وہ لاہور کہیں کھو گیا

July 12, 2020

(گزشتہ سے پیوستہ)

لاہور میں جب رکشا ، ٹیکسی کا سفر عام ہوا تو ایوب خاں کے دور حکومت میں ہر ٹیکسی اور رکشا پر میٹر لازمی قرار کر دیا گیا۔ جو رکشا اور ٹیکسی میٹر کے بغیر ہوتی اس کا چالان کر دیا جاتا تھا۔ ہماری قوم کا دماغ منفی سرگرمیوں میں زیادہ چلتا ہے۔ چنانچہ رکشا اور ٹیکسی ڈرائیوروں نے ان میٹروں کو تیز کر دیا اور پھر آئے دن مسافروں کا ٹیکسی اور رکشا والوں سے کرائے پر جھگڑے شروع ہو گئے۔ حکومت ان ٹیکسی اور رکشا والوں کے خلاف کارروائی کرتی۔ انہوں نے اجازت دے دی کہ میٹر سسٹم ختم کر دیا جائے۔ بھارت میں غالباً اب تک میٹر سسٹم چل رہا ہے۔ ہمارے ہاں کسی رکشا اور ٹیکسی کا میٹر مقررہ فاصلوں کے مختلف کرائے بناتے تھے۔

چڑیا گھر کے باہر بڑی ٹیکسیاں کھڑی ہوتی تھیں جو سفید اور گرے رنگ کی ہوتی تھیں۔ موری دروازہ کے باہر پرائیویٹ کاریں کرائےپر ملتی تھیں جو بڑی شیور لیٹ، ایمبائر اوپل ، نورڈ بیوک وغیرہ ہوتی تھیں اور ان کے ڈرائیور ہر وقت ان گاڑیوں کو چمکاتے رہتے تھے۔ لاہور کی پرانی روایات میں تار گھر کا ذکر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔ شروع شروع میں لاہور میں بغیر ڈائل کے فون بھی آئے تھے۔ آپ فون اٹھاتے تو آپریٹر بولتا ، آپ نمبر بتاتے اور وہ ملا دیا کرتا تھا۔ ہمارے گھر میں جو فون لگا ہوا تھا اس کا نمبر 209تھا۔ کالے رنگ کے جرمن کے بڑے مضبوط اور خوبصورت سیٹ ہوا کرتے تھے۔ آپ کو کسی دوسرے شہر بات کرنا ہوتی تو ٹرنک کال بک کراتے اور کئی کئی گھنٹے آپ فون کے پاس بیٹھ کر ٹرنک کال کا انتظار کیا کرتے۔ جن لوگوں کے پاس ٹیلیفون کی سہولت نہیں تھی وہ تار گھر جاتے جو جی پی او کے سامنے تھا۔ لوگ ٹیلی گرام یعنی تار بھیجتے یا اپنے ملنے والوں کو پھر ٹرنک کال بک کرا کے وہاں بیٹھ جاتے اور وہاں پر بیٹھا ہوا بابو آواز دیتا کہ آپ فلاں بوتھ میں چلے جائیں۔ آپ کی کال لگ گئی ہے۔ آپ سے پوچھا جاتا کہ تین منٹ /پانچ منٹ بات کرنی ہے کبھی کبھار آپریٹر درمیان میں آ کر کہتا کہ وقت ختم ہو گیا مزید کال جاری رکھنی ہے یا کال کاٹ دوں۔ لوگ منی آرڈر بھی کرتے تھے۔ کیا خوبصورت زمانہ تھا سڑکوں پر بھی کبھی ٹیلی فون بوتھ ہوا کرتے تھے۔ آپ سکہ ڈال کر فون کر لیا کرتے تھے۔ ویسے تو جس گھر تار آتا وہاں لوگ گھبرا جاتے تھے۔ عموماً تار خوشی کی نہیں آتی تھی۔ پورے لاہور میں صرف ایک ٹیلی فون ایکسچینج تھا۔ کینٹ کا اپنا ٹیلیفون سسٹم تھا۔ جو فوج چلاتی تھی۔ بعد میں کینٹ میں بھی ایک ٹیلیفون ایکسچینج لگ گیا۔

