نظریاتی سرحدوں کی حفاظت؟

July 12, 2020

موجودہ حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں چند ایسے کام کئے ہیں جن سےوطن عزیز کے سیکولرازم کی طرف جانے کے خدشات قوی ہو گئے ہیں، غالباً اِس لئےکہ بین الاقوامی برادری کو ایک ترقی پسند اور لبرل پاکستان کی ضرورت ہے۔ ملک کو لبرل بنانے کا مقصد قراردادِ مقاصد کو ختم کرنا ہے۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں چاہیے کہ پہلے وہ یہ اسمبلیاں ختم کریں اور آئین ساز اسمبلی بنائیں کیونکہ موجودہ اسمبلی قانون ساز ہے آئین ساز نہیں ہے۔ ’’قرارداد مقاصد‘‘ ہمارے متفقہ آئین کا دیباچہ ہے جسے کسی بھی صورت ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایسا قانون اور بل پاس نہیں کیا جائے گا جو قرآن و سنت کے خلاف ہو۔آج کل جو لوگ پاکستان کے بیانیے کو تبدیل کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ قراردادِ مقاصد کو تبدیل کیا جائے۔ ان سے سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا قیام ایک لبرل اسٹیٹ کے لیے ہوا تھا؟ کیا لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے اس لیے دیے تھے؟ کتنے حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ آج بعض دانشور بانیانِ پاکستان اور ان لوگوں پر اعتراض کرتے ہیں اور نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان بنایا تھا اورجنہوں نے اس کے خاکے میں رنگ بھرا تھا۔ ہمارا آئین کہتا ہے کہ خلافِ شریعت کوئی بل پاس نہیں ہوگا، اور اس پر نگرانی کے لیے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ بنائی گئی ہے۔ یہ ادارہ اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کوئی قانون اور بل شریعت کے مطابق ہے یا نہیں۔ جب تک آئین میں یہ شق موجود ہے کہ ’’ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا،‘‘ اس وقت تک اسلامی نظریاتی کونسل کی ضرورت رہے گی،یہ ادارہ ختم نہیں ہو سکتا۔ بیسیوں ایسی چیزیں ہیں جن پر اسلامی نظریاتی کونسل اپنی سفارشات پیش کر چکی ہے، مگر حکومت عملدرآمد کروانے میں ناکام رہی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ یہاں مسلمان رہتے ہیں۔ ظاہر ہے مسلمانوں کے لیے جب قانون سازی ہو گی تو صرف ان سیاسی لوگوں پر تو اعتماد نہیں کیا جا سکتا جنہیں سورۂ اخلاص بھی نہیں آتی۔ اس اعتبار سے ہم سمجھتے ہیںاسلامی نظریاتی کونسل ملک کا اہم ترین ادارہ ہے۔ اس کو مزید مضبوط بھی کیا جانا چاہیے اور اس کی سفارشات پر عمل درآمد بھی کیا جانا چاہیے، ورنہ ہر حکمراں من مانیاں کرتا رہے گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح دھونس دھمکی کے ذریعے شریعت کا مطالبہ غلط ہے اسی طرح دھونس دھمکی کے ذریعے ملک کو لبرل بنانے کا ایجنڈا بھی غلط ہے۔ اگر پرویز مشرف اپنے دورِ حکومت میں لبرل انتہاپسندی کو بروزِ طاقت مسلط کرنے کوشش نہ کرتے تو انتہا پسندی بھی اتنی نہ بڑھتی ۔دوسری بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی قانون اور مذہب بھی کسی مقدس ذات کی گستاخی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ کیا ہمارا لبرل طبقہ یہ چاہتا ہے کہ اگر کوئی ہمارے اکابرینِ اُمت کے بارے میں کوئی ایسی بات کرے جو اُن کے شایانِ شان نہیں یا خاکمِ بدہن توہین رسالت کا مرتکب ہو تا ہے تو یہ اُس کا ذاتی فعل ہے؟ کیا یہ پرلے درجے کی انتہا پسندی نہیں ہے؟لبرل پاکستان کی جانب بڑھتے قدموں کو روکنے والی مذہبی جماعتوں کے بارے میں ایک مخصوص طبقہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ ان کو دینِ اسلام، مشرقی روایات اور قانون و آئین کی پامالی کا کوئی دُکھ نہیں ہے، بلکہ یہ سب اپنی سیاسی دکانیں چمکانے، اپنی اہمیت بڑھانے، اپنی گرتی ساکھ کو مضبوط کرنے کے لئے متحرک ہورہے ہیں۔ کسی کے کہنے یا نہ کہنے سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ یہ تمام مذہبی جماعتیں محب وطن و محب دین عوام کے دلوں کی ترجمانی کررہی ہیں۔ یہ معاشرے کو معتدل بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ملک کے آئین و قانون اور دینِ اسلام کی پاسداری کرنے والی مذہبی جماعتوں کے بارے میں ایسا سوچنا اور بدگمانی کرنا ان کے ساتھ ناانصافی اور تعصب والی بات ہے۔ 1956ء میں تمام مکاتب فکر کے 31 علماء نے جو 22 نکات پیش کیے تھے اگر ملک کو اس کے مطابق چلایا جاتا تو ملک دو لخت نہ ہوتا، اور نہ ہی وہ کنفیوژن ہوتی جو آج ہمارے ملک میں پائی جا رہی ہے۔ ہمارا لبرل طبقہ یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ جب ممتاز قادری کو قانون شکنی کی وجہ سے قانون کے مطابق سزا دی گئی ہے تو پھر یہ مذہبی جماعتیں سیخ پا کیوں ہو رہی ہیں جبکہ یہی طبقہ اس مشرف کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے جو قانون کو پاؤں تلے روندتے ہوئے بڑی رعونت کے ساتھ باہر چلا گیا۔ لبرل طبقے سے ہماری گزارش ہے کہ خدارا! محب وطن و دین عوام اور بانیانِ پاکستان کی روحوں پر رحم کریں۔ جو رُخ اور خطوط بانیانِ پاکستان نے متعین کردیے تھے، ان کو نہ چھیڑیں، ورنہ خاکم بدہن یہ ملک اور یہ قوم بکھرجائے گی۔ لبرل طبقہ یہ بات بھی ذہن میں رکھے کہ یہ ملک مذہب کے نام پر بنا تھا اور مذہب کے نام پر ہی باقی رہے گا۔ ملک و قوم کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ یہ مذہبی جماعتیں ہیں اور جغرافیائی سرحدوں کی محافظ پاک فوج ہے۔