5 جولائی کا سبق

July 05, 2020

’’5جولائی‘‘ تاریخ پاکستان کا ایک بڑا حوالہ ہے۔ 1977 کی یہ تاریخ نتیجہ تھا اس حکمرانی ذہنیت کا جس میں متفقہ آئین بننے کے باوجود سول حکومت وقت نے اپنا دور آمرانہ طرز سے تقریباً مکمل کیا اور مدت سے 4ماہ پہلے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان اس محتاط اندازے سے کیا کہ متضاد الخیال جماعتوں کی اپوزیشن اپنے اپنے سیاسی فکری تضاد کے باعث کبھی متحد نہ ہو۔بھٹو حکومت نفاذِ آئین سے کوسوں دور اور اس کی خلاف ورزیوں میں مکمل دیدہ دلیرتھی۔ پورے دور میں آئین کی پابندی کے مطابق بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے، جنگ ستمبر 65 میں نافذ کی گئی ایمرجنسی ختم نہ کی گئی، اس کے تحت عدلیہ کے متوازی اسپیشل ٹربیونلز قائم ہوئے جس میں اپوزیشن اور خود حکومت کے اپنے بھی ووکل اور جمہوری مزاج کے سیاستدانوں کے خلاف ڈیفنس آف پاکستان رولز 17کے تحت نقص امن کے خدشات پر مقدمات قائم کرکے انہیں برسوں گرل کیا گیا۔ ٹربیونل کیا تھا، مکمل کٹھ پتلی عدالتیں اور سیاسی قیدیوں کیلئے دلائی کیمپ، سب سے زیادہ سیاسی قتل اسی دور میں ہوئے، اپوزیشن کو کچلنے اور دھمکانے کیلئے، وفاقی سطح پر فیڈرل سیکورٹی فورس قائم کی گئی، کڑی سنسرشپ وقفوں سے لگتی رہی۔ ایوبی دور کا کالا میڈیا قانون پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس 1962ء پورے بھٹو دور میں جاری رہا۔ آزاد اخبارات اور جرائد کے مالکان اور بےباک صحافیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ نیشنل پریس ٹرسٹ‘ انتخابی منشور اور عہدوں کے خلاف مکمل سرکاری کنٹرول میں قائم دائم رہا۔ تمام ضمنی انتخابات کھلی دھونس دھاندلی اور سرکاری مداخلت کے ماحول میں ہوئے۔ حکمراں جماعت میں جے اے رحیم، معراج محمد خان، حنیف رامے، مصطفیٰ کھر، احمد رضا قصوری، رانا مختار کو پارٹی کو نظریے کے مطابق چلانے اور آزاد رائے زنی پر فقط علیحدہ ہی نہیں کیا گیا بلکہ ان کے خلاف جو ’’عدالتوں‘‘ جیلوں اور ضمنی انتخابی مہمات میں ہوا وہ شرمناک ہی نہیں فسطائی بھی تھا، سب ریکارڈڈ اور میڈیا آرکائیو میں محفوظ۔ دسمبر 71ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یہ باقی ماندہ پاکستان کا پہلا جمہوری دور مع آئین، وہ آئین جسے بناتے ہی ٹھکانے لگا کر بھٹو صاحب نے اپنا دورِ حکومت چلایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو نے یہ سب کچھ مقبول عوامی لیڈر ہونے کے باوجود کیا، ان کا حقیقی سیاسی ظہور ایوبی آمریت کے 9سالہ پوٹینشل سول معاونت اور 1964ء میں متحدہ اپوزیشن کی صدارتی امیدوار مادرِ ملت فاطمہ جناح کی مخالفت میں پروپیگنڈے طرز کی انتخابی مہم میں ایوب خان کی جماعت کنونشن مسلم لیگ کی انتخابی مہم چلانے سے ہوا۔ یہ انتخاب دھاندلیوں سے پُر تھا جس کے نتائج کو مشرقی پاکستان اور کراچی میں ایٹ لارج تسلیم نہیں کیا گیا، جس پر ایوب خان دور کی تمام تر ترقی کے باوجود ان کا گرتا گراف بالکل واضح تھا، جسے جنگ ستمبر میں ان کے بھارت خلاف تاریخی اعلانِ جنگ نے سنبھال لیا۔ اور وہ وقتی طور پر مقبول ہوگئے اور بھٹو بھی دورانِ جنگ اپنی سلامتی کونسل کی تقریر سے یکدم مقبول ہوئے جسے انہوں نے سیز فائر کے بعد بڑے شاطرانہ انداز سے استعمال کرکے، ایوب خان کی زوال پذیر قیادت کے متبادل کے طور پر پیش کیا۔ معاہدۂ تاشقند کا حوالہ یا ڈرامہ ہماری سیاسی تاریخ کا بڑا ناٹک رہا۔

