شوگر ملز ایسوسی ایشن کی انٹرا کورٹ اپیل قابل سماعت قرار

July 09, 2020


اسلام آباد ہائیکورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کے خلاف شوگر ملز ایسوسی ایشن کی انٹرا کورٹ اپیل قابل سماعت قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جب انکوائری کمیشن کام کر رہا تھا اس وقت شوگر ملزنے تشکیل پر اعتراض کیوں نہ کیا؟ چینی کمیشن پر جس وقت اعتراض کرنا تھا اس وقت کسی نے بھی نہیں کیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامرفاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے چینی انکوائری کمیشن کے خلاف شوگر ملز ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت کی ۔

درخواست کی سماعت کے دوران شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان اور سلمان اکرم راجا عدالت میں پیش ہوئے ،ایسوسی ایشن نے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر رکھی ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ شوگر کمیشن کی رپورٹ کو ہم نے چیلنج کیا ہے، جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کہ کیا سنگل بینچ کا ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا؟

وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے بتایا گیا کہ 20 جون کو مختصر فیصلہ آیا لیکن تفصیلی فیصلہ جاری نہیں ہوا ہے، شوگر ملز کمیشن کی گزٹ کاپی ابھی تک جاری نہیں ہوئی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھرنے کہا کہ ایسا نہیں ہے، کمیشن کا نوٹی فکیشن گزٹ پبلش ہوچکا ہے، 6 اور 7 جولائی کو نوٹی فکیشن گزٹ پبلش ہوئے ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم نے معاملے پر ایک ایڈہاک کمیٹی بھی بنا رکھی تھی، ایڈہاک کمیٹی جن ٹی او آرز پر کام کر رہی تھی کمیشن نے بھی تقریباً انہی پر کام کیا، ایڈہاک کمیٹی نے شوگر ملزسے متعلق ایک رائے پہلے دے دی تھی، پھر اُسی ایڈہاک کمیٹی کی سفارش پر ہمارے خلاف کمیشن بھی بنادیا گیا۔

وکیل شوگر ملز نے عدالت میں کہا کہ شوگرکمیشن نے ایڈہاک کمیٹی کی باتوں کو زیادہ بڑھا کر مزید منفی رنگ میں پیش کیا ہے،کمیشن میں ابتدائی طور پر 6 ممبران شامل کیے گئے تھے، رپورٹ سامنے آئی تو اس پر 7 ممبران کے دستخط موجود تھے۔

وکیل مخدوم علی خان نے عدالت میں کہا کہ ہم نے ایک رکنی بینچ کے سامنے یہ معاملہ 19 جون کو اٹھایا تھا، 20 جون کو جواب میں حکومت نے ساتویں ممبر کی شمولیت کا نوٹی فکیشن پیش کر دیا، ہم اس حکومتی نوٹی فکیشن پربحث کرنا چاہتے تھے کہ یہ نوٹی فکیشن پہلے کہاں تھا؟

وکیل شوگر ملز کے مطابق ہم نے سنگل بینچ سے بحث کیلئے وقت مانگا لیکن ہمیں وقت نہیں دیا گیا اور سنگل بینچ نے اسی دن درخواستوں پر فیصلہ بھی سنا دیا۔

جسٹس عامر فاروق نے موقف سننے کے بعد کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شوگرانکوئری کمیشن قانون کے مطابق تشکیل نہیں دیا گیا؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ہم ایسا ہی کہہ رہے ہیں، انکوائری کمیشن نے کام پہلے شروع کیا، نوٹی فکیشن بعد میں جاری ہوا۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نوٹی فکیشن تو پچھلی تاریخوں سے موثر نہیں ہوسکتا، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آرمی چیف کا نوٹی فکیشن ان کو دو 3 بار میں جاری کرنا پڑتا ہے تو اہلیت کا اندازہ لگا لیں۔

وکیل شوگر ملز مخدوم علی خان نے عدالت میںکہا کہ روز وفاقی وزراء مغل بادشاہوں کے انداز میں پریس کانفرنس کرتے رہے۔

جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ رپورٹ کابینہ کے سامنے کب پیش کی گئی تھی؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ 21 مئی کو رپورٹ پیش کی گئی اور اسی دن منظور بھی ہوگئی۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ حکومت نے رپورٹ پبلک کرنے کا کہا، پبلک کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کیا رپورٹ پبلک کرنے کا مطلب رپورٹ میڈیا کو دینا ہے؟

وکیل شوگر ملز نے بتایاکہ رپورٹ پبلک کرنے کا مطلب اسے گزٹ آف پاکستان میں شائع کرنا تھا، ہمارے کیس میں لیکن اسے میڈیا کو دیکر ہی پبلک کیا گیا، کردارکشی کی گئی، حکومت نے ایک ہی دن میں رپورٹ آنے کے بعد معاون خصوصی کی ڈیوٹی لگا دی اور انہیں رپورٹ پر عملدرآمد کرنے کا کہہ دیا۔

عدالت نے سوال کیا کہ کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن اگر گزٹ آف پاکستان میں شائع نہ ہوتو اثر کیا ہوگا؟ کیا نوٹی فکیشن بروقت شائع نا ہونے سے کمیشن غیرقانونی ہوجائے گا؟

اس سوال کے جواب میں شوگر ملز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ جب نوٹی فکیشن شائع ہوگا اس کے بعد ہی موثر ہوگا، حتمی نوٹی فکیشن تو حکومت کی جانب سے بعد میں آفیشل گزٹ میں شائع ہوئے، اس کا مطلب یہی ہے کہ جب کمیشن نے کام کیا اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔

جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیاکہ جب انکوائری کمیشن کام کر رہا تھا اس وقت شوگر ملزنے تشکیل پر اعتراض کیوں نہ کیا؟ کیا انکوائری کمیشن نے شوگر ملز میں سے کسی کو طلب کیا تھا؟

وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ انکوائری کمیشن کچھ ملز سے رابطہ کرتا رہا ہے، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ کمیشن پر جس وقت اعتراض کرنا تھا اس وقت کسی نے بھی نہیں کیا۔

جسٹس عامر فاروق نےشوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے دائر درخواست پر ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کی درخواست پر حکومت سے جواب مانگ رہے ہیں، ہم آپ کے نکات سے مطمئن ہیں، حکومتی موقف سننے کیلئے نوٹس جاری کررہے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ جواب دیں گے یا اٹارنی جنرل؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ہدایات لینے دیں اس کے بعد عدالت کو آگاہ کروں گا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو ابھی صرف نوٹس جاری کر رہے ہیں کی وہ نا کریں؟ کیا ہم صرف ایک فریق کو سن کر فیصلہ سنا دیں؟

عدالت نے کہا کہ آپ نے 16 مارچ والا نوٹی فکیشن ہمیں دکھانا ہے وہ شائع ہوا تھا یا نہیں، اگر نوٹی فکیشن قانون کے مطابق جاری تھا تو آپ کا کیس 4 منٹ میں ختم ہوجائے گا ۔

اس موقع پر وکیل مخدوم علی خان نے شوگر انکوائری رپورٹ معطل کرنے کی بھی استدعا کی جس پر عدالت نے کہا کہ اس معاملے کو ہم تحریری حکم نامہ جاری کرتے دیکھ لیں گے۔

اس ریمارکس کے ساتھ ہی عدالت نے کیس کی سماعت 15 جولائی تک ملتوی کردی۔