متبادل کی تلاش کیوں؟

July 05, 2020

جب لاثانی کا کوئی ثانی نہیںتو متبادل کی تلاش پردئہ غیب سے مدد کے بغیر ہو بھی تو کیسے؟ ویسے ہی جیسے ہمارے کپتان کا کوئی نعم البدل جب نہ مل پایا تو ورلڈ کپ کا بٹیرا اندھوںکے ہاتھ پھر سے کیسے لگ پاتا۔

سیاسی قحط الرجالی کے تاریک ماحول میںاُمید کی کرن کہیں سے پھوٹے بھی تو کیسے؟ ’’مائنس ون‘‘ کا گھسا پٹا ریکارڈ سنائی دیا، تو ’’لاثانی کا کوئی ثانی نہیں‘‘ کا شوروغوغا تو بنتا تھا۔ صاحبانِدربارِ اندر کا تو یہ بہت ہی پرانا مشغلہ رہا ہے۔

تاریخناگزیر شخصیات، سلاطین، فاتحین، آمروں اور مردہائے مومنین کے قصوںسے بھری پڑی ہے اور قبرستان بھی۔ مملکتِخداداد کے مقدر میںتو ایسے ناگزیر وائسرائوںاور سورمائوںکی کبھی کمی نہیںرہی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان سے جنرل مشرف تک ہمارے وزیراعظم کے من پسند حکمرانوںکے کارہائے نمایاں یاد کیے جائیںتو مردِمومن مردِ حق ضیا الحق کو بھی کوئی بھلائے تو کیسے؟

ایسے میں ہمارے خوبرو کپتان کی قاتلانہ مسکراہٹ پہ کوئی فدا نہ ہو تو کیا اپنی انگلیاں کاٹ کر رہ جائے۔ لیکن جو آج کہیں ’’کوئی متبادل نہیں‘‘ کا راگ الاپتے نہیںتھک پا رہے، کل کو یہی ریکارڈ پلٹے جانے پہ کسی نئی دُھن پہ رقصاںنظر آئیںگے۔

پرانے چلن کی حکمرانی کے اینٹی کلائمکس کا اینٹی کلائمیکس جیسے ہوا اور جس سرعت سے صبحشام ہو رہا ہے اُس پر شرمندگی کے علاوہ ذوقِ خدائی والوں کے ہاتھ لگا بھی تو کیا۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ خلا کو پُر کرنے کیلئے مستعد عناصر کو ہر سو ’’قومی ذمہ داریاں‘‘ پوری کرنے کیلئے وسیع تر مواقع دستیاب ہو گئے۔ حکومت نہ سہی، کمان تو مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ ترکش کے تمام تیر ایک ایک کر کے آزمائے جا چکے، لیکن کوئی شکار ہاتھ نہ لگا۔ کرپشن کی غضب کہانیوںکے جو پُل باندھے گئے تھے اور احتساب کے جو بے انت ڈونگرے برسائے گئے تھے وہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی برطرفی سے محتسبوں کے چہروں کی کالک بن گئے ہیں۔

کرپشن کی گنگا ایسی اُلٹی بہی کہ ذاتی شرافت کے دبیز پردے میںہر طرحکی مافیاز کو کھل کھیلنے کا سنہری موقع مل گیا۔ چینی مافیا، دوائی مافیا، تیل مافیا، آٹا مافیا، کھاد مافیا، پاور مافیا، تیل مافیا اور جانے کون کون سی مافیائوںکے سرغنوںکو پناہ ملی بھی تو احتساب کے پردے میںبراجمان طفیلی حکمرانی میں۔

اب اُلٹے بانس بریلی کے مصداق محتسب ہی قابلِ احتساب ٹھہرے۔قصور احتساب کے متوالوںکا بھی نہیں اور نہ احتساب کے نعرئہ حق کا ہے۔ مملکتِ خداداد کی بنیاد ہی ایسے بعد از نوآبادیاتی سیاسی و معاشی نظام پہ رکھی گئی تھی کہ جہاں ریاستی سرپرستی میںگماشتہ سرمایہ داری کو ہر طرح کے چور دروازوں سے کھڑا کیا گیا تھا۔

آغاز تو گورنر جنرل کے عہدہ اور بعد ازاں صدارت کے نوکرشاہی کو منتقل ہونے اور پھر سلسلۂ مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز کے طفیل چار ستاروںکا مقدر بننے سے ایک طرحکا عجیب الخلقت سیاسی نظام وجود میں آیا جس کا کہ کوئی ثانی نہ تھا۔

