اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں

July 08, 2020

تحریر:ہارون مرزا ۔۔راچڈیل
یورپی یونین کے ممالک کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ میں کروڑوں کی تعداد میں پاکستانی تارکین وطن آباد ہیں پی آئی اے پر ان ممالک میں لینڈ کرنے پر چھ ماہ کی پابندی عائد کر دی گئی ہے یہ خبر پاکستانی تارکین وطن پر بجلی بن کر گری اور کوئی بھی ایسا تار ک وطن نہیں جس نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار نہ کیا ہو بلکہ اکثریت نے اسے پاکستان کے وزیر ہوابازی غلام سرور خان کےغیر ذمہ دارانہ رویئے کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ پی آئی اے میں تطہیر کا عمل خاموشی کے ساتھ جاری رکھتے تو شاید آج حالات کچھ اور ہوتے۔ یورپی یونین ائیر سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کا یورپی ممالک کے لیے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو چھ ماہ کے لیے معطل کرنے کے بعد پاکستانی حکومت جو لمبی تان کر سو رہی تھی کے اسٹیک ہولڈروں کو اس بات کا احساس ہوا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے تباہی سے دوچار پاکستانی معیشت کا پھر اللہ ہی حافظ ہو گا جہا ں تارکین وطن لعن طعن کر رہے ہیں وہاں پاکستانی عوام بھی اسے حکومت کی ناکامی تصور کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پی آئی اے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور 2سو سے زائد جن پائلٹس کی ڈگری جعلی قرار دی گئی ہے ان کا مستقبل بھی دائو پر لگ گیا ہے ایسے پائلٹ جنہوں نے پاکستان سے لائسنس حاصل کر رکھے ہیں وہ بھی اپنے مستقبل سے مایوس ہو گئے ہیں اس تمام صورتحال کا آغاز 2012 میں اس وقت ہوا جب حکومت پاکستان نے ٹیسٹنگ کا نیا نظام متعارف کروایا جس میں دو امتحانی پرچوں کی جگہ آٹھ پرچے متعارف کروائے گئے اور جس کے نتیجے میں پائلٹس میں مختلف نوعیت کے ذرائع کے استعمال کے ساتھ پرچے پاس کرانے کا سلسلہ شروع ہوا جو موجودہ سکینڈل کی بنیاد ہے ۔پاکستانی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرو ر خان نے اپنے ہی ادارے کو دنیا بھر میں بدنام کر دیا ہے بلکہ بعض نے اسے بالواسطہ طور پر پی آئی اے پر خود کش حملے سے تشبیہ دی ہے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی اس معاملے پر خاموشی اور وزرا کی کھل کر بات کر نا اس امر کا عندیہ دے رہے ہیں کہ انہیں عالمی سطح پر لگنے والی پابندی کی قطعا کوئی پروا نہیں جبکہ وہ پائلٹس کی یونین پالیا کے بارے میں ہمدردانہ رویہ نہیں رکھتے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے حکومت نے پی آئی اے کو تباہی سے دوچار کر کے اونے پونے داموں فروخت کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں نے بھی اس صورتحال کر کھل کر تنقید کرنا شروع کر دی ہے اور کہا ہے کہ کراچی طیارہ حادثہ کے بعد اچانک حکومت کی طرف سے پی آئی اے پر بھی سرجیکل اسٹرائیک کی گئی ہے۔