بارونق چہرے

July 10, 2020

سورہ الغاشیہ میں ان چہروں کا ذکر آیا ہے جو اپنی کارگزاری پر خوش اور اعلیٰ مقام جنت میں بلند مسندوں پر بیٹھے ہوں گے۔مجھے یقین ہے کہ ان میں پروفیسر ڈاکٹر قاری مغیث الدین شیخ کا چہرہ بھی شامل ہو گاکہ وہ عمر بھر اپنے رب کی خوشنودی کے لیے اس کے بندوں کی ذہنی اور فکری تربیت کرنےمیں کوشاں رہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت میں لیکچرار مقرر ہوئے، اپنی خداداد صلاحیتوں سے ڈائریکٹر کے منصب تک پہنچے اور شبانہ روز محنت اورجدتِ طبع سے، قدم قدم پر مزاحمتوں کے باوجود اسے عالمی معیار کے انسٹی ٹیوٹ کی شکل دینے میں کامیاب رہے۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس نے علومِ ابلاغِ عامہ کی وقعت اور اہمیت میں غیرمعمولی اضافہ کر دیا ہے۔اُن کی شخصیت کی سب سےبڑی خوبی یہ تھی کہ وہ طلبہ کے اندر چھپےہوئے جوہر کو جلا بخشتے،ان کے ساتھ شفقت سے پیش آتے، لیکن اُن کی تعلیمی کارکردگی کابڑی سختی سے جائزہ لیتےاوراس معاملےمیں کسی قسم کی رورعایت کےروادار نہیں تھے۔

پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد اُنھوں نے تین یونیورسٹیوں میں شعبۂ صحافت کو جدید بنیادوں پر استوار کیااور زندگی کے آخری لمحے تک وہ اپنے طلبہ اور طالبات میں پاکستان کی عظمت کی شمعیں فروزاںکیے رہے۔ جون کے آخری عشرے میں کورونا وبا ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ ان کے انتقال کی خبر سےبہت کچھ کھو جانے کا درد ہمہ گیر ہوتاگیاکیونکہ وہ بیش بہا قومی سرمایہ اور اپنی ذات میں بہت بڑا ادارہ تھے۔مزید برآں وہ نظریات کے بارے میں بھی بہت پرجوش اور بڑے پر عزم تھےاور پاکستان کے امیج کو داغدار کرنے والوں کو ہرگز معاف نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی آب بیتی میںا ن شخصیتوں کا بڑے والہانہ انداز میں ذکر کیا ہےجو آزادیٔ اظہار اور نظریۂ پاکستان کی جنگ بڑی پامردی سے لڑتے اور قید وبند کی صعوبتیں جھیلتےرہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند کرے اور ہمیں اُن کی خوبیاں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے!

کراچی سے ہمارے عزیز دوست جناب نصیر احمد سلیمی نے اطلاع دی کہ دوست محمد فیضی بھی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔وہ ایک سیلف میڈانسان،پاکستان کے ساتھ محبت کرنے والےایک اچھے مقرراور متانت سے بات کرنے والے سیاسی لیڈر تھے۔ دوست محمد فیضی جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں نوجوانوں کے نمائندے کی حیثیت سے سندھ حکومت میںمشیرِ اطلاعات مقرر ہوئے اور اُنھوں نے صحافیوں کا بارِگراں کم کرنے کےدوررس اقدامات کیے۔ بعد ازاںوہ مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے، مگر ایم کیو ایم کے عہدِ ستم نےان کی شرافت کا چراغ جلنے نہیں دیاجس پروہ گوشہ نشیںہو گئے۔اب دوبارہ فعال ہونےلگے تھے کہ کورونا وائرس نے اُنھیںموت کی وادی میں دھکیل دیا۔ یوں کتابِ متانت کا ایک اور ورق تمام ہوا۔ اُن کی خوبیوں کےہزاروں شناسا اُن کی مغفرت کے لیے دعاگو ہیں۔

