اُمید کا سفر جاری رہتا ہے

July 10, 2020

پاکستان میں کہنے کو جمہوریت کا پرچار بہت ہے۔ چند دن پہلے تک جب بجٹ کے بارے میں قیاس اور گمان زوروں پر تھا۔ ملک بھر کے بہترین صحافی حضرات کا خیال تھاکہ کپتان عمران خاں کی سرکار بجٹ کے معاملہ پر سرنگوں ہو جائے گی۔دوسری طرف اپوزیشن کے لوگ بہت دعوے کرتے نظر آ رہے تھے۔ پھرکپتان عمران خان کے اتحادی عطا اللہ مینگل نے فیصلہ دے دیا کہ وہ عمران خان کی مخلوط سرکار میںاب ان کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ ان کے اعلان کے فوراً بعد مسلم لیگ نواز کے مریم گروپ نے ان سے رابطہ شروع کیا اور دوسری طرف پیپلز پارٹی کے بلاول زرداری بھٹو گروپ نے بھی مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ مل کر متحدہ اپوزیشن کا قلندری نعرہ بلند کیا اور یوں لگنے لگا کہ بجٹ کے معاملہ پر تحریک انصاف کی سرکار کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مرکز میں مسلم لیگ ق کے لوگ بھی اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کرتے نظر آئے۔ صرف شہباز شریف اس موقع پر خاموش تھے۔ صحت اور سیاست دونوں کی طرف سے ان کو تشویش تھی۔ پھر کیا ہوا اور کچھ یوں ہواکہ تمام گمان ، قیاس اور اندازے ایک دفعہ پھر مات کھا گئے اور بجٹ منظور کروا لیا گیا۔ کچھ ایسی ہی گھمبیر صورت حال گزشتہ سال درپیش تھی۔ عمران خان کی سرکار نے فیصلہ کیا تھا یا ان کو اندازہ تھا کہ علاقائی تناظر میں بھارت کے عزائم بہت جارحانہ ہوتے جا رہے ہیں اور ایسی صورت حال میں افواج پاکستان کی کمانڈ کی تبدیلی مناسب نہ ہو گی اور جنرل باجوہ کو مزید تین سال کے لئے چیف بنا دینا مناسب ہو گا۔اس پر اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔ پھر سپریم کورٹ کو نہ جانے کس کے کہنے پر خیال آیاکہ اگر ایسا کرنا ہے تواسمبلی سے اجازت ضروری ہے۔ اس وقت بھی متحدہ اپوزیشن عمران خان کی سرکار کو گرانے پر بس تیار ہی تھی۔ اگرچہ تحریک انصاف نے سابق وزیراعظم کو سزاکے باوجود ملک سےباہر جانے پر اعتراض نہیں کیاصرف پنجاب ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ معاملہ قانون کی مرضی سے طے کیا جائے سو سابق وزیراعظم اعلیٰ معالج کی تلاش میں لندن چلے گئے اور پھر ایک دفعہ متحدہ اپوزیشن نے عمران خان کی حکومت کے ساتھ مل کر جنرل باجوہ کو افواج کے کمانڈر کی حیثیت میں توسیع دے دی۔ اس معاملہ میں پاکستان کے دوست مہربان ملک بھی خوش تھے اور سرکار کو اعتماد میسر آیا۔اس وقت پاکستان پر چار ادارے حکومت کر رہے ہیں۔ ایک ادارہ تو عمران کی کابینہ ہے۔ دوسرا ادارہ متحدہ اپوزیشن ہے۔ تیسرا ادارہ نیب کا ہے اور چوتھا ادارہ صوبے او رمرکز کی اعلیٰ عدالتیں ہیںلیکن ان چاروں کا ہی عوام کے لیے کوئی خاص کردار نظر نہیں آتا۔ ویسے تو اسمبلی میں بڑا شور شرابا رہتا ہے اور بے چارے اسپیکر صاحب کیلئے تماشا دکھانے والوں کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دو سال میں اس اسمبلی نے عوام کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ ممبران اسمبلی کو اندازہ ہی نہیں کہ ملک کی معیشت کو ان کے تجربے اور اعتماد کی ضرورت ہے۔ عمران خان کی سیاسی ٹیم بھی اپوزیشن الیون کے سامنے کچھ ڈری ڈری سی رہتی ہے۔ دوسرے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اپنی ناسازی طبع اور اپنی جماعت کے اندر مریم کی مخالفت کی وجہ سے کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں۔