یورپین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایازا) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹرک کائی نے 17مئی 2016کو پی آئی اے کے حکام کو خط لکھا اور پی آئی اے کے اجازت نامے کی شرائط کے تحت جس کی گاہے بگاہے نگرانی کی جاتی ہے اور یہ اس نگرانی کے عمل کا حصہ ہے جس کے تحت ائیر لائن کسی رکاوٹ کے بغیر یورپی ممالک کیلئے پروازیں چلا سکتی ہے اس سلسلہ میں (ایاز ا) اور پی آئی اے کے درمیان دو مشاورتی اجلاس جرمنی کے شہر کولون میں صدر دفتر میں 13جون 2019اور 3ستمبر 2019کو ہوئے تھے جس میں ایسے چھ نکات اٹھائے گئے جو اسکے معیار کے مطابق لیول 2یعنی دوسرے درجے کے بنتے ہیں جس کا مطلب عدم تعمیل کے زمرے میں آتے ہیں یعنی ایسی سنگین غلطیاں جو ائیر لائن کی جانب سے بار بار دہرائی جائیں اور تنبیہ کے باوجود اسکی اصلاح نہ کی جائے سرفہرست ہیں۔ پی آئی اے حکام نے ان خرابیوں کو درست کرنے کا منصوبہ پیش کیا جسے ایازا نے منظور کیا پانچ نکات پر ایازا تو مطمئن ہو گئی مگر سیفٹی مینجمنٹ کے حوالے سے پی آئی اے ایازا کو م مطمئن کرنے میں ناکام رہی اسکے باوجود کہ اسے عمل درآمد کے لیے کافی مہلت دی گئی تھی ۔اس معاملے کی درجہ بندی لیول ٹو سے لیول
ون کر دی لیول ون کا مطلب ہے ایازاکے قوانین کی ایسی خلاف ورزی جس کے نتیجے میں طیاروں کے تحفظ کے لیے درکار ضروریات پر سمجھوتہ ہو سکتا ہو اس لیول کے نکات یا نتائج کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔پاکستان کے وفاقی وزیر ہوا بازی کا ان پابندیوں کے اطلاق میں بیانات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں حکومت پاکستان اور پاکستانی پائلٹس کے لائسنس کے حوالے سے ان کا تبصرہ جو انتہائی تباہ کن ثابت ہوا بھی شامل ہے۔ ایازا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے پاکستان سول ایوی ایشن کے کردار اور اس کے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ وفاقی وزیر کے تقریر کے مندرجات پر انہیں سخت تشویش ہے جس کی وجہ سے موجودہ صورتحال میں پی آئی اے اس قابل نہیں کہ وہ موجودہ پائلٹس کے ساتھ ان ممالک میں آپریٹ کر سکے۔ پی آئی اے نے 28جون کو ایازا کو ایک جوابی خط لکھا جس میں اپنی رائے اور معلومات دی گئیں مگر ایازا نے اسے ناکافی قرار دے دیا ہےکراچی میں پی آئی اے حادثہ کے بعد ابتدائی رپورٹ کے جو نتائج سامنے آئے ہیں اس پر بھی ایازا نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ساتھ ساتھ پی آئی اے کو 24روز کی توسیع دی گئی جو 17جون تک تھی پی آئی اے نے حکومت کی جانب سے فراہم کردہ جعلی اسناد پر آپریٹ کرنیوالے پائلٹس کو گرائونڈ کرنے کا اعلان کیا مگر ایازا کی تشویش کم نہ ہوئی اور یہ کہا گیا کہ اب پی آئی اے کے حکام پر انہیں اعتبار نہیں رہا پاکستانی حکام ملک کے اندر اور باہر سے پی آئی اے پر پابندی اور شہری ہوابازی کے وزیر کے غیر سنجیدہ بیانات جو تشویش اور غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اسے دور کرنے کے لیے پاکستانی حکام طفل تسلیاں دیکر خاموش کرانے کے لیے سرگرم عمل ہیں نہ کہ پی آئی اے کی اصلاح کے لیے کوئی قدم اٹھا کر ایازا کو مطمئن کیا جا سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی حکومت شوگر ‘ گندم ‘ پیٹرول مافیا کے درمیان گھری ہوئی ہے اور اسے اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں کہ پاکستان کے لیے وسیع پیمانے پر زر مبادلہ کمانے والی ائیر لائن کے طیارے گرائونڈ ہو گئے ہیں پہلے پاکستانی تارکین وطن مہنگے ترین ٹکٹوں کے باوجود پی آئی اے پر سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے جو اب لگتا ہے ایک خواب بن گیا ہے ۔