حی علی الفلاح۔ حی علی الفلاح

July 08, 2020

دنیا بھر کے پروفیسروں کا ایک بڑا اور بالعموم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی سنجیدہ موضوع پر ابلاغ کرتے ہوئے کسی اطرافی موضوع (جو ان کی دلچسپی کا ہو یا اس پر وہ انفارمیشن رچ ہوں) کو ٹچ کرتے ہوئے ادھر ہی پھسل جائیں تو ’’فوکس‘‘ سے ہٹتے چلے جاتے ہیں۔ پھر انہیں عوام الناس سے مخاطب ہونے پر بھی اصل موضوع (فوکس) کے بیک گرائونڈ کی تفصیل میں جانے کی عادت ہوتی ہے، وہ کلاس روم کے طلبہ کے لئے تو ایک بڑی ضرورت ہوتی ہے، لیکن عوام الناس کو مدعا پہنچانے میں بھی یہی ہو تو بھی فوکس سے ہٹ جاتے ہیں لیکن یہ ہوتا ہے یوں ابلاغ کا اثر محدود ہو جاتا ہے۔

سو آج کے ’’آئین نو‘‘ کا آغاز ہی اس کے باٹم لائن (لب لباب) سے کیا جا رہا ہے، موضوع کی بنیاد ناچیز کی جان سے پیاری اسلامی جمہوریہ (موجود نہیں مطلوب) کے عملاً استحکام اور نظریے کے یقینی تحفظ سے ہے۔ لگ یوں رہا ہے جو روز بروز واضح ہو رہا ہے کہ پوری دنیا ایک جنگ کی لپیٹ میں آ چکی، جسے شروع کرنے والے طویل تر کرنے کے لئے جان لڑا دیں گے۔ ان کی جیت اور ہار کا انحصار اسی پر ہے کہ وہ اسے کتنا پھیلاتے اور پھیلا کر کتنا طویل کرتے ہیں۔ یوں بین الاقوامی تعلقات عامہ کی ایک مطلوب اور (ساز گار) شکل بن چکی جسے سمجھنا ہماری فوری قومی ضرورت بن گیا ہے۔ شروع ہوئی ’’عالمی جنگ‘‘ کے دوسرے مرحلے کی خبریں سوشل میڈیا پر ہی نہیں حقائق واضح نہ ہونے پر مین اسٹریم میڈیا میں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں۔ اس ہی سے ناچیز کی پاکستان متعلق مستقبل قریب کی Visualizationکو تقویت مل رہی ہے اور نوبت اسی کو ’’آئین نو‘‘ کا موضوع بنانے تک آ گئی۔ وگرنہ تو اس (آئین نو) کے موضوعات کا منبع خبر بننے والے حالات حاضرہ کے واقعات ہی ہوتے ہیں۔

حالات بہت تیزی سے اس طرف جا رہے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات پر اقوام کا انحصار کم ہوتا جائے گا، لیکن اکثر ممالک کا طبعی (قدرتی) رنگ و روپ ایسا ہے کہ بہترین انسانی وسائل ہونے کے باوجود، ان کو اپنی خود انحصاری مطلوب معیار زندگی کے لئے قائم کرنا محال ہو گا۔ لیکن پاکستان اِس اعتبار سے آئیڈیل حد تک خوش قسمت ہے۔ جبکہ غالب حد تک دنیا میں حالات ایسے پیدا کر دیئے جائیں گے کہ مختلف النوع تیز تر انٹرنیشنل ٹریفک محدود اور محتاط کرنا شاید ہر قوم کی ہی ضرورت بن جائے۔ واضح رہے کہ اب تک ایک سے بڑھ کر ایک تباہ کن اور دفاع کے اسلحے کو بھی ضرورت کے طور پر قائم رکھا جائے گا، اور بوقت ضرورت اس کو استعمال میں لا کر بڑے بڑے قومی اور ’’باہمی‘‘ مفادات کو حاصل کرنے کا ’’شیطانی کھیل‘‘ بھی ختم نہ ہونے دیا جائے گا۔ اقوام کے طاقتور اور محفوظ ہونے کا انحصار ہیومن سکیورٹی اور بارڈر سکیورٹی کے مطلوب توازن کو برقرار رکھنے پر ہو جائے گا۔ بین الاقوامی علاقائی اور دو طرفہ معاہدے، تعاون اور فروغ انسانیت کے پُر کشش منشور اور عالمی امن و خوشحالی کے ادارے سب کاغذی ہو چکے، اِن کی رہی سہی توقیر کا مکمل خاتمہ خارج از امکان نہیں۔ ہم مزاج اور باہمی مفادات کے لئے جغرافیائی سرحدوں کی Connectivity بین الاقوامیت کی محدود لیکن زیادہ موثر شکل اختیار کر لے گی۔ چونکہ ’’ہیومن سکیورٹی‘‘ بیرونی دشمنوں کا سرحدوں سے زیادہ بڑا اور اصل ہدف ہو گا، اِس لئے ’’دفاع وطن‘‘ اور سلامتی کو یقینی بنانے کے تقاضے بدل کر انحصار عسکری طاقت اور سول سوسائٹی کے آئیڈیل باہمی اور مسلسل عملی تعاون کے مطلوب توازن کو قائم کرنے پر ہو جائے گا۔