عمران خان کی سرکار کو جمہوریت کی وجہ سے بہت ڈھارس ہے۔ اسے معلوم ہے کہ قومی اور صوبائی ممبران اسمبلی کو اپنی حیثیت اور اہمیت کا اندازہ ہے۔ عمران خان سنجیدہ ہے اور وہ سب جو حزب اختلاف سے تعلق بتا رہے ہیں، رنجیدہ ہیں۔ بے چارہ بلاول سابق صدر آصف علی زرداری کے زیر سایہ رہا، اس کی سیاسی آبیاری نہ ہوسکی۔ دوسری جماعت مسلم لیگ نواز اس جنگ میں اندرون خانہ شدت سے تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس کے خوشگوار تعلقات اپنی پرانی حریف مسلم لیگ ق کے ساتھ کسی نئے اتحاد کی بنیاد رکھتے نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کو مکمل اندازہ ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوسکتا ہےلیکن اس کی اس کو زیادہ فکر نہیں۔ اس کے لیے جمہوریت کے سایہ کے نیچے دو وزیراعظموں کو عدالت برخواست کر چکی ہے۔ اب کیا ہو سکتا ہے اس کی سب ہی فکر کر رہے ہیں۔اس وقت پاکستان کے اردگرد بھی تبدیلیوں کی لہر نظر آ رہی ہے۔ امریکہ افغانستان میں ہمارے رسوخ کو استعمال کرکے طالبان سے مثبت بات چیت کے لیے تیار نظر آرہا ہے۔ ایران آنے والے متوقع دنوں سے مقابلہ کی تیاری میں ہے۔ بھارت فیصلہ کر چکا ہے کہ اس کو پاکستان سے جنگ کرنی ہے اور ہماری عسکری قیادت کو مکمل اندازہ ہے۔ امریکہ بھارت کو روکتا بھی ہے مگر چین کی وجہ سے امریکہ پریشان ہے۔ وہ چین کی بھارت سے جنگ نہیں چاہتا۔ وہ مروجہ بین الاقوامی اصول کے مطابق جن علاقوں پر قابض ہو چکا ہے وہ اب اس کے ہیں کیونکہ ایسا ہی اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کیا اور دنیا میں کوئی ان کی مدد کو نہ آیاالبتہ پاکستان سے جنگ کی تیاری میں ہے اورقرائن بتاتے ہیںکہ یہ جنگ ہوگی جس کے نتیجہ میں کشمیر فریقین کیلئے ایک سنجیدہ اکائی کی صورت میں قابلِ قبول ہوگا۔

اس ساری صورتحال میں دوست اور دشمن سب دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں اختیارات کی ایک جنگ جاری ہے۔ ملک کے اہم ادارے اپنے اختیارات کا خوب استعمال کر رہے ہیں۔ اسکی وجہ سے جمہوریت کو مسلسل خطرہ درپیش رہتا ہے۔کچھ مبصرین کا موقف ہےکہ عمران کو لانے والے لوگ ان سے مایوس ہوچکے ہیں۔ مگر مجبوری ہے کہ عمران کا متبادل نہیں مل رہا۔ دوسری طرف ملک کا جمہوری نظام مکمل طور پر بےبس دکھائی دے رہا ہے، صوبے خودمختار ضرور ہیں مگر وہ اہلیت سے محروم نظر آ رہے ہیں پھر ایسے میں کون سا نظام ملک کی وحدت اور ریاست کیلئے ضروری ہو سکتا ہے۔ صدارتی نظام کی خامیاں امریکی جمہوریت میں بھی نمایاں ہیں۔ ترقی کیلئے نظام کی قید سے آزاد ہونا ضروری ہے۔ ایسے میں دعا ہے۔

کبھی مایوس مت ہونا

امیدوں کے سمندر میں

تلاطم آتے رہتے ہیں

سفینے ڈوبتے بھی ہیں

لیکن امید کا سفر جاری رہتا ہے