پٹھو گرم

July 12, 2020

اب تو طوطا مینا کی کہانیوںمیںچھپے اشاروںمیںسیاست کے احوال جاننے اور بیانیے کا زمانہ ہے۔ اور اس دور کا سب سے بڑا کہانی کار ہمارے دوست سہیل وڑائچ کے سوا کوئی ہے بھی نہیں۔ خوابوں، طلسماتی پرندوں، خودکلامی اور فرضی قصوںکے سہارے کوئی ان سے ابلاغ کا سبق سیکھے تو کیسے۔

پژمردہ ماڈل اور حالات کی بے بساطی میںکوئی اُمید کے دیے ٹمٹمائے بھی تو اُس کی لَو سے کچھ نظر آنے والا نہیں۔ پھر ہمارے ملامتی دوست ہیں جو پچھلوں کو کوستے ہیں کہ اگلے سے پریشان ہیں۔ اور میڈیا پہ وہ اُودھم مچا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ اصل سوال اوجھل کیے جا رہے ہیں اور مضحکہ خیز بیانیے ہیںکہ ختم ہونے کو نہیں۔ ’’مائنس وَن‘‘ کی شُرلی چھوڑنے والوں سے کوئی پوچھے کہ اب اس آپشن کے پلے رہا کیا ہے۔

دو کو مائنس کرکے ایک کو لایا گیا تو اُسے مائنس کر کے بچے گا بھی تو کیا۔ آخر پٹھو گرم بھی تو کھیلنا ہے۔ اس لیے کوئی ایک پٹھو گرم بنے یا دوسرا ہوگا تو پٹھو گرم۔

اب پٹھو گرم کا کھیل جمہوری تماشے کا تماشہ نہیںتو کیا ہے۔ اس میںبیچاری مرحومہ مسمات جمہوریت کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے۔ جوںجوںروایتی سول سروس اور اس کے مضمحل ڈھانچے حالات کی تاب نہیںلا پا رہے، ویسے ویسے مستعد اور تازہ دم دستے اُن کی جگہ لے رہے ہیں۔

کورونا خوفناک وبا میںبھلا ایک منہنی سی وزارتِ صحت نے کیا کرنا تھا لہٰذا نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر (NCOC) نے ہنگامی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ نام بھی بڑا اور کام بھی۔ اب پانچ ہزار لوگوں کے مرنے پہ شادیانے نہ بجائے جائیں تو کیا کیا جائے کہ خدانخواستہ ابھی پچاس ہزار اموات تو نہیںہو گئیں۔ ’’گروہی مدافعت‘‘ کا نظریہ اگر کام نہیںبھی آیا تو کیا ہوا، مالتھس کے نظریۂآبادی کی تسکین کا کچھ اہتمام تو ہوا۔

پچھلے برس سے ٹڈی دل کے حملے کے انتباہ سُننے میں آرہے تھے اور پاک معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت کی حفاظت کے لیے ذرائع تھے نہ ساز و سامان۔ محکمہ ہائے زراعت، موسمیات اور انسانی خوراک کی سلامتی کی وزارت والے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہ گئے۔

ٹڈی دل کا ایک حملہ جاری ہے اور دوسرے کی آمد کا انتظار ہے۔ اب چنائو صرف یہ ہے کہ ٹڈی دل کو مارو یا قحط سالی کی بھینٹ چڑھ جائو۔ آخر انسانی سلامتی کا بوجھ بھی اُنہی پہ ڈال دیا گیا جنہوںنے کورونا کے خلاف جنگ کی کمان سنبھالی تھی۔ خیر سے نیشنل لوکسٹ کنٹرول سنٹر (NLCC) نے اب ٹڈی دل کے خلاف مورچہ سنبھالا ہے۔

یادش بخیر جب گزشتہ زلزلہ آیا تھا اور بعد ازاںبدترین سیلاب تو نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) وجود میںلائی گئی تھی اور اس کے تجربات اتنے ’’گراںقدر‘‘ تھے کہ اب نومولود اتھارٹیز کے کام آ رہے ہیں۔

