الجزائر۔ 15 لاکھ شہدا کی روحیں خوش

July 08, 2020

فرانسیسی سامراج بالآخر ہار گیا۔ افریقی امریکی جارج فلائیڈ کا خون رنگ لے آیا۔ سامراجی نشانیوں کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والی جدوجہد نے انتہائی طاقتور فرانسیسی استعمار کو بھی مجبور کردیا۔ جمعہ 3جولائی الجزائر کے باشعور اور جدوجہد کے عادی عوام کے لیے ایک تاریخی دن تھا۔ جب 171سال پہلے آزادی کے لیے اپنی جان قربان کرنے والوں کی باقیات پیرس سے الجزائر واپس آرہی تھیں۔

ایک فوجی طیارہ شہیدوں کی یہ قیمتی باقیات لے کر الجزائر کی فضائی حدود میں داخل ہو رہا تھا جہاں کڑی دھوپ کے باوجود الجزائر کے صدر وزراء اور عوام اپنے جان نثاروں کے خیر مقدم کے لیے سر بلند مگر آنکھیں نم لیے کھڑے ہیں۔ صدر عبدالمجید نیون ایک ایک تابوت کے پاس جاکر جھک کر سلام کررہے ہیں، فاتحہ پڑھ رہے ہیں۔

یہ 24مجاہدین آزادی کے وہ سر ہیں جو جھکے نہیں۔ کٹ گئے تھے۔ فرانس جو ویسے اپنی فنون لطیفہ سے محبت، مصوری سے لگن، شاعری سے الفت، فلسفے سے یگانگت کے لیے مشہور ہے۔ انقلاب فرانس کے ہم سب گُن گاتے ہیں لیکن یہ دو تین صدیوں سے افریقہ میں جس درندگی۔ استبداد اور شقاوت کا مظاہرہ کررہا تھا۔ یہ اہلِ افریقہ سے پوچھیں ان کی شاعری میں ناولوں میں ملاحظہ کریں۔

باقیات کی واپسی کیلئے پہلے الجزائر کے دانشور، مورخ اور محققین مطالبہ کرتے آرہے تھے۔ حکومت نے اس کے لیے باقاعدہ آواز 2018میں بلند کی۔ ان 24پیاروں میں شیخ یوزیان، محمد لمجہ بن عبدالمالک اور مختار بھی شامل ہیں۔ جن کی بہادری کی کہانیاں مائوں کی زبانی الجزائر کی نسلیں انیسویں صدی سے سنتی آرہی ہیں۔

یہ 24حریت پسند بہت ہی ظالمانہ طریقوں سے شہید کیے گئے تھے۔ ان کی مزاحمت کو روکنے کے لیے ہزاروں فرانسیسی فوجی الجزائر پر مسلط کیے گئے۔ انہیں گرفتار کیا گیا۔ پھر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی۔ اس کے بعد سر دھڑوں سے الگ کیے گئے۔ اور یہ کھوپڑیاں پیرس کے Museum of Man میں فرانسیسی فوج نے Trophisکے طور پر برسوں سے سجائی ہوئی تھیں۔ الجزائر کی جنگِ آزادی کے بعد پیدا ہونے والے ایمانویل میکرون فرانس کے صدر منتخب ہوئے تو پہلی بار فرانسیسی ضمیر نے اپنے سامراجی نظام کا اعتراف کیا۔ صدر نے کہا ’’ نو آبادیاتی نظام سنگین غلطی تھی۔

انسانیت کے خلاف جرم‘‘ لیکن انہوں نے الجزائر کے عوام سے معافی نہیں مانگی۔جمعہ 3جولائی کو جنگ آزادی کے یہ 24ہیرو اسی سر زمین پر لوٹ آئے جس کے لیے انہوں نے اپنی جانیں نثار کی تھیں۔ ہفتہ 4جولائی کو تاریخ کے یہ اوراق قصرِ ثقافت Palace of Culture میں زیارت کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ جہاں پورے الجزائر سے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے خلقت امڈ آتی ہے۔ پھر اتوار 5جولائی الجزائر کے یوم آزادی پر گرانمایہ امانتیں شہدا چوک لے جاکر الجزائر کے شہیدوں کے عظیم قبرستان میں سپرد خاک کی جاتی ہیں۔

جنگ آزادی تو 1830میں قبضے سے ہی شروع ہو گئی تھی لیکن 1952سے 1962تک جاری رہنے والی جدو جہد میں 15لاکھ الجزائریوں نے جان کے نذرانے دیے تھے۔ آپ کو بھی یاد ہوگا بچپن سے ہی ہم آزادی کی تین تحریکوں کی کہانیاں سن کر جوان ہوئے۔ اور جوانی میں بھی کشمیر فلسطین اور الجزائر کے عوام کو بھارتی۔

