سرفراز کو مزید وقت ملنا چاہیے تھا، کپتانی سے جلد ہٹادیا گیا، انضمام الحق

July 02, 2020

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق چیف سلیکٹر اور سابق کپتان انضمام الحق کا کہنا ہے کہ سرفراز احمد نے ٹیم کو چیمپئنز ٹرافی 2017 جتوائی تھی، ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ون بنایا تھا، انہیں بطور کپتان مزید وقت ملنا چاہیے تھا، پی سی بی نے جلدی ہٹادیا، کپتان تجربوں سے ہی سیکھتا ہے اور جب سیکھتا ہے اس کو ہٹادیا جاتا ہے۔

جیو نیوز کو خصوصی انٹرویو میں انضمام الحق نے پاکستان کرکٹ ٹیم میں تسلسل نہ ہونے پر کھل کر بات کی اور کہا کہ جب پلیئرز اور کپتانوں کو یہ خوف ہوگا کہ وہ آج ہیں، کل نہیں تو ان کی کارکردگی متاثر ضرور ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑی ایک یا دو سیریز سے ٹاپ پلیئرز نہیں بن جاتے، جب صلاحیتیں سامنے آجائیں تو ان کو ثابت کرنے کا پورا موقع دیا جائے، ایسے میں سلیکٹر کی نظر کا کردار بھی کافی اہم ہوتا ہے۔

سابق کپتان نے کہا کہ نوجوان کرکٹرز کو موقع کے ساتھ ساتھ اعتماد دینا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ بھرپور انداز میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرسکیں۔

انضمام الحق کا کہنا تھا کہ بابر اعظم شروع میں ٹیسٹ کرکٹ میں اسٹرگل کرتے رہے لیکن اس کی صلاحیت سے کسی کو انکار نہیں تھا اس لیے ہر کسی نے بابراعظم کو اعتماد دیا اور آج وہ ہر فارمیٹ میں اچھا پرفارم کر رہا ہے۔

انضمام الحق نے سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹائے جانے کے فیصلے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ایک ایسے کپتان کو ہٹادیا گیا جس نے تین سال سے ٹیم کو ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ون رکھا تھا، چیمپئنز ٹرافی جتوائی، لاتعداد میچز میں فتح دلوائی، جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کو کپتانی آتی تھی، ٹورنامنٹ میں اچھی بری پرفارمنس ہوتی رہتی ہے۔

انضمام نے کہا کہ ان کے خیال میں ایک کپتان جس نے اتنی پرفارمنس دی تھی تو اس کو اور وقت ملنا چاہیے تھا، پی سی بی نے سرفراز احمد کو ہٹانے میں تھوڑی جلدی کردی ۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب کپتان کو یہ میسج ملنا شروع ہوجائے کہ آپ ڈراپ ہوسکتے ہو تو یہ دل میں خوف بٹھا دیتا ہے جس سے پرفارمنس پیچھے چلی جاتی ہے اور کپتان کی اپنی اور ٹیم کی پرفارمنس متاثر ہوجاتی ہے۔

انضمام الحق کا کہنا تھا کہ کپتان پر اضافی ذمہ داری ہے کہ وہ سب کی کارکردگی پر فوکس رہے جس کی وجہ سے کبھی کبھار اسکا اپنی کارکردگی سے فوکس ہٹ جاتا ہے، پلیئر یا کپتان جب اس مرحلے سے گزرتا ہے تب ہی اسکو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس فیز سے کیسے گزرے اور کیسے ریکَور کریں۔

سابق چیف سلیکٹر نے کہا کہ ایک شکست پر کپتان کو بھی تبدیل کردینا مناسب نہیں، ورلڈکپ 2019 میں بھی پلیئرز کے دماغ میں خوف تھا کہ اگر ورلڈکپ میں اچھا نہیں کھیلا تو ہٹادیا جائے گا، کپتان کو بھی یہ ڈر تھا کہ اگر ٹیم نے پرفارم نہیں کیا تو ہٹا دیا جائے گا یہی رویہ رہا تو کرکٹ آگے نہیں جائے گی، جب پلیئرز کو اعتماد دینے کی بات ہوتی ہے تو اس میں یہ خوف اس کے دماغ سے نکلنا چاہیے، اگر کپتان کے دماغ میں یہ خوف آگیا تو وہ ٹیم کو کیسے لڑائے گا۔