پھر ریاستی مدد، لائسنسوں اور پرمٹوں کی بارش میں ایسی تجارتی و صنعتی بورژوازی پیدا کی گئی جو دونوںہاتھوںسب کچھ سمیٹ لینے کی فکر میںتھی۔ جبکہ جاگیردارانہ ورثے کو برقرار رکھ کر ایک رعیتی باجگذار سیاست کو دوام بخشا گیا۔

ایوب خان کے جس سنہرے ترقی کے عشرے کا ذکر کرتے ہمارے وزیراعظم نہیںتھکتے وہ یہی تو تھا جس میںترقی کی بوندیںکبھی عوام کے خشک ہونٹوںکو تراوٹ نہ بخش سکیں۔

اب مافیائوںکا رونا رونے میں بہت دیر ہو گئی ہے، جو ہر طرف چھا گئی ہیں۔ ہمارے احتسابِاعظم جب کسی پہ ہاتھ ڈالتے ہیں تو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ چینی مافیا اور تیل مافیا سے پنجہ آزمائی میںحکومت اپنی ہی ناک کٹوا بیٹھی، اکیلا چنا بھاڑ جھونکے بھی تو کیسے؟ لیکن بڑھکیںہیںکہ ختم ہونے کو نہیں۔ بڑھکوںسے نظام سنورنے ہوتے تو بازاری مجمع باز کبھی کے لنکا ڈھا چکے ہوتے۔ دو برس گزر چکے، بندر تماشہ دیکھتے۔

وکٹیںگرتی جاتی ہیں اور اسکور بورڈ پر انڈے ہیں کہ بڑھتے جاتے ہیں۔ ایمپائر کی انگلی کے انتظار میں بیچارے حزبِاختلاف والے جانے کس خلجان میںمبتلا ہیں۔ پرانے سماج کی پرانی سیاسی نسلوںمیں دم خم نہیںتو لاثانی کا ثانی بنے تو کون؟ تاریخی اعتبار سے پرانی سیاست اگر ٹریجڈی بنی تو کامیڈی کا موجودہ دور تو مقدر ٹھہرنا ہی تھا۔

بس فرق یہ ہے کہ پرانے کھلاڑیوںکو پرانا کھیل آتا تھا، جونہی کہیں چُوک ہوئی تو سجدئہ سہو سے واپسی بھی ہو جاتی رہی۔ لوگ بھی اس پرانے تماشے سے عاجز آ گئے تھے، خاص طور پر ہماری پوتر مڈل کلاس اور وہ ملینیئم جنریشن جس نے شعور کی آنکھیں شوکت خانم ہسپتال کیلئے چندہ اکٹھا کرتے کھولی تھیں اور وہ تارکینِوطن جو اپنی ثقافتی بیگانگی کو مملکتِ خداداد کو اسلاف کی پاکیزگی سے دھونا چاہتے تھے۔

لیکن انقلابی جذبے رجعتی نظریئے سے مل جائیں تو فسطائیت اپنا رنگ جماتی ہے جس کیلئے لفانٹروںکی بہتات کی نہیںنظم و تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرین کی فوجِ ظفر موج آئی نہ کوئی کل سیدھی ہوئی۔ جو ڈھونگ سجایا گیا، وہ اصل سجانے والوںکے کام آیا۔ جونہی اس لایعنی کھیل کا مزا کرکرا ہوا تو تماشہ گروں کو پھر سے تلاش شروع ہوئی۔

لیکن وہ پری کہاںسے لائوںجسے دُلہن تیری بنائوں۔ شاید دو برس کی ہمہ طرف خجالت ابھی کافی نہیں۔ مگر اس کی طوالت کی کوئی دُعا کرے تو کیسے؟

اور ایسے وقت میںجب کورونا کی تباہ کاریوںمیں سب کچھ دھندلا گیا ہو تو کوئی اگلے تین برس میںبھلائی کی اُمید کرے تو کیسے؟ لگتا ہے کہ مخالفین پر بائونسر مار مار کر کپتان کے پٹھے چڑھ گئے ہیں اور حیلے بہانوںکی گگلیوں سے بھی کام نہیںچل پا رہا۔

پرانے کھلاڑیوںکی واپسی بھی آسان نہیں۔ اور اگر ہوگی بھی تو اُس قیمت پر جس سے معذرت ہی بھلی۔ ایسے میں لاثانی کا ثانی وہی ہوگا جس کا کہ کوئی وارث نہیں ہوگا۔

چہرے تو بہت بدلے ہیںاور آتے جاتے رہے ہیں۔ بات اصل میں چہرے نہیں نظام کو بدلنے کی ہے جس کا کہ پرانے اور نئے کھلاڑیوںکو یارا نہیں۔ کالم ختم ہوتے ہوتے خیال میںآیا بھی تو قبر کا ایک کتبہ جس پر لکھا تھا:’’میںبڑا اہم تھا، یہ میرا وہم تھا‘‘۔