ذخیرہ اندوزی روکیں!

July 08, 2020

وزیراعظم عمران خان کا اعلیٰ حکام کو ایک بار پھر یہ حکم دینا کہ گندم آٹے اور چینی کی ذخیرہ اندوزی روکنے کیلئے سخت کارروائی کی جائے اور تمام چیف سیکرٹری ملک بھر میں خوردنی اجناس اور اشیا کی قیمتوں کو سرکاری قیمتوں سے ہم آہنگ کریں، اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ ذخیرہ اندوز اور منافع خور حکومتی کوششوں کے باوجود ان ضروری اشیا کا مصنوعی بحران پیدا کرکے انہیں مہنگے داموں بیچنے کے مکروہ دھندے سے باز نہیں آتے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی لانے کے اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے بلائے گئے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے حکام کو سختی سے ہدایت کی عوام کو آٹا چینی اور دوسری ضروری اشیا پرانی قیمتوں پر ملنی چاہئیں۔ یہ اجناس اور ضروری اشیا صرف ضرورت کے مطابق ذخیرہ کی جائیں اور منافع خوری کیلئے ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی اختیار کی جائے۔ اجلاس میں پنجاب کے چیف سیکرٹری نے بریفنگ دی کہ وزیراعظم کی ہدایت اور ٹائگر فورس کی خفیہ اطلاعات پر پنجاب میں چھاپے مار کر ایک ارب دس کروڑ روپے کی 16ہزار ٹن سے زائد ذخیرہ کی گئی چینی برآمد کی گئی جو شوگر ملوں اور پرائیویٹ مافیا نے چھپا رکھی تھی۔ اس کے علاوہ 716ٹن گندم اور 2ہزار ٹن چاول کا ذخیرہ بھی برآمد کیا گیا۔ غلہ اور دوسری ضروری اشیائے خوردنی کی اس نیت سے ذخیرہ اندوزی کہ جب ان چیزوں کی قلت پیدا ہوگی اور یہ مہنگی ہو جائیں گی تو انہیں گوداموں سے باہر نکال کر فروخت کر دیا جائے گا قانون کے تحت جرم ہے اور اسلام نے بھی اس کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے احتکار یا ذخیرہ اندوزی حرام ہے اور اس قابلِ نفرین فعل میں مبتلا ہونے والا شخص شریعت کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ ہے۔ حضرت معمر کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص احتکار کرے وہ گنہگار ہے جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضورﷺ نے فرمایا، ایسا شخص ملعون ہے۔ اسی طرح ملاوٹ کرنے، ناپ تول میں کمی، عیب والا مال بغیر بتائے بیچنے اور جھوٹی قسم کھا کر مال فروخت کرنے والے کیلئے بھی اسلام میں سخت وعیدوں کا ذکر ہے۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے ذخیرہ اندوزی کو ناپسندیدہ فعل قرار دیتے ہوئے اس کے روک تھام کیلئے سخت اقدامات کا حکم دیا تھا۔ آئینی اورقانونی طور پر ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری مستوجب سزا فعل ہے۔ اسلام اور آئین کی روشنی میں حرام اور جرم ہونے کے باوجود لالچ حرص و طمع کے مارے ہوئے لوگ رمضان شریف، عیدین اور اس طرح کے دوسرے خاص مواقع کے لئے چیزیں ذخیرہ کر لیتے ہیں اور وقت آنے پر مہنگے داموں بیچ کر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں حالانکہ دوسرے ملکوں میں ایسے مواقع پر عوام کے لئے خصوصی رعایتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پیسہ کمانے کے لئے ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے جو اخلاقی پستی کی انتہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل آٹے اور چینی کا جو بحران آیا تھا جس کی اب تحقیقات ہو رہی ہے اسی اخلاقی پستی کا نتیجہ ہے اور وزیراعظم کا یہ عزم بجا ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ انتظامیہ کو چاہئے کہ منافع خوروں پر کڑی نظر رکھے اور انہیں کسی چیز کی ذخیرہ اندوزنی نہ کرنے دے۔ خاص طور پر آٹے اور چینی کی عوام کو بلا تعطل اور سرکاری نرخ پر فراہمی یقینی بنائے جسے حکومت اپنی اولین ترجیح قرار دے رہی ہے۔ماضی کی طرح یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری میں ملوث عناصر اپنے خون پسینے سے غلہ اگانے والے کاشتکاروں کو جائز منافع سے محروم رکھیں اور عام آدمی کو بھی زائد قیمت پر آٹا خریدنے پر مجبور کریں۔ توقع ہے کہ اس معاملے میں عوام دوست رویہ اپنایا جائے گا۔