نیشنل لاجسٹکس سیل (NLC) ہو، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن یا پھر سی پیک اتھارٹی (اسٹیل ملز، پی آئی اے وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا۔) ان سے زیادہ تجربہ کار، مشاق اور توانا ادارے کہیں ہیں جو چراغ لے کے ڈھونڈنے سے بھی ملنے سے رہے۔

لگتا یہی ہے کہ جمہوریت کے انہدام کے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ منہدم ہو گیا ہے۔ پولیس کا نظام ہو یا پھر عدالتی نظام سب کے سب گڈ فار نتھنگ ہو چکے۔ کراچی میںجب امن مستقلاً تباہ ہو گیا تو کام تو رینجرز ہی آئے۔ دہشت گرد تھے کہ عدالتوںسے چھوٹتے جاتے تھے تو جمہوریت پسندوںکو ملٹری کورٹس کی کڑوی گولی کھانی پڑی تھی۔

اب اگر عدالتی تعیناتیوں پہ انگلیاںاُٹھ رہی ہیںاور احتساب عدالتوںکے ججوںکی بھد اُڑ رہی ہے تو کسی کو کہیںنہ کہیںقومی ذمہ داریاں پوری کرنے کی فکر تو ہوگی۔ اب حزبِ اختلاف والے اٹھارہویںترمیم اور ساتویں نیشنل فنانس کمیشن کے دفاع میںکیسے ہی لگے رہیں۔ ریاست کے ہر میدان میںسویلین ڈھانچوںکی ناکامی کے خلا کو کسی نے تو پورا کرنا ہے۔ احتساب کے اس دور میںحکومت جس طرحمافیائوںکو للکار کر پسپا ہوئی ہے تو کیا مافیاز یونہی کھل کھیلتی رہیںگی۔

اب بھلے عمران خان جتنے جتن کر لیںاور اپنے افسروں اور وزیروںکی ناختم ہونے والی بریفنگ سے تنگ آ کر اُنہیں کارکردگی دکھانے کی دھمکیاںدیں، مافیاز کے فتنے اُن سے سنبھلنے والے نہیں۔ آخر کہیں تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگا۔ جب معیشت کا پہیہ چلے گا نہ ٹیکس وصول ہوگا تو ہماری سلامتی کے نگہبان ہاتھ ملتے تو نہیں رہ جائیںگے۔

خان صاحب بھول جاتے ہیں کہ وہ ’’پٹھو گرم‘‘ کے کھیل کے پٹھو ہیں اور پٹھو کا تو کام ہی ہے کہ اُسے مار پڑتی رہے۔ لیکن لگتا ہے کہ کپتان کی کوئی زیادہ ہی پٹائی ہو رہی ہے۔

شاید اس لیے بھی کہ وہ بغیر ٹیم کے کپتان ہیں اور جو ٹیم اُن کے کام آ رہی ہے اور قومی فرائضکی بجاآوری میںکوئی دقیقہ فروگزاشت نہیںکر رہی وہ اس کے کپتان نہیں۔ اُس ٹیم کا کپتان وہی ہے جو محاورے کے مصداق جس کا کام اُسی کو ساجھے تو پھر ہمارے وزیراعظم کے پلے رہا کیا کہ اُن کا پٹھو گرم ہوتا رہے۔ اس سے زیادہ کردار اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟ ایسے میںکوئی قائد حزبِاختلاف شہباز شریف سے پوچھے کہ بہت سی بیماریوںاور کمر کی تکلیف کے باوجود کیا وہ اپنا پٹھو گرم کروانا چاہیںگے؟

یہی سوال آصف علی زرداری صاحب سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اُن کی تو اب حالت جیسی ہے وہ کم از کم پٹھو گرم کروانے والی نہیں۔ مزاح سے قطع نظر پٹھو گرم کے کھیل میںبچے کھچے جمہوریت پسندوںکو کیا پڑی ہے کہ وہ پٹھو گرم کے کھیل میںبچی کھچی عزتِسادات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ لگے رہو منا بھائی، اور پٹھو گرم کرتے رہو۔ ہمیںاس سے کیا غرض!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)