کیا ہم نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے؟

July 11, 2020

’سرگزشتِ آدم‘ میں اقبال رقمطراز ہیں:

رہی حقیقتِ عالم کی جُستجو مجھ کو

دِکھایا اوجِ خیالِ فلک نشیں میں نے

مِلا مزاج تغیّر پسند کچھ ایسا

کِیا قرار نہ زیرِ فلک کہیں میں نے

کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا

کِیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے

سُنایا ہند میں آکر سرودِ ربّانی

پسند کی کبھی یُوناں کی سر زمیں میں نے

دیارِ ہند نے جس دم مری صدا نہ سُنی

بسایا خطّۂ جاپان و مُلکِ چیں میں نے

ڈرا سکِیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں

سِکھایا مسئلۂ گردشِ زمیں میں نے

لہُو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو

جہاں میں چھیڑ کے پیکارِ عقل و دیں میں نے

اکیسویں صدی کی موجودہ شعوری، سائنسی، تہذیبی اور اخلاقی ترقی کسی ایک جست میں وقوع پذیر نہیں ہوئی یہ صدیوں کی جدوجہد اور انسانی لگن کا ثمر ہے۔ اس سفر میں فراز کے ساتھ نشیب بھی آئے لیکن اولوالعزم انسانوں نے نامساعد اور بدترین حالات میں بھی حوصلہ نہیں ہارا، بیس راستے بند پائے تب بھی حکمت محنت اور نئے ولولے کے ساتھ اکیسواں راستہ ڈھونڈا یا تراش لیا۔لٹکتی کلیسائی تلواروں میں بھی اہل فکر و نظر نے انسانوں کو مسئلہ گردش سمجھانے کا گُر،ہنر یا اسلوب ڈھونڈ نکالا۔ایک کروسیڈ وارز کا زمانہ تھا جب مذاہب کے مقدس ناموں پر سینکڑوں زمینی خطوں کو انسانی خون سے سرخ کردیاگیا اور سچ تو یہ ہےکہ شدت اور جدت کی یہ جنگ ہنوز تھمنے کا نام نہیں لے رہی آج بھی ناموں کو بدل کر تقدس اور شعور کی ٹسل جاری و ساری ہے۔

انسانی روایتی تفاخر کبھی اپنی جن نام نہاد کامرانیوں کو عروج کی معراج سمجھتا تھا زمانے نے وہ سارے فراز تعلی بازوں کے منہ پر دے مارے، وہ بڑے بڑے فاتحین جو اپنے اپنے زمانوں کے خلفا اور بادشاہ کہلائے، سروں پر جرنیلی ٹوپیاں اور کندھوں پر چمکتے تمغے اور بیجز سجائے بعد ازاں تاریخ کے کٹہرے میں انسانیت کے بدترین مجرم قرار پائے کیونکہ انہوں نے محبت اور خدمت کے ذریعے انسانی دلوں میں گھر بنانے کی بجائے بے بس انسانوں کے گھروندوں کو ظلم و جبر کے ہتھیاروں سے روندا، محبتیں بانٹنے کی بجائے منافرتوں کے بیج بوئے اور اذیتیں بانٹیں۔ وہ سکندر کیا تھا جس نے ظلم سے جیتا جہاں؟ آج وہ رومن یا منگول ایمپائرز کہاں ہیں جن کی بنیادیں استبداد پر استوار تھیں؟ آج وہ عظیم الشان برٹش ایمپائر کہاں ہے جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اب کہیں شاذ ہی سورج دکھتا ہے۔

