ترجیح۔ بچے کی صحت یا پڑھائی

July 12, 2020

آج اتوار ہے۔ ویسے تو پچھلے چند مہینوں سے آپ ہر دن ہی بچوں کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ لیکن اس اتوار آپ کے بچے بچیاں آپ سے اپنے اسکول کھلنے کے بارے میں بہت سے سوالات کریں گے۔ کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں۔ اسلام آباد سے اعلان ہوا ہے کہ درسگاہیں 15ستمبر سے کھول دی جائیں گی۔ یہ خوشخبری بھی ہے اور بہت نازک ذمہ داری بھی۔

5جولائی کے کالم کے آخر میں، میں نے عرض کیا تھا کہ 14اگست کو ہم کورونا سے بھی آزادی کا دن منائیں اور یکم ستمبر سے کاروبار اور درسگاہیں کھولنے کی منصوبہ بندی کریں۔میں یہ دعویٰ تو ہر گز نہیں کروں گا کہ حکمرانوں نے یہ فیصلہ میری تحریر پڑھنے کے بعد کیا ہوگا۔ اتنے طویل تجربے کے بعد مجھے کوئی خوش فہمی نہیں ہے کہ حکمران اخبار یا نوشتۂ دیوار پڑھنے لگے ہیں۔البتہ مجھے یہ تسکین ہوئی ہے کہ حالات کے مسلسل مشاہدے کے بعد میرا اندازہ درست نکلا ہے۔ اللہ کے فضل سے ڈاکٹروں، نرسوںاور اسپتال کے دیگر عملے پولیس، ضلعی انتظامیہ کی دن رات محنت کی بدولت پاکستان میں اب متاثرین کی تعداد میں کمی آرہی ہے، اموات کی شرح بھی گھٹ گئی ہے۔ مجموعی طور پر دنیا میں بھی وبا کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ ما سوائے دو ظالم مملکتوں امریکہ اور بھارت کے۔ جہاں کے حکمران خبط، غرور اور تکبر کے گھوڑوں پر سوار ہیں اور اس کی سزا ان کے شہری بھگت رہے ہیں۔

ہمارے ہاں ستمبر اور آج کے درمیان ایک کٹھن مرحلہ عید الاضحی کا ہے۔ اس کے لیے ڈاکٹر ابھی سے احتیاط کی ہدایت کررہے ہیں۔ حکومت بھی خبردار کررہی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ہمارے جراتمند اور غیور عوام کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ جولائی کا آخری اور اگست کا پہلا ہفتہ ہم سے بہت زیادہ احتیاط کا متقاضی ہوگا۔ایک ہفتے میں قربانی کا جوش ہوگا۔ دوسرے میں آزادی کا۔ احتیاطی تدابیر پس منظر میں جانے کا خدشہ رہے گا۔ یہ دو ہفتے بخیر و عافیت گزرنے کے بعد ہی حتمی اندازہ ہوسکے گا کہ درسگاہیں خاص طور پر پرائمری اسکول کھولے جاسکتے ہیں یا نہیں۔معاملہ نئی نسل کا ہے ۔وبا کے شروع ہوتے ہی عالمی ادارۂ صحت نے پوری دُنیا کو یہ ہدایت دی تھی کہ اس ہلاکت خیز وبا سے نئی نسل کو بچایا جائے۔ زیادہ تر ملکوں میں اسکول ہی سب سے پہلے بند کیے گئے۔ حکمت یہ تھی کہ 50سال سے اوپر کے لوگ تو زندگی کی کئی بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ مگر وہ نسل جو زندگی کا آغاز کررہی ہے اسے ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھا جائے کہ دنیا اب ان کو سنبھالنی ہے۔ یہ یقیناً بہت صائب حکمت عملی تھی۔ ہمارا مستقبل محفوظ رہا ہے۔ اب جب ہم کئی ماہ کی غیر حاضری کے بعد اسکول کھولنے جارہے ہیں تو اس آفاقی حکمت کے تناظر میں ہی لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے۔