لازم ہو گیا ہے کہ ہم اس تلخ حقیقت کو بطور قوم مان جائیں کہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ (نظام بد) نہیں ٹوٹا اور نہ ملک میں کوئی مطلوب تبدیلی برپا کرنے کی کوئی طاقت موجود ہے۔ اس کے لئے ہمیں ملک کے موجود متفق آئین کو برقرار رکھتے ہوئے ہی ایک ’’قومی معاہدے‘‘ پر متفق ہونا ہو گا، جس کے لئے ایک ہائی کیپسٹی کے با اعتبار Intellectualفرنٹ کا قیام ناگزیر ہو گیا ہے مزید (1) ملکی وسائل کے مطابق بلا تاخیر خوراک کی آسان دستیابی، تعلیم و صحت کی سستی اور آسان فراہمی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان کی اقتصادی حالت کی بنیاد پر مہیا کرنا۔ (2) ایک متفقہ قومی ایجنڈے کی تیاری ناگزیر ہو گئی ہے۔ (3) زراعت و خوراک میں وسعت، اس کے معیار میں اضافے اور عوام الناس میں دستیابی پر مبنی پالیسی (4) ضائع ہونے والے پانی کی چھوٹی بڑی ذخیرہ بندی کا اہتمام (5) ہائیڈل پاور کے چھوٹے بڑے منصوبوں کا قیام (6) تیل اور معدنیات کے لئے ماہرین ارضیات اور مطلوب انسانی وسائل پر مشتمل ایک الگ باصلاحیت اور سرگرم ’’فوج‘‘ منظم کرنے کی ضرورت (7) ایگرو بیسڈ انڈسٹری اور فوڈ ٹیکنالوجی پر مشتمل فوری عملدرآمد کی حامل پالیسی کی تیاری (8) میڈیا کا مزید فروغ، اِس کی موجود پیچیدگیوں کو بلاتاخیر ختم کرنے، اِس کا رخ عوام الناس کے موجود بیمار رویے کی مطلوب تبدیلی اور مطلوب کی تشکیل کے لئے بغیر حکومتی ہدایت کے قومی میڈیا ایجنڈے کی طور موڑنا، لیکن اس کے لئے گورنمنٹ میڈیا بری طرح ڈسٹرب ہوئے۔ تعلقات کو ضرورت کے مطابق قائم اور سیٹ کرنا (9) اہل سیاست کے اختلاف و تنقید کے آئینی حق کو عملاً تسلیم کرتے ہوئے ماحول اور روا داری کے نئے کلچر کی تشکیل سے حساس قومی ضروریات پر متحد و متفق ہونے کا حقیقی جذبہ پیدا کرنا، قوم و ملک کے استحکام اور تحفظ کا ناگزیر ایجنڈا واضح ہو کر شدت سے منتظر ہے کہ مجھے کب اور کون ایڈریس کرتا ہے۔ یہ وقت کا تقاضا ہی نہیں، بلکہ انتباہ ہے اور سب کچھ الارمنگ۔ فوری اس طرف آنے میں ہی ہماری فلاح اور تحفظ ہے۔ حی علی الفلاح۔ حی علی الفلاح۔