1987-88ء تک ٹیلیفون لگوانے کے لئے بڑی بڑی سفارش کرانی اور رشوت دینا پڑتی تھی پھر رشوت ہماری سوسائٹی کا ایک حصہ بن گئی۔ لاہور میں نئے نئے علاقے، فصلوں کو ختم کر کے اور دیہات کو تباہ و برباد کر کے آباد کئے گئے، اگر لاہور سے دور ایک شہر آباد کرتے تو زیادہ مناسب ہوتا اور لاہور کا دیہاتی علاقہ اور خوبصورتی بھی محفوظ رہتے۔

لاہور کا پہلا لیٹر بکس دھنی رام روڈ پر لگایا گیا تھا۔ جس پر رائل پوسٹ لکھا ہوا تھا۔ ہم آج سے چند برس کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کے بارے میں ایک فیچر بنانے گئے تو ہماری نظر ایک لال رنگ کے لیٹر بکس پر پڑی۔ ہم نے قریب جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ اس پر رائل پوسٹ لکھا ہوا ہے۔ علاقے کے لوگوں سے معلوم کیا کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ جی پی او والوں سے رابطہ کیا ، انہیں بتایا کہ ایک تاریخی لیٹر بکس دھنی رام روڈ پر لگا ہوا ہے۔ اس کے بارے میں ہم نے خبر دی۔ اس لیٹر بکس کو کئی مرتبہ لوہا چوروں نے اکھاڑنے کی بھی کوشش کی تھی۔ یہ انتہائی مضبوط اور ٹھوس لوہے کا بنا ہوا تھا۔ اب سنا ہے کہ ڈاک خانے والے اس کو اپنے میوزیم میں لے گئے ہیں۔

کیا زمانہ تھا۔ لوگ خط لکھا کرتے تھے۔پوسٹ کارڈ دس پیسے کا تھا۔ جو لوگ خط کو محفوظ طریقےسے بھیجنا چاہتے تھے وہ رجسٹرڈ کر دیا کرتے تھے۔ کبھی محلے کے نوجوان، خط کے ذریعے اپنے پیار اور عشق کا اظہار کیا کرتے تھے۔ پھر خط پکڑے بھی جاتے تھے۔پوراشہر رات کو کوٹھے پر سویا کرتا تھا۔ ہمارے زمانے میں لوگوں کو دو گھوڑا بوسکی پہننے کا بڑا شوق تھا۔ امیر لوگ شادیوں پر دو گھوڑا بوسکی تحفے میں دیا کرتے تھے اور شادیوں میں ایک سو ایک روپے بطور سلامی دی جاتی تھی۔ کبھی ریس کورس پارک میں گھوڑ دوڑ ہوا کرتی تھی، ریس کورس کے انچارج کی کوٹھی بھی اندر ہوتی تھی یہ ریس کورس سروسز اسپتال کے بالکل سامنے تھا۔ اب تو یہ پارک بن چکا ہے۔

ہم نے اپنے بچپن میں بھاٹی گیٹ میں کئی براتیں ڈولی اور گھوڑے پر دیکھی ہیں ان دنوں ایک فلمی گانا ہمیشہ لاہور شہر کی باراتوں میں اکثر بینڈ والے بجایا کرتے تھے۔

دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا

امڑی دے دل دا سہارا

نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا

پھر بارات کے آگے بینڈہونا۔ پھر بڑے بوڑھوں کا بارات پر پیسے پھینکنا اور بچوں کا پیسہ اکٹھے کرنا۔ اس زمانے میں ٹکا، سوراخ والا سکہ، دو آنے، ایک آنہ، چار آنے کے سکے دولہا پر وار کر پھینکے جاتے تھے۔ یہ اس دور کی روایت تھی۔ پرانے لاہوری میری بات سے اتفاق کریں گے۔ جو دیگ کا کھانا اس زمانے میں پکایا جاتا تھا اس کی خوشبو دوسرے محلے تک جاتی تھی۔ خصوصاً پالک گوشت، مٹن پلائو اور زردہ کے ذائقے کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ مشہور گلوکار محمد رفیع کے بھائی حاجی محمد شفیع کے ہاتھ کی دیگیں تو مدتوں یاد رہتی تھیں۔ گلیوں میں چارپائی پر چاول ڈال کر دیگیں تیار ہوتی تھیں۔ لکڑی کی آگ پر تیار ان کی دیگوں کے ذائقے کا مقابلہ آج کوئی شیف نہیں کر سکتا۔ کیا خوبصورت دور تھا۔ پھر شادیوں پر آتش بازی، لائوڈ سپیکر پر گانے بھی لگائے جاتے تھے۔ ہر شادی گھر میں ہوتی تھی۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)