امر واقع یہ ہے کہ بھٹو دور کے پس منظر میں یحییٰ فوجی حکومت اور ذوالفقار علی بھٹو کا اکثریتی جماعت کے خلاف بلایا اجلاس روک کر نوبت آرمی ایکشن تک پہنچانا تاریخ پاکستان کا سب سے سیاہ باب ہے۔ جس نے سقوطِ ڈھاکا اور ایک شرمناک سرنڈر کو جنم دیا۔ آخر مجیب کو 6نکات پر انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت کیوں دی گئی؟ کیا مارشل لائی حکومت اور ذوالفقار علی بھٹو کا دورانِ انتخابی مہم اس پر کوئی اعتراض تھا؟ کوئی نہیں۔ پھر بھی یہ خطرناک تھا تو اس کی نشاندہی آئین سازی کے دوران اسمبلی اجلاس کے دوران ہونی چاہیے تھی یا اسمبلی کے بائیکاٹ اور ملٹری ایکشن سے عوامی ردعمل کو کچل کر یہ مسئلہ حل ہو سکتا تھا؟ بھٹو صاحب نے کہا تو تھا کہ ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ لیکن بچا؟ اور ٹوٹا بھی تو کیسے؟ چلو پھر بھی یہ سبق لیا کہ ادھورے پاکستان کا آئین بنا لو۔ بن گیا، پھر جس طرح الیکشن 1970ء کے نتائج کو تسلیم نہ کرکے آگ سے کھیلا گیا، اسی طرح 1973ء آئین کے بننے بعد بھی سول آمریت پر حکومت چلائی گئی۔ اسی کا قدرتی شاخسانہ ہوا کہ سنیارٹی میں 5ویں نمبر کے جنرل کو آرمی چیف بنا کر اپنے عبرتناک انجام کی غیر دانستہ بنیاد رکھی۔ کون نہیں جانتا کہ الیکشن 1977ء میں کیسی، کتنی اور ملک گیر سطح کی دھاندلی ہوئی۔ حالانکہ اپوزیشن چھوٹی اور متضاد نظریات میں تقسیم تھی لیکن کرافٹڈ دھاندلی نے فیئر انتخابات کی تحریک نظام مصطفیٰ میں تبدیل ہو جانے والی تحریک کے 350شہدا پر بھی انتخاب گوارا نہیں کیا اور تحریک کو کچلنے کیلئے لاہور، کراچی اور حیدرآباد میں نفاذِ مارشل لا کی ناکامی پر جلد عام آزادانہ شفاف انتخابات کا اعلان کرنے کے بجائے مذاکرات کا ڈول ڈالا جس میں پاکستان قومی اتحاد کے اسیر رہنما اور جو باہر حکومت وقت کی سخت مزاحمت دیکھ رہے تھے، عام انتخاب کے انعقاد کے امکان پر مشکوک ہی نہیں ہو گئے بلکہ بھٹو صاحب کی سادہ اکثریت سے اقتدار کے بعد پہلے سے بھی بدتر اور انتقامی امکانی حکومت سے خائف ہوگئے۔ ’’اب مارشل لا لگانے کی جھجک‘‘ کو خود بھٹو کے جزوی مارشل لا (کراچی، لاہور اور حیدر آباد) نے ختم کر دیا تھا۔ پھر جب ضیاء الحق نے 90روز کے اندر انتخابات کا اعلان کیا تو پاکستان قومی اتحاد میں مفتی محمود، ولی خان، اصغر خان، چودھری ظہور الٰہی کسی حد تک جماعت اسلامی بھی، انتخاب سے پناہ مانگنے لگے اور کھلے عام مطالبہ ہوا کہ پہلے ’’احتساب پھر انتخاب‘‘ ساتھ ہی فوجی حکومت سے گٹھ جوڑ کرکے عبوری حکومت بنوا کر اس میں شامل ہو گئے۔ سو جمہوریت تو نہ نکلی ایک نئے ملٹری سول گٹھ جوڑ سے ’’دو خاندانی شاہی طرزِ حکومت‘‘ جیسا دور رس نتیجہ نکلا، جو آج پوری قوم بھگت رہی ہے اور اس نظام کا کِلّہ اتنا مضبوط ہے کہ تبدیلی سرکار بھی اس سے لڑتی بھڑتی جیسے تیسے اقتدار میں آتے ہی کنگال اور مقروض ہونے کے ساتھ ساتھ آئین و قانون کے نفاذ کی پچھلی تمام حکومتوں کی طرح چور نہیں تو نااہل ضرور ہے، جسے تشکیل حکومت ہی نہیں آتی، رٹ قائم کرنا تو دور کی بات ہے۔ یوں 5جولائی نے ہمیں پھر آئین سے روگردانی کرکے سول ملٹری گٹھ جوڑ، باری باری اور این آر او کی راہ پر ڈالے رکھا۔ اتفاق نہیں ہوا تو آئین کے مکمل نفاذ پر نہیں ہوا۔ گویا 1973ء کے بعد سبھی منتخب حکومتوں اور غیر آئینی سول ملٹری گٹھ جوڑوں نے آئین کو ٹھکانے لگائے رکھا۔ عبرتناک انجام، سبق اور دور رس نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ سبق پھر وہی ہے کہ ’’آئین کی مکمل پیروی اور تمام شہریوں پر قانون کا یکساں نفاذ‘‘۔