باچاخان مولانا مودودی اور سیاسی اخلاقیات

July 12, 2020

پاکستان میں نظریاتی سیاست شاید آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ہر سیاسی ومذہبی جماعت کم یا زیادہ مگر موقع پرستی کے زیر اثر ہے۔بار بار کے مارشل لااور ابن الوقت عناصر کو سیاست وریاسست سے مالی وانتظامی و اختیارات سے لطف اندوز ہوتا دیکھ کر اچھے اچھے سیاستدان بھی اس نتیجے پر پہنچنے لگے کہ جمہوریت وملکی ترقی کیلئے جدوجہد وقربانی سے بہتر وآسان راستہ یہ ہے کہ مشروط و نظریات بیزار سیاست اختیار کرکےجتنا ہوسکے ذاتی ،گروہی وجماعتی مفاد سمیٹا جائے۔یہی وجہ ہے کہ جب جب جمہوری استحکام کیلئے فیصلہ کن کردار کا موقع آتاہے یہ سیاستدان اصول برائے فروخت کا بورڈ آویزاں کرنے میںایک دوسرے سے سبقت لے جاتے نظرآئےہیں۔اب جب سیاست کو خدمت کی بجائے کاروبا رجان لیا جائے تو پھر سیاسی اخلاقیات کا وہی حال ہوگاجوان دنوں مشہود ہے۔مسلم لیگ پریشان کہ جب بھی خواجہ آصف جیسے جہاندیدہ،سینئراور عمر رسیدہ سیاستدان اسمبلی میں خطاب کرکے بیٹھ جاتےہیں تو ایک نووارد،ناتجربہ کاراور لڑکا نمارکن قومی اسمبلی مراد سعید اُنہیں ایسے کرخت لہجے میں ترکی بہ ترکی جواب دینا شروع کردیتا ہےکہ یخ بستہ اسمبلی میں پسینےکے فوارے چھوٹنے لگ جاتے ہیں۔سوا ل یہ ہے کہ سیاست کیونکر اس مقام تک آپہنچی ہے۔کیا ن لیگ و پیپلز پارٹی نے سیاست کو اصولوں پر استوار رکھنے، شائستہ روایات کو پروان چڑھانے اور جمہوریت کو اُسکی روح کے مطابق نافذ کرنے کیلئے اُسی طرح کا کردا ر اداکیا ہے جو متقاضی تھا؟ ایسا نہیں ہے وگرنہ سیاست یوںبازاری نہ لگتی کہ لوگ دھوکہ دہی کو سیاست تصور کرنے لگے ہیں۔یہ درست ہے کہ آمروں کا کمال لاجواب ہے لیکن ان کے دست وبازو کون بنتے رہے ہیں۔راقم مروجہ سیاست کا نوحہ اس لئے پڑھ رہا ہے کہ سیاست کے دروبام نے ایک زریں دور بھی دیکھا تھا۔آئیے اس یادگار دور کی ایک جھلک ایک ملاقات میں دیکھتے ہیں، جوفکری طورپر بعدالمشرقین رکھنے والے برصغیر پاک وہندکے دو چوٹی کے رہنمائوں حضرت باچاخان اور حضرت سید ابو الاعلیٰ مودودی کے درمیان ہوئی تھی ۔اس ملاقات کا احوال ممتاز اسکالر اور عالم بے بدل جاویداحمد غامدی اپنے ایک پروگرام میں ایک سوال کا جواب دیتے ان الفاظ میں بتاتے ہیں۔’’ باچاخان سے میر ی پہلی ملاقات کا واقعہ اس لحاط سے بڑا اہم ہے کہ میں نے باچاخان کو ہمارے عہد کے جلیل القدر سید ابو الاعلیٰ مودودی کی عیادت کیلئے آتے دیکھا، اس زمانے میں مودودی صاحب شدید بیمار تھے ان کیلئے اُٹھنا اور چلنا انتہائی مشکل تھا، لوگ آتے تھے وہ وہیں اُن سے ملتے اور وہیں سے رخصت ہوتے تھے۔ عام طور پر لوگ بھی ان کی بزرگی کا لحاظ کرتے تھے ،صورتحال ایسی تھی کہ ملنے والے توقع بھی نہیں کرتے تھے کہ وہ اُٹھ کر باہر آئیں گے یا کرسی چھوڑیں گے ۔گھٹنوں کا مسئلہ تھا ،جب باچاخان ملنے آئے، ہم بھی اور دوست بھی موجود تھے،ملاقات کے بعد جب باچاخان رخصت ہونے لگے تو ہم سب نے پہلی بار دیکھا کہ سید ابو الاعلیٰ مودودی اپنے کمرے سےاُٹھ کر ان کے ہمراہ باہر جانےلگےاور برآمدےکی سیڑھیوں تک ساتھ گئے اور وہاں سے رخصت کیا۔ عام حالات میں تو یہ انہونی بات نہیں ، لیکن جب آدمی بیمار بھی ہو،اوراُٹھنا تک انتہائی مشکل ہو ،یہاں تک کہ وہ بادشاہوں،بڑی شخصیات سے بھی اپنے کمرے میں ملتے ہوں، لیکن باچاخان کا انہوں نےجس طرح احترام کیا،تو یہ عام نہیں خاص بات ہوجاتی ہے۔اس مجلس میں کسی نے سید ابو الاعلیٰ مودودی سے سوا ل کیا کہ یہ آج غیر معمولی معاملہ ہوا۔تو انہوں نے فرمایا کہ یہ شخص بھی ہماری تاریخ کا بڑا غیر معمولی آدمی ہے‘‘غامدی صاحب کا کہنا تھا کہ باچاخان نے اپنی قوم کی اصلاح کیلئے حیران کن مشقتیں اُٹھائیں، قیام پاکستان اور بعدمیں برسوں جیلوں میں رہے۔ نظریاتی لوگ قابل قد رہوتےہیں،اخلاقی روئیے نظریات کی بدولت ہی استوارہوتےہیں،ایسے لوگ کسی قوم کے وجو د کا خلاصہ ہوتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہےکہ اگر ہم کسی کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے تو اُسکی پوری شخصیت کو کوڑے دان میں ڈال دیتے ہیں‘‘...

سچ یہ ہے کہ اخلاقی معیاراوراصول ونظریات رکھنے والوں کوہی یاد رکھاجاتاہے، تاریخ لوٹے اورلٹیروں کا ذکر خائن اور بونوں کی حیثیت سے ہی کرتی ہے بدقسمتی سے ،مملکت خداداد کی تاریخ یہ رہی کہ بونے ہی معتبر بناکر پیش کئے جاتے رہے ،پھر ہمارا معاشرہ بھی کھرے کھوٹے میں خال خال ہی امتیاز کرسکا ہے، باچاخان اور مولانا مودودی جیسے درویشوں سے بےاعتنائی برت کر ہم نے حق شناسی کاوہ قرض نہیںچکایا جو ہم پر واجب الادا تھا۔