ماحول کی سوگواری میں جامعہ بنوریہ کراچی کے مہتمِ اعلیٰ مفتی محمد نعیم کے دارِ فانی سے کوچ نےبے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ وہ اُن علما کی فہرست میںبہت نمایاں تھے جو بھائی چارے، باہمی خیرخواہی،ملی اِتحاد کا درس دیتے اور دِلوں کو جوڑے رکھتے ہیں۔ اُن کی جامعہ پاکستان کی بہترین درس گاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ اُن کی وفات سے فی الواقع بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے جسے شعلہ بیاں خطیب علامہ طالب جوہری کے انتقال نے مزید گہرا کر دیا ہے۔ علامہ صاحب اہلِ تشیع سے تعلق رکھتے اور اِتحاد بین المسلمین کےبہت بڑے داعی تھے۔مجلس کے اختتام پر بڑی رسائی سےکہتے ’’تم نے گریہ کیا، مجلس تمام ہوئی اور اب تو دامنِ وقت میں گنجائش بھی نہیں‘‘۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف تھے اور دِینی حلقوں میںعزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اُن کے اُٹھ جانے سے قحط الرجال کا احساس ذہنوں میں پیوست ہوتاجا رہا ہے۔ ہم اپنے رب سے اُن کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا کرتے ہیں۔

کورونا کے عہدِ فتن میں پاکستان کےنہایت معروف قانون دان اور ایک بڑے نڈر وکیل جناب اے کے ڈوگر بھی اپنے خالق کے حضور جا پہنچے ہیں۔ ہم نے 1960ء میں اُردو ڈائجسٹ کا اجرا کیا، تو وہ اس کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ اُنھوں نےایل ایل بی کے علاوہ انگریزی میں ماسٹرز کیا تھا۔وہ سالہا سال ناقابل فراموش تحریریں لکھتے رہے۔اسی دوران وہ اپنے پیشے کی طرف متوجہ ہوئے، تو اپنی ذہانت اور جرأتِ اظہار کے سبب پورے ملک میں پہچانے جانے لگے۔ اُنھوں نے وکلا کا ایک فورم تشکیل دیا تھا جو عوامی اہمیت کے معاملات اعلیٰ عدالتوں میں اُٹھاتا اور عدلیہ کی آزادی کا پرچم بلند رکھنے کی سعی کرتا تھا۔ جب کچھ غیرسیاسی طاقتیں سیاست کے ارتقا میں حائل ہونے کی خفیہ یا علانیہ کوشش کرتیں، تو جناب اے کے ڈوگر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور اپنے مضبوط دلائل سے آئین کی حکمرانی کی راہیں کشادہ کرتے رہتے۔ اُن کے رخصت ہو جانے سے عوام اپنے مفادات کےایک قابل اعتماد محافظ سے محروم ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کو منور رَکھے اور اُس پر شبنم افشانی کرے!

اِسی جاں لیوا وبا نے جناب مشتاق ہاشمی اور ہمارے درمیان موت کی ایک نا قابلِ عبوردیوار کھڑی کر دی ہے۔ وہ ہمارے محترم دوست جناب جاوید ہاشمی کے بھانجے تھے جو اِنکم ٹیکس میںچوٹی کے وکیل شمار ہوتے تھے۔ جاوید ہاشمی سے 1965ء میں تعلق پیدا ہوا ۔ بھٹو صاحب برسرِاقتدار آئے، تو اُنھوں نے اُردو ڈائجسٹ کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے لیے اِنکم ٹیکس کے افسروں کو احکام صادر کیے اور مقدمات کی یلغار کر دی۔جناب جاوید ہاشمی ایک چٹان کی طرح ہمارا دِفاع اور حکومت کاہر وار پسپا کرتے رہے۔ جاوید ہاشمی صاحب پر غصہ نکالنے کے لیے حکومت نے ہم دونوں بھائیوں کو ڈی پی آر کے تحت دو بارگرفتارکیا۔ جاوید ہاشمی کی وفات کے بعد جناب مشتاق ہاشمی نےدرست مشورے دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ صاف گوئی سے کام لیتےاور دینی تقاضوں کا خاص خیال رکھتےتھے۔ شعروادب سے لگاؤ نے ان کی شخصیت میں بڑی شگفتگی پیداکر دی تھی۔ ہم اُن کے پس ماندگان کے غم اور آزمائش میں پوری طرح شریک ہیں اور اپنے رب کے حضور دعاگو ہیں ۔