ہمارے ہاں آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کی طرف سے ستمبر میں درسگاہیں کھولنے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے فوری کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان کی طرف سے خدشہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستان کے بچوں کی بڑی تعداد ایسے پرائیویٹ اسکولوں کالجوں میں پڑھ رہی ہے جہاں فیسیں بہت کم ہیں۔ ان اداروں کو مالی استحکام حاصل نہیں ہے۔ زیادہ دیر بند رہنے سے ان کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ دوسرے ملکوں میں درسگاہیں کھولنے کا مطالبہ بچوں کے علمی نقصانات کے حوالے سے کیا جارہا ہے۔ آن لائن کلاسز کی کوششیں کی گئیں مگر ان سے طالب علم مطمئن ہیں نہ اساتذہ نہ والدین۔ اس کی بنیادی وجہ بجلی کی عدم فراہمی بھی ہے۔ پھر ہر گھر میں نہ تو کمپیوٹر موجود ہے نہ اتنی وسعتیں کہ سارے بچے اپنے اپنے کمپیوٹر پر الگ الگ کمروں میں کلاس میں شرکت کرسکیں۔ پھر اساتذہ کی اس سلسلے میں تربیت بھی نہیں ۔ اس طرح بچے اپنے نصاب کی تدریس میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں زیر بحث اب یہ سوالات ہیں کہ بچے اسکول سے اتنا عرصہ دور رہے ہیں ان کی ذہنی صورت کیا ہے۔ وبا سے کتنے خوف زدہ ہیں۔ ماہرین تعلیم، محکمۂ تعلیم، تھنک ٹینک، میڈیا اور صحت سے متعلقہ ادارے مل جل کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کررہے ہیں کہ 1۔ اسکول کھولنے سے پہلے کیا کیا اقدامات ضروری ہیں۔2۔اسکول بسوں میں سماجی فاصلہ کیسے رکھا جائے۔3۔ والدین کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی۔ 4۔ ریاست ۔ صوبے مقامی حکومتوں کو تبدیل شدہ حالات میں کیا فرائض انجام دینا ہوں گے۔ وہاں تین نکات کلیدی حیثیت اختیار کررہے ہیں۔مشورہ۔ اشتراک عمل۔ ابلاغ۔ اسکولز انتظامیہ کی ایسوسی ایشن۔ ڈاکٹروں نرسوں کی تنظیمیں۔ اسکولوں کے سرکاری بورڈ آپس میں میٹنگیں کرکے طے کررہے ہیں کہ بچے کی صحت بھی اولیں ترجیح ہے اور پڑھائی بھی۔ دونوں میں توازن کیسے رکھا جائے۔ اتنی بڑی تعداد میں اسکولوں میں کسی ہنگامی صورت حال میں ڈاکٹر نرسیں کتنی دیر میں پہنچ سکیں گی۔

15ستمبر میں ابھی دو ماہ باقی ہیں۔ اسکولز ایسوسی ایشن، محکمۂ تعلیم اور والدین سب کو میٹنگیں کرنی چاہئیںکہ نئی صورت حال میں کیا اقدامات اور تدابیر اختیار کی جائیں۔ خاص طور پر اسکول ٹرانسپورٹ میں کھٹارہ وینیں۔ جن میں بچے ایک دوسرے پر لدے ہوتے ہیں۔ سماجی فاصلے کی احتیاط کیسے ہوسکے گی۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں کھلے اسکول سماجی فاصلے کی پابندی کیسے کریں گے۔ سرکاری اسکولوں کی بلڈنگیں بڑی ہیں مگر وہاں حفظان صحت نہیں ہے۔ یہ نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ اسکولوں درسگاہوں میں اب خدمات کے شعبے کو فعال کرنا ہوگا۔ بچوں کی صحت کو سوچ کا محور بناتے ہوئے ۔ اسکولوں کے چوکیدار ماسیوں اور انتظامیہ کو اس عرصے میں تربیت دی جائے۔ دنیا بھر میں تعلیمی اداروں میں Whole Child Approach کا چرچا پھر چھڑ گیا ہے۔ یعنی بچے سے متعلقہ تمام امور کا بیک وقت خیال رکھا جائے۔ کہ ہر علاقے ہر اسکول میں ہر بچہ صحت مند ہو، محفوظ ہو، مصروف ہو اور مامون ہو۔ اور اس کو اپنی صلاحیت کے اظہار کا موقع دیا جارہا ہو۔ اس کے ذہن میں تڑپتے سوالات کا جواب دیا جارہا ہو۔ کیا ہمارے پرائیویٹ اسکول، سرکاری اسکول، محکمۂ تعلیم اور میڈیا ذہنی طور پر اس مجموعی رویے کے لیے تیار ہیں۔