ایف بی آر کے چوتھے چیئرمین

July 06, 2020

بجٹ خسارہ پورا کرنے، مجموعی مالیاتی معاملات میں بہتری لانے نیز منی لانڈرنگ اور لوٹی گئی رقوم کی واپسی کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان سے نمٹنے میں ایف بی آر کا کلیدی کردار محتاجِ وضاحت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کے ان ابتدائی دو برسوں میں چوتھی مرتبہ ایف بی آر کے سربراہ کی تقرری کرتے ہوئے پاکستان کسٹم سروس کے گریڈ 22کے افسر محمد جاوید غنی کو تین ماہ کے لیے یا مستقل تقرری تک چیئرمین کا اضافی چارج دیا ہے۔ قبل ازیں ان دو برسوں میں جہانزیب خان اور شبر زیدی کے علاوہ نوشین جاوید امجد اس عہدے پر تعینات رہی ہیں۔ متذکرہ تقرری میں یہ حوالہ سامنے آیا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے لیے ریونیو کی وصولی کا ہدف جو 5500ارب روپے مقرر کیا گیا تھا اس میں سے صرف چار ہزار ارب وصول ہوئے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار میں آتے ہی ورثے میں ملنے والے اس وقت کے 28ہزار ارب روپے کے غیر ملکی قرضوں، بجٹ خساروں اور منی لانڈرنگ جیسے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بلاشبہ ان سے نمٹنا کسی بھی حکومت کے لیے آسان نہیں ہو سکتا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کی عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی نشری تقریر بھی اسی حوالے سے تھی۔ اس ضمن میں ٹیکس اہداف کی وصولی سے لے کر متعلقہ جرائم کے معاملات تک میں ایف بی آر کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل رہا تاہم اہداف کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادارہ اکثر ہدف تنقید بنا رہا۔ ان حالات میں محمد جاوید غنی پراس ادارے کی سربراہ کی حیثیت سے یقیناً بھاری ذمہ داری عائد ہوئی ہے لیکن وہ ممبر کسٹم پالیسی اور آپریشن کی سطح پر فرائض انجام دے چکے ہیں اور ٹیکس ریونیو کے معاملات میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اس لیے امید رکھی جاسکتی ہے کہ ایف بی آر کے چیئرمین کے منصب پر ان کی تقرری بجٹ اہداف کے حصول میں کامیابی کا ذریعہ ثابت ہو گی۔