اسرائیلی اور فرانسیسی استعمار سے پنجہ آزما دیکھا۔ فلسطین اگر چہ ایک مملکت بن گیا ہے مگر مکمل مختار نہیں ہے۔ الجزائر کے عوام نے لازوال قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی۔ مگر اپنے مقامی استعمار کے خلاف وہ آج بھی بر سرپیکار ہیں۔ کشمیری تو اس وقت تاریخ کے سفاک ترین دَور سے گزر رہے ہیں۔

بلند قامت۔ خوبصورت بن باللہ یاد آتے ہیں۔ جن کی سربراہی میں جنگ آزادی کے آخری مراحل طے کیے گئے۔ فرانس کا ایک فلسفی۔ ایک ادیب ژاں پالی مارتر بلاخوف الجزائر کی آزادی کے لیے آواز بلند کرتا رہا۔ جنرل ڈیگال سے اس کی گرفتاری کی اجازت مانگی گئی مگر اس نے تاریخی جملہ ادا کیا۔’’ سارتر تو فرانس ہے۔ میں اسے کیسے گرفتار کرسکتا ہوں۔‘‘ افسوس دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت میں کشمیر کی آزادی کے لیے آواز اٹھانے والا سارتر کسی ماں نے نہیں جنا ہے۔ایک ستم ظریقی یہ ہے کہ یورپی سامراجوں سے نجات حاصل کرنے والی قوموں میں سے کسی کو بھی ’آزادیٔ کامل‘ نصیب نہیں ہوئی ہے۔

الجزائر میںبھی مقامی استعمار سے لڑائی جاری ہے۔ یہاں ’پیپلز نیشنل آرمی‘ نے چونکہ برسوں الجزائر کو آزاد کروانے کیلئے جنگ لڑی۔ اس لیے وہ حکمرانی پر بھی اپنا حق سمجھتی ہے۔ وہ زمینی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملکی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ بھی اپنی ذمہ داری خیال کرتی ہے۔

جب یہ تاریخی لمحات رُونما ہورہے تھے ان دنوں میں بھی الجزائر کی سڑکوں پر مکمل سویلین حکمرانی کے لیے لاکھوں کی تعداد میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ جہاں بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ ’’ ہم ایک سویلین حکومت چاہتے ہیں۔ نہ کہ فوجی حکمرانی۔‘‘ آرمی چیف اس کے جواب میں کہتے ہیں ۔’’ فوج نے اب تک جو کچھ کیا ہے وہ مادر وطن کے عظیم تر مفادات میں کیا ہے۔‘‘ قریباً دو دہائیاں حکمرانی کرنے والے صدر بوتفلیقہ نے اپنے دَور میں فوج کو غیر جانبدار کرنے کی کسی حد تک کامیاب کوششیں کی تھیں۔

لیکن پھر ان کو ہٹانے میں اپوزیشن نے فوج کا ساتھ دیا۔ اب سیاسی طور پر صورتِ حال یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں بہت کمزور ہیں۔ بکھری ہوئی۔ اور مختلف الزامات کی زد میں۔ لیکن الجزائر کے عوام نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ صدر بوتفلیقہ جب 1971میں وزیر خارجہ تھے۔

کراچی ایئرپورٹ پر مجھے ان سے ملاقات یاد ہے۔ الجزائر دوسرے مسلمان ملکوں کی طرح انتہا پسندوں کی زد میں بھی رہا۔ الجزائری اپنے ہی بہن بھائیوں کو مارتے رہے۔ جیسے پاکستان میں بھی دو تین دہائیاں ایسی گزری ہیں۔جمعہ ہفتہ اتوار۔ الجزائر کی جدو جہد آزادی کے 15لاکھ شہدا کی روحیں کتنی خوش ہوئی ہوں گی۔

لیکن ابھی بہت سی باقیات اور اس طویل جنگ حریت کی ہزاروں نشانیاں اب بھی فرانس کے پاس ہیں۔ محققین اور مورخین کا مطالبہ ہے کہ وہ سب واپس کی جائیں۔

آزادیٔ کامل کا ایک مرحلہ ان 24باقیات کی واپسی سے طے ہوا۔ 1962 میں جیسے فرانس سے معاہدہ کرکے الجزائر آزاد ہوا تھا اللہ کرے اب مقامی سامراجوں سے بھی معاہدہ اور مفاہمت ہو۔ پھر ہمارے الجزائری بھائی مکمل آزادی سے ہمکنار ہوسکیں۔