بگڑی ذہنیت والے خود پسند حکمرانوں نے تاریخ سے سیکھنا ہو تو بہت کچھ ہے لیکن اگر خود نمائی و کج روی پر ہی مصر رہنا ہو تو آنکھوں دیکھی حقیقتوں سے بھی نظریں چرائی جا سکتی ہیں من پاپی حجتاں ڈھیر۔ آج اپنے وطن عزیز کی حالت زار دیکھتے ہوئے دل افسردہ و رنجیدہ ہو جاتا ہے۔ اسی خطہ ارضی پر صدیوں سے پچانوے فیصد لوگ امن و خوشحالی اور بھائی چارے کے ساتھ رہ رہے تھے، کبھی ہند کو اقوام عالم میں سونے کی چڑیا قرار دیا جاتا تھا، جسے نوچنے کے لئے کبھی دیبلتو کبھی درہ خیبر کے رستے لٹیرے حملہ آور ہوتے رہے۔ بیرونی حملہ آوروں نے ہمیں صرف لوٹا ہی نہیں ہمارے درمیان موجود نسلی، لسانی اور مذہبی اختلافات کواس قدر ابھارا کہ ناسمجھ بچے ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہوگئے۔ بڑے بزرگوںنے عافیت اسی میں سمجھی کہ آنگن میں دیوار کھڑی کرلی جائے تاکہ دونوں بھائیوں کی اولادیں اپنا کمائیں اور اپنا کھائیں۔ حالانکہ عصر حاضر کی کوئی قومی ریاست ہے جس میں شہریوں کے درمیان نسلی، لسانی یا مذہبی رنگا رنگی موجود نہیں ہے، دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور امریکا کی مثال ہمارے سامنے ہے اگر افراد قوم باشعور مہذب اور تعلیم یافتہ ہوں تو اختلاف کے باوجود اشتراک کی بنیادیں ڈھونڈتے ہوئے باہم مل بیٹھ کر خوشگوار زندگی کے اسلوب ڈھونڈ لیتے ہیں۔ بہرحال جو ہونا تھا ہوگیا اب تاریخ کا پہیہ پیچھے کو نہیں گھمایا جاسکتا۔

آج ضرورت اس امر کی تھی کہ ہم لوگ اپنے اپنے خطوں میں بھوک ننگ، جہالت اور منافرت کے خلاف کمربستہ ہو جاتے اور اپنے عوام کوترقی و خوشحالی سے مالا مال کرتے، جہاں آئین اور قانون کی حکمرانی ہوتی۔ عوامی جمہوریت کا دور دورہ ہوتا، عوام کی آزادانہ مرضی سے حکومتیں ٹھہر پاتیں اور تبدیل ہوتیں، مگر یہاں ہو کیا رہا ہے؟ اس ملک کے اصل وارث بائیس کروڑ عوام ہر ہر حوالے سے رل رہے ہیں، حریت فکر اور آزادی اظہار پر جبر و استبداد کے نادیدہ پہرے ہیں، عوام کالانعام تو رہے ایک طرف اس مملکت خدا داد کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے چیئرمین میر شکیل الرحمٰن کو ایک سو بیس دن ہوگئے پابند سلاسل کئے ہوئے، 34سال پرانے ایک ایسے مقدمے میں جس کا کوئی سر ہے نہ پیر۔ سمجھنے والوں کے لئے دیگ کا یہ ایک دانہ کافی ہے۔ دو دن طویل بحث سنی، ایک ایک نقطے پر عقلی، شعوری اور قانونی گتھیاں سلجھائی گئیں، قانونی حوالوں اور عدالتی نظیروں کے ساتھ ان سوالات کے جوابات بھی دیئے گئے جو اٹھائے تک نہ گئے تھے ، کھچا کھچ بھرے ہوئے وسیع کمرے میں کوئی ایک فرد بھی نہ ہوگا جسے انصاف ملنے میں کوئی اشتباہ ہو اور پھر یہ تو محض ضمانت کا ایشو تھا ایک ایسے کیس میں جس کے اندر درجن بھر جھول ہیں۔ چرچل نے جو بھی کہا تھا درویش کے منہ سے اناللہ ہی نکلا اور یہ کہ کیا ہمارے بزرگوں نے یہ ملک اس ظلم، جبر اور گھٹن کے لئے حاصل کیا تھا۔

نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے

گھٹ کے مر جائوں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے