کاروبار۔ درسگاہیں کھولنے کے مراحل طے کریں

July 05, 2020

سب سے پہلے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجالانا چاہئے۔ہمارے عظیم وطن میں عالمگیر وبا کورونا کا دائرۂ اثر محدود ہورہا ہے۔ نئے متاثرین کی تعداد کم ہورہی ہے۔اموات کی شرح بھی پہلے کی نسبت گھٹ رہی ہے۔بہت سے علاقوں میں اب کوئی نیا متاثر سامنے نہیں آرہا ہے۔لگتا ہے بزرگوں کی دعائیں قبول ہورہی ہیں۔ وفاقی صوبائی حکومتوں خاص طور پر وزارتِ صحت۔ ڈاکٹروں نرسوں اور دوسرے میڈیکل عملے کی محنت رنگ لارہی ہے۔ خیال رہے کہ رحمٰن و رحیم کی مہربانی کے ساتھ ساتھ اس میں ملک میں 60فیصد نوجوان آبادی کا بڑا دخل ہے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ہاں بزرگوں کی بڑی تعداد اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ ’اولڈ ہومز‘ میں نہیں ہے۔ پھر ہمارے وضو کرنے کی عادت نے بھی وائرس سے بچایا ہے۔ دنیا بھر میں اس وبا کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ سوائے برخود غلط حکمرانوں کے۔ امریکہ میں متاثرین بھی بڑھ رہے ہیں اموات بھی۔ انڈیا میں بھی۔ اور برازیل میں بھی۔ چین میں نہ ہونے کے برابر۔ اٹلی۔ اسپین۔ ملائیشیا۔ ویتنام۔ جنوبی کوریا میں اب گراف اوپر نہیں جارہا ہے۔

ڈاکٹرز۔ عالمی ادارۂ صحت اب بھی احتیاط کے لیے آواز دے رہے ہیں۔ کیونکہ ابھی تک اس کی دوا تیار نہیں ہوسکی ہے اور دوبارہ لہر ابھرنے کے خدشات اپنی جگہ ہیں۔ مسلم ممالک اور بالخصوص پاکستان میں عید الاضحی کی آمد آمد ہے۔ اس لیے قربانی کے جانوروں کی منڈیاں لگنے۔ خریداروں کے ہجوم کی روایات شروع ہونے والی ہیں۔ یہاں بے احتیاطی ہوسکتی ہے۔ لوگ اب بھی ماسک سے گریز کررہے ہیں۔ جسمانی فاصلوں کی پابندی بھی نہیں ہوگی۔ اجتماعی قربانی اور مالی صدقے پر گفتگو شروع ہوچکی ہے۔ علمائے کرام سے بجا طور پر توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے علم و فضل۔ تحقیق اور ادراک کی روشنی میں طریق کار طے کریں گے۔ انسانی زندگی اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ انسان اللہ کی سب سے اشرف مخلوق ہے۔ اس لیے اس کا تحفظ بھی سب سے اشرف ہے۔ ایسے فیصلے اور ایسے انداز اختیار کیے جائیں کہ قربانی کے سلسلے میں شرعی احکامات کی حرمت بھی برقرار رہے۔ ہم وطنوں۔ اور کلمہ گو بھائیوں کی جان بھی محفوظ رہے۔

خدائے بزرگ و برتر کے کرم سے اب ہم معمولاتِ زندگی کی بتدریج بحالی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے حکمران اور سیاستدان اور خاص طور پر اپوزیشن کورونا کے خوف سے نکل کر ایک دوسرے کے اور نادیدہ قوتوں کے خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ کورونا کو مائنس کرنے کی جگہ مائنس ون کا فارمولا پھر گردش میں ہے۔ بہت ہی پرانا فارمولا ہے۔ تحریک آزادیٔ ہند میں مائنس انگریز سامراج تھا۔ پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کے سربراہوں کو مائنس ون کیا جاتا رہا۔ ایوب خان نے بھی اس پر عملدرآمد کیا۔ پھر مشرقی پاکستان کو مائنس کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے پی پی پی سے بھٹو کو مائنس ون کرنے کے لیے مولانا کوثر نیازی اور دوسروں کی سرپرستی کی۔ پھر محترمہ بینظیر بھٹو کو مائنس ون کرنے کے لیے غلام مصطفیٰ جتوئی کو آگے لایا گیا۔ میاں نواز شریف کو مائنس کرنے کے لیے چوہدری برادرز کو ترجیح دی گئی۔ یہ خیال شروع سے غالب رہا ہے حالانکہ تاریخ نے اس کی بار بار نفی کی ہے کہ کسی ایک شخصیت سے نہ تو ساری امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں اور نہ ہی اس کو ہٹانے سے ساری توقعات باندھی جاسکتی ہیں۔ جسٹس افتخار چوہدری کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز مائنس ون کرکے سپریم کورٹ کو بے ضرر کرنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف اعتزاز احسن، وکلاء اور کچھ نادیدہ قوتیں یہ خیال کرتی تھیں کہ صرف جسٹس افتخار چوہدری ہی عدلیہ کو مستحکم اور آزاد کرسکتے ہیں۔ یہ ’’مائنس ون‘‘ اور ’’ون اینڈ اونلی‘‘ کے فارمولے غلط ثابت ہوتے رہے ہیں۔ اب بہت سے عمران خان کو ملک میں اچھی حکمرانی کے لیے آخری امید قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ شہباز شریف۔ بلاول بھٹو زرداری اور ان کے پیروکار۔ عمران خان کو مائنس کرنے میں ہی ملک کی بقا سمجھتے ہیں۔ ابھی یہ علم نہیں ہے کہ وہ قوتیں جنہیں مقتدر کہا جاتا ہے جو کسی کو ’’مائنس‘‘ اور ’’پلس‘‘ کرنے پر قدرت رکھتی ہیں۔ ان کا کیا خیال ہے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان اگر زندہ ہوتے تو وہ بکھری ہوئی اپوزیشن کو جمع کررہے ہوتے۔ اور ساتھ ساتھ کہہ رہے ہوتے ’’دیکھیں جی! پاکستان اور عمران خان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘ اور وہ کوئی نہ کوئی نیا اتحاد بنوانے میں کامیاب ہوجاتے۔ کسی وقت اس پر تفصیلی بات کریں گے کہ پاکستان میں بننے والے سیاسی اتحادوں۔ جگتو فرنٹ۔ کوپ( کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز) پی این اے۔ پی ڈی اے۔ ایم آر ڈی وغیرہ نے ملک میں سیاسی عمل کو تقویت پہنچائی یا قومی سیاسی پارٹیوں کو اپنی اپنی تنظیم کے عمل سے دور کیا۔ یہ تو طے ہے کہ عمران خان نے قوم میں لوٹ مار کرنے والے۔ باریاں لینے والے لیڈروں کے مقابلے میں اپنے لیے جو مثالی توقعات وابستہ کی تھیں وہ 2سال میں پوری نہیں ہورہی ہیں۔ اس کا اندازہ یقیناً خود عمران خان کو ہوگا۔ اس تاثر کو وہی دور کرسکتے ہیں۔

میں تو یہ کہتا ہوں کہ اب بھی ’’مائنس کورونا‘‘ کو اولیں ترجیح حاصل ہونا چاہئے۔ کیونکہ کورونا کی وبا نے پوری دنیا میں معیشت اور معمولات زندگی میں جس طرح افراتفری پیدا کی ہے۔ حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں کا فرض ہے کہ اپنے اپنے ملک میں اس افراتفری پر کنٹرول کرکے معمول کی زندگی بحال کریں۔ مہذب اور شائستہ ملکوں میں یہی ہو بھی رہا ہے۔ اپوزیشن حکومتوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ کیا یہ مقام شکر نہیں ہے کہ اس وبا کے مقابلے میں پاکستان میں صحت یابی کی شرح اب 48.1فی صد ہوگئی ہے۔ ہلاکت کی شرح 2فیصد ہے۔ اور یہ ہم سب کی مجموعی کارکردگی کا نتیجہ ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی محاذ آرائی اور تذبذب کے باوجود یہ وبائی لہر سیدھی ہورہی ہے ہمیں اپنے کاروبار اور خاص طور پر تعلیمی سلسلے بحال کرنے کے لیے مشاورت شروع کردینی چاہئے۔ اور ان مملکتوں کی مثال سامنے رکھنی چاہئے۔ جہاں اسکول یونیورسٹیاں کھول دیے گئے ہیں۔ ہماری اسمبلیوں میں میڈیا پر معمول کی بحالی کے طریقے زیر بحث آنے چاہئیں۔ اس وقت کے مناظروں۔ مجادلوں۔ اور مباحثوں سے تو اندازہ نہیں ہورہا ہے کہ کسی کو یہ احساس ہے کہ ہم کتنے کھرب روپیہ اس وبا کی نذر کرچکے ہیں۔ یہ رقم ہم کہاں سے لائیں گے۔ کیا مزید قرضے لیں گے۔ ہمارے نوجوان جو بیروزگار ہوگئے ہیں کاروبار بند ہوگئے ہیں وہ کیسے بحال ہوں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم کاروبار، بازار، درسگاہیں کھولنے کی تدابیر کا آغاز کریں۔ عید الاضحی کے اجتماعات کو کورونا کے پھیلائو میں مددگار بننے سے روکیں۔ 14اگست کو کورونا سے آزادی کا دن بنائیں اور یکم ستمبر سے زندگی از سر نو شروع کرنے کے مراحل کا اعلان کریں۔