پانی پرجنگ کے امکانات

July 09, 2020

خبر آئی ہے۔ ’’پاکستان نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی یا دریائے چناب اور دریائے نیلم پر متنازع ڈیموں کی تعمیر جاری رکھی تو پاکستان اس بات کا حق محفوظ رکھتا ہے کہ تین ماہ کے اندر اندر متعلقہ عالمی اداروں سے رجوع کرکے کاروائی عمل میں لائے۔‘‘ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت نے حسب معمول حسب عادت اور حسب روایت نئی دہلی میں ہونے سالانہ اجلاس میں ڈیم بنانے والی جگہوں کا معائنہ کرانے کا مطالبہ مسترد کردیا۔ پاکستان نے بھارت کو وارننگ دی ہے کہ وہ پن بجلی منصوبے پر ہونے والے اختلافات تین ماہ کے اندر طے کرے بصورت دیگر یہ معاملہ سندھ طاس معاہدے کی دفعہ B(2)IXکے تحت عالمی ماہرین کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو دریائے جہلم، دریائے چناب اور دریائے سندھ کے پانی کے تمام حقوق حاصل ہیں۔ ایوب خان اور پنڈت نہرو کے درمیان ہونے والے اس معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ فریقین (پاک و بھارت) کا سال میں کم از کم ایک بار مل بیٹھنا ضروری ہے۔ بھارت کو ملنے والے پانی میں سندھ طاس کے مشرقی دریائوں ستلج بیاس اور راوی کے پانی کے استعمال کا حق حاصل ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان کا کل زیر کاشت رقبہ 35 ملین ایکٹر ہے جس میں دریائے جہلم اور دریائے چناب سے ملحقہ علاقوں کا زیر کاشت رقبہ 13 ملین ایکٹر کے قریب ہے۔ ان ماہرین کے مطابق موجودہ حالات میں پاکستان کو دفاعی اور اقتصادی طور پر بچانے کی واحد دفاعی لائن کشمیر ہے۔ بھارت جب چاہے پاکستان کو اقتصادی مسائل کے حوالے سے ’’ایتھوپیا‘‘ بناسکتا ہے۔ اس لئے کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ شہہ رگ ہے۔ بھارت کی موجودہ حکمراں جماعت بی جے پی اور اس کے انتہاپسند لیڈر اور فرقہ پرست رہنمائوں نے سب سے پہلے سندھ طاس معاہدہ منسوخ کردینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن پاکستان کا واضح موقف کو دیکھتے ہوئے انہیں خاموشی اختیار کرنا پڑی۔موجودہ حالات میں فی الحال جنگ ہونے کا امکان نہیں ہے۔ کارگل جیسے واقعات بھلے ہی دہرائے جائیں لیکن مکمل جنگ کا امکان ابھی نہیں ہے اور ان دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑنے کا امکان تو تقریباً صفر ہے لیکن مستقبل میں پاکستان و بھارت کے درمیان جھڑپیں ہونے کے امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جھڑپیں مختلف معاشی مفادات، قدرتی وسائل پر قبضہ اور پانی کے لئے ہونگیں۔ گزشتہ سال ہونے والی سندھ طاس کمیشن کی سالانہ میٹنگ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے اس میٹنگ میں پاکستان کے چھ ماہرین نے حصہ لیا۔ یہ میٹنگ ایسے حالات میں ہوئی جب سرحدوں پر حالات اشتعال انگیز ہیں اور بھارت کے متعدد مرکزی وزراء آر ایس ایس کے لیڈر دفاعی ماہرین اور فرقہ پرست جماعتیں کھلم کھلا یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ ہمیں یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ توڑ کر پاکستان کو پانی کی سپلائی بند کردینی چاہئے۔ ان کا خیال ہے کہ بلکہ خام خیال ہے کہ پاکستان کو کشمیر پر جھکنے کیلئے مجبور کرنے کا پانی کی سپلائی بند کرنے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں پاکستان میں بہنے والے پانچ بڑے دریائوں کا رخ بحر عرب کی طرف ہے اور یہ صدیوں سے اسی ڈگر پر بہہ رہے ہیں۔ ان کا موڑنا، روکنا یا بند بنانا کسی طور بھی ممکن نہیں کہ 1960ء کے معاہدے کے تحت پاکستان کو ان کے پانیوں کا مکمل حق حاصل ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بھی اس معاہدہ کی عمل داری پر کوئی حرف نہیں آیا تھا لیکن آج جنگ کے بغیر ہی اس معاہدہ پر یکطرفہ روک ٹوک کی تلوار لٹک رہی ہے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان و بھارت کشمیر پر چاہے نہ لڑیں پانی پر ضرور لڑسکتے ہیں جب ہم نے تین دریائوں ستلج بیاس اور راوی پر بھارت کا حق تسلیم کر رکھا ہے تو بھارت کو کیا حق پہنچتاہے کہ وہ ہمارے حصے میں آنے والے تین دریائوں سندھ، چناب اور جہلم پر روک ٹوک لگانے کا سوچے۔ میرے حساب سے اسے یہاں منہ کی کھانا پڑے گی۔ ماہرین آب نے اس بات کا بھی تجزیہ کیا ہے کہ بھارت نے اگر چھیڑ چھاڑ کے ذریعے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا انتہائی قدم اٹھایا یا پاکستان کا پانی بند کیا تو نہ صرف یہ کہ فوری طور پر اسے اقدام کا کوئی ٹھوس فائدہ نہیں ہوگا بلکہ وہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی ہوجائے گا کہ کسی ملک کا پانی بند کرنا عالمی قانون کے مطابق بذات خود ایک عمل جنگ Act of War ہے۔ اس لئے میں اپنی اس امید میں حق بجانب ہوں کہ دونوں ملکوں میں جنگ ہو یا نہ ہو کم از کم بندش آب یا یا منسوخی آب جیسی غیر انسانی صورت حال نہیں ہونے دی جائے گی۔

ہم بھی کرلیں جو روشنی گھر میں

پھر اندھیرے کہاں قیام کریں