اسمارٹ لاک ڈاؤن: حوصلہ افزا نتائج

July 06, 2020

کورونا کی عالمی وبا نے فروری کی آخری تاریخوں میں پاکستان کا رخ کیا اور چند ہفتوں کے اندر مرض کے پھیلنے کی رفتار میں نمایاں اضافہ ہوگیا تو صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر ( این سی او سی )کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ادارے نے گزشتہ روز اپنے سودن مکمل کیے تو وزیراعظم نے آرمی چیف، وفاقی وزراء اور اعلیٰ سرکاری حکام کے ہمراہ سنٹر کی کارکردگی کا براہ راست جائزہ لینے کی خاطر اس کا دورہ کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم کی صدارت میں این سی او سی کا اجلاس بھی ہوا جس کے شرکاء میں آرمی چیف، وفاقی وزراء، معاونین خصوصی اور اعلیٰ عسکری حکام شامل تھے۔ اجلاس میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور محکمہ صحت کے حکام نے کورونا کی تازہ صورت حال پر روشنی ڈالی۔ وزیراعظم کو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی سو روزہ کارکردگی اور ملک میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کے نتائج پر بریفنگ بھی دی گئی۔ بتایا گیا کہ ملک میں کورونا کے سوا لاکھ سے زیادہ مریض اب تک صحت یاب ہوچکے ہیں جبکہ نئے مریضوں کی یومیہ تعداد مرض سے نجات پانے والوں کی نسبت کم ہوگئی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے این سی او سی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور اپنے اس موقف کو دہرایا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی سے بہترین نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان جیسے ملکوں میں مہینوں طویل مکمل لاک ڈاؤن کرکے ساری آبادی کو گھروں تک محدود کردینا عملاً محال تھا۔ معاشی سرگرمیوں کے مکمل تعطل کا اس کے سوا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا تھا کہ کم آمدنی اور روز کی روزی روز کمانے والے کروڑوں گھرانوں کو فاقہ کشی سے دوچار کرکے آنکھوں دیکھتے موت کے منہ میں جانے دیا جائے جبکہ کورونا کے پھیلاؤ اور ہلاکت خیزی کا تناسب دنیا کے دوسرے متعدد ملکوں کے مقابلے میں اللہ کی مہربانی سے ہمارے ہاں شروع ہی سے نمایاں طور پر کم رہا ہے۔ ان حقائق کی بنا پر درپیش صورت حال کا مقابلہ کرنے کی واحد قابل عمل تدبیر یہی تھی کہ مکمل لاک ڈاؤن کو زیادہ متاثرہ علاقوں تک محدود رکھتے ہوئے ملک کے دیگر حصوں میں احتیاطی تدابیر کی پابندی کے ساتھ ضروری معاشی سرگرمیاں اور معمولات زندگی جاری رکھے جانے کی اجازت دی جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس حکمت عملی کو اسمارٹ لاک ڈاؤن کا نام دیا اور بعض حلقوں کی جانب سے اسے ہولناک نتائج کا حامل قرار دیے جانے کے باوجود اس معاملے میںاپنے موقف پر قائم رہے لہٰذا گزشتہ روز این سی او سی کے اجلاس میں پیش کیے جانے والے اعداد وشمار اور معلومات کو وزیراعظم کی جانب سے اپنی اس حکمت عملی کی کامیابی قرار دینا یقیناً وزن رکھتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت بہرصورت ملحوظ رکھی جانی چاہیے کہ خطرہ ابھی پوری شدت کے ساتھ برقرار ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق گزشتہ روز ہی امریکا، برازیل اور بھارت میں وائرس کے نئے شکاروں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جبکہ پاکستان میں بھی جمعہ کو تقریباً ساڑھے تین ہزارنئے کیس سامنے آئے ہیں۔ موسم سرما میں پوری دنیا میں وبا کی دوسری شدید تر لہر کی آمد کا خطرہ بھی ہے۔ دوسری جانب عید الاضحی کی آمد میں چند ہفتے باقی ہیں اور ملک بھر میں مویشی منڈیاں سج رہی ہیں۔ وزیراعظم نے اس تناظر میں تمام ضروری احتیاطی تدابیر کی سختی سے پابندی کے لیے خصوصی اقدامات کی ہدایت کی ہے جسے ہر سطح پر یقینی بنایا جانا متعلقہ حکام کی ناگزیر ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم نے فرنٹ لائن پر خدمات انجام دینے والے طبی عملے کو بجاطور پر قومی ہیرو قرار دیا ہے، ان کی بے مثال خدمات کا اعتراف کرنے کے کیلئے قومی قیادت کی جانب سے ملک کے مختلف اسپتالوںکے دورے کا جو پروگرام اجلاس میں طے پایا ہے، وہ یقیناً وقت کی اہم ضرورت ہے اور امید ہے کہ اس پر جلد عمل کیا جائے گا۔