تبدیلی کا نعرہ اور حکومتی ناکامی!

July 05, 2020

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے تحریک انصاف کی ناکامی کے بیان سے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچ چکی ہے۔ فواد چوہدری کا ڈیلیور نہ کر پانے کا اعتراف درست اور مبنی برحقیقت ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ حکومت کے پاس 6ماہ کا وقت ہے، کارکردگی نہ دکھائی تو بات کسی اور طرف چلی جائے گی سے واضح ہوگیا ہے کہ تحریک انصاف کی کارکردگی سے ہر طرف مایوسی پھیل چکی ہے۔ ملکی تاریخ کے نااہل ترین اور اخلاقی اقدار سے نابلد حکمران مسلط ہیں۔ تبدیلی کا کھوکھلا نعرہ عوام کے ساتھ سنگین مذاق بن چکا ہے۔ ملکی حالات روز بروز ابتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کرپٹ ترین افراد وزیراعظم کے اردگرد موجود ہیں۔ جب تک ان سے وفاقی کابینہ کو پاک نہیں کیا جاتا، اس وقت تک عوام کو وزیراعظم عمران خان کی کسی بات کا یقین نہیں ہوگا۔ ملک بحرانوں کی زد میں ہے مگر بدقسمتی سے موجودہ حکمرانوں میں اتنی اہلیت اور صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ان سے نمٹ سکیں۔ وقتی ڈنگ ٹپاؤ اقدامات سے ملکی معاملات کو چلانے کی ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اب بھی حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو حالات ان کے قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ پاکستان کے 22کروڑ عوام پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں، ایک ایسی ریاست جہاں قانون سب کے لیے برابر ہو، ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو۔ اب تک تحریک انصاف نے جھوٹے وعدوں اور دعوؤں سے قوم کو بے وقوف بنایا ہے۔ حکومت کی ناکام پالیسیوں کی بدولت مسلسل لاک ڈاؤن اور مہنگائی کی شرح میں ہوشربا اضافے سے متوسط طبقہ بھی محتاجی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے جبکہ غریب تو زندہ درگور ہو گیا ہے۔ کورونا کے متاثرین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستان بڑھتی شرح کے لحاظ سے پہلے آٹھ ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔ حکومتی اقدامات اس حوالے سے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ کورونا وائرس نے حکمرانوں کی اہلیت کی قلعی کھول دی ہے۔ ملک اس وقت شدید قسم کے بحرانوں اور عوام اضطراب کا شکار ہیں۔ نظام زندگی عملاً مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ اربوں روپے کا ملکی معیشت کو نقصان ہوا ہے۔

کورونا کا حملہ پھیپھڑوں پر ہوتا ہے مگر حکمرانوں کی بے حسی اور مجرمانہ غفلت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب کی 12کروڑ آبادی کے لیے صرف اور صرف 882وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں۔ موجودہ حکمران ہر محاذ پر ناکام ہو چکے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں کورونا وائرس کی تشخیص کے انتظامات نہ ہونے سے نااہلی کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ ہمیں ایک قوم بن کر اس مشکل کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ حکومت کورونا کی روک تھام کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔ کورونا کی روک تھام کے حوالے سے چین جیسی کامیاب حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پنجاب سمیت ملک بھر میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی نااہلی سے فارماسیوٹیکل اور ڈرگ مافیا نے بھی ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے۔ چیک اینڈ بیلنس کا سارا نظام ہی مفلوج ہو گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے ایسے حکمران ہم پر مسلط ہیں جن کی ترجیحات میں عوامی مسائل اور ان کا حل شامل نہیں ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے مہنگائی اور کورونا کے ستائے پاکستانی عوام کو وفاق اور پنجاب کے بجٹ میں فلاحی ایجنڈا نہیں دیا۔ لوگوں کی بجٹ سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں۔ وفاقی و صوبائی بجٹ میں غریب طبقے اور سرکاری ملازمین کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ بجٹ غیر حقیقی اہداف پر مشتمل ہے، قوم کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بننے والے بجٹ میں عوام کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے۔ صحت، تعلیم اور زراعت کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس بجٹ میں غریب اور پسماندہ علاقوں خاص طور پر قبائلی علاقوں کی ترقی اور مسائل کا کوئی حل نہیں دیا گیا۔ دنیا بھر میں تعلیم اور صحت کو بجٹ میں اولین ترجیح دی جاتی اور سب سے زیادہ فنڈز انہی 2شعبوں پر خرچ کیے جاتے ہیں مگر ہمارے بجٹ میں عوامی فلاح کے ان اہم ترین شعبوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ قریباً 45فیصد خسارے کے بجٹ میں سے حکومت عوام کو کیا دے گی؟ آئی ایم ایف نے اپنے قرضوں کا سود وصول کرنے کے لیے اپنی مرضی کا بجٹ بنوایا ہے۔ بجٹ میں کسانوں، مزدوروں اور مہنگائی اور بیروزگاری کے مارے عام آدمی کے لیے کچھ نہیں ہے۔ عوام حکومتی اقدامات سے بدحال ہو چکے ہیں۔ شعبہ زراعت کو فروغ دے کر پاکستان دنیا میں اپنا مقام حاصل کر سکتا ہے۔ زراعت اور انڈسٹری کے فروغ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ پنجاب میں اسپتالوں کی تعداد کم اور سہولتوں کا فقدان ہے۔ حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں کسی نئے اسپتال کے لئے کوئی فنڈ نہیں رکھا۔ پنجاب میں حکومت لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں میڈیکل سٹی کے قیام کو بجٹ میں شامل کرے۔ پیسے بانٹنے اور لنگر خانے کھولنے سے غربت کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں۔ تعلیم اور ہنر کو عام کیا جائے۔ فیکٹریاں اور کارخانے قائم کئے جائیں۔ افسوناک امر یہ ہے کہ وفاق اور پنجاب کے بجٹوں میں ایسا کوئی پلان نہیں ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے جاری حالیہ رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 26فیصد گھرانے غربت کا شکار ہیں جبکہ بجٹ میں صرف 5ارب 36کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ حکومت اس بجٹ کو دو گنا کرے۔