا باعث ہے۔ چونکہ حرام مال خبیث و ناپاک ہے ،وہ گناہوں کو پاک و صاف نہیں کر سکتا۔ امام سفیان ثوری ؒ نے کیا خوب فرمایا ہے۔ترجمہ! جو شخص اللہ کی اطاعت میں حرام مال خرچ کرے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ناپاک کپڑے کو پیشاب سے پاک کرے ۔(احیاء العلوم)

یعنی جس طرح یہ بات ظاہر ہے کہ ناپاک کپڑے کو پاک پانی ہی پاک کر سکتا ہے، بعینہ گناہوںکو بھی صرف حلال صدقہ خیرات پاک کر سکتا ہے۔ سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:ترجمہ! لوگوں پرایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ آدمی کو ا س کی پروا نہیں ہو گی کہ روزی حلال طریقے سے کمائی یا حرام طریقے سے۔ (صحیح بخاری)

چنانچہ جس حرام کمائی سے بچنا ضروری ہے، اسی طرح شک و شبہے کی کمائی مشکوک مال سے بھی بچنا ضروری ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں کسب حلال کی توفیق مرحمت فرمائے اور امت مسلمہ کو اقوام عالم میں ممتاز مقام عطا فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)