ورلڈکپ 1992ء کی فاتح ٹیم کے رکن نے مزید کہا کہ لوگ عمران خان کی مثال دیتے ہیں، عمران خان نے بھی دس سال بعد تیسرے ورلڈکپ میں جاکر ٹیم کو کامیابی دلوائی، کیونکہ اس وقت تک انہیں ٹیم لڑانے کا بھرپور تجربہ ہوچکا تھا، اب ہم دو تین سال میں کپتان بدل دیں گے تو اسکو تجربہ کیسے حاصل ہوگا؟ کپتان مار کھا کر ہی تجربہ حاصل کرتے ہیں اور جب کپتان تجربہ حاصل کرنے لگتا ہے تو اسکو ہٹا دیا جاتا ہے جو پاکستان کرکٹ کے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب بابر کو کپتان بنایا ہے اسکو اعتماد دیں اور لمبا چلائیں اگر اچھا کپتان ثابت ہوتا ہے تو آٹھ دس سال اس کے ساتھ چلائیں۔

انضمام نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ بابراعظم ڈمی کپتان ثابت ہوں گے، ان کی اپنی کرکٹ کی سمجھ بوجھ ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ٹیم کس طرح چلانی ہے لیکن ایک چیز ضروری ہے کہ کپتان اپنی پرفارمنس پر بھی فوکس رہے کیوں کہ پورے اسکواڈ میں سب سے اہم بندہ کپتان ہوتا ہے نہ کہ کوچ یا کوئی اور، کپتان ہی ہوتا ہے جو فیلڈ میں پلیئرز کو لڑاتا ہے اس لیے کپتان کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔

اپنی سلیکشن کمیٹی کے دور کی بات کرتے ہوئے انضمام الحق نے کہا کہ جن نوجوان پلیئرز کو انہوں نے موقع دیا انہیں موقع کے ساتھ اعتماد بھی دیا جس کی وجہ سے وہ آج اسٹیبلش پلیئرز ہوچکے ہیں۔ شاداب خان، حسن علی، فخر زمان سب کو اعتماد دیا گیا تھا اور انہوں نے پرفارم کیا۔

انضمام کا کہنا تھا کہ انہیں فہیم اشرف سے بھی بہت امیدیں وابستہ تھیں لیکن فہیم اتنا اچھا پرفارم نہیں کرسکے کہ جس کی امید تھی۔

ایک سوال پر انضمام الحق کا کہنا تھا کہ امام الحق کو کارکردگی کی بنیاد پر سلیکٹ کیا گیا تھا اور اس نے ون ڈے کرکٹ میں پرفارمنس دے کر خود کو منوایا بھی اس کے باوجود بھی تنقید کی جاتی رہی، اس سے امام الحق کو فرق پڑا تھا، لوگوں کو کسی کی ذات کی بجائے پاکستان کا سوچنا چاہیے کہ پاکستان کے لیے کیا بہتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ بابر اعظم اور شاہین شاہ آفریدی ورلڈ کلاس پلیئرز ہیں، بابر محنتی پلیئر ہے اور وہ کیرئیر میں بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے، کوہلی کو کھیلتے ہوئے دس سال ہوگئے، بابر کو ابھی تین سال ہوئے ہیں، ابھی بابر کو بہت کچھ حاصل کرنا ہے لیکن اگر دونوں کے ابتدائی کیرئیر کا موازنہ کیا جائے تو بابر کے اعداد و شمار کافی اچھے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ شاہین شاہ آفریدی کا بولنگ میں وہی کردار ہے جو بیٹنگ میں بابر اعظم کا ہے، شاہین شاہ آفریدی نہ صرف پیس سے بولنگ کرتا ہے بلکہ یہ بھی جانتا ہے کہ کس کو کس جگہ گیند کروانی ہے، اس میں دنیا کا ٹاپ بولر بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