جے آئی ٹی رپورٹس

July 08, 2020

سندھ حکومت کی جانب سے پبلک کی جانے والی سانحہ بلدیہ ٹائون سمیت عزیر بلوچ اور نثار مورائی کے معاملات پر بننے والی جے آئی ٹی رپورٹس میں کئے گئے انکشافات جہاں ملکی سلامتی و امن کو درپیش خطرات کے حوالے سےمختلف تشویشناک پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں وہیں یہ بات بھی واضح طور پر عیاں ہوتی ہے کہ کس طرح محکموں میں سیاسی مداخلت و اثرورسوخ جیسی قباحتیں ملکی انتظامی ڈھانچے کوکمزور کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ بلدیہ ٹائون سانحہ پر 27صفحات پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بلدیہ فیکٹری کا واقعہ آتشزدگی نہیں دہشت گردی تھا، اگست 2012میں ایم کیو ایم کے عہدیدار حماد صدیقی نے اپنے فرنٹ مین رحمٰن بھولا کے ذریعے فیکٹری مالک سے 20کروڑ روپے کا بھتہ مانگا،بھتہ نہ ملنے پرفیکٹری کو آگ لگادی گئی اور اس طرح صرف اپنے مفاد کیلئے کئی سو جانوں کو اذیت ناک موت سے دوچار کردیا گیا۔رپورٹ میںدہشت گردی ایکٹ کے تحت واقعہ کی نئی ایف آئی آر درج کرنےکی بھی سفارش کی گئی ہے۔ 36صفحات پر مشتمل دوسری جے آئی ٹی رپورٹ میں لیاری کے گینگسٹر عزیر بلوچ کے 198افراد کے قتل سمیت کئی جرائم میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ جبکہ9صفحات پر مشتمل تیسری رپورٹ سابق چیئرمین فشریز نثار مورائی سے متعلق ہے ۔بتایا گیا ہے کہ نثار مورائی نے محکمہ فشریز میں 50سے 200جعلی ملازمین بھرتی کیے،بھتہ وصولی کے ساتھ ساتھ بھاری رشوتیں بھی لیں۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیرعلی زیدی کی جانب سے بھی مذکورہ تینوں معاملات پر تیار کی گئی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹس جاری کرنے کیلئے عدالت عالیہ سے درخواست کی گئی تھی۔ اب جبکہ یہ رپورٹس جاری کردی گئی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی محاذ آرائی اور الزام تراشی سے بچتے ہوئے رپورٹس کے مندرجات پر کارروائی کرکے تمام ملوث کرداروں کے خلاف فوری ایکشن لینے کیلئے حکمت عملی وضع ہونی